مظہریت اور وجودیت: باسط میر
ادب اور فنونِ لطیفہ کا طالبعلم ہونے کے ناتے، مجھے ہمیشہ فلسفہ اور نفسیات کے مطالعے کا شوق رہا ہے۔ فلسفہ نہ صرف سوچنے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ ہمارے فکری افق کو وسیع کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جب ہم کسی مضمون کا مطالعہ کرتے ہیں، تو عمومی طور پر اس مضمون کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں تاکہ اسے بہتر سمجھ سکیں۔ مثال کے طور پر، جغرافیہ پڑھنے سے ماحولیاتی نظام یا دریا کے منبع سے دہانے تک کے سفر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن فلسفہ اس سے مختلف ہے۔ یہ ہمیں صرف وجودیت یا افادیت پسندی جیسے موضوعات سے آگاہ نہیں کرتا بلکہ ان موضوعات پر سوچنے کا طریقہ بھی سکھاتا ہے۔
فلسفیانہ مواد، جو منطق اور استدلال پر مبنی ہو، سوچنے کے عمل کی بہترین مثال فراہم کرتا ہے۔ اگر ہم سیکھ جائیں کہ کسی دلیل کو اس کے اجزا میں تقسیم کرنا ہے، تو نہ صرف دلیل کی ساخت کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ استدلال کی خامیوں، یعنی مغالطوں، سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ سازی میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مزید برآں، فلسفے کے مطالعے کے دوران ہمیں تاریخ کے مختلف ادوار کے بارے میں بھی علم حاصل ہوتا ہے، جو فلسفیانہ نظریات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مجھے حال ہی میں ایک منفرد کتاب ”مظہریت اور وجودیت“ پڑھنے کا موقع ملا، جس کے مصنف باسط میر ہیں۔ یہ کتاب اس لحاظ سے خاص ہے کہ یہ اردو میں لکھی گئی ہے، اور اس میں فلسفے کو غیر روایتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے عنوانات اور اندازِ تحریر عام قارئین کے لیے بھی قابلِ فہم ہیں۔ باسط میر نے فلسفے کے مشکل موضوعات کو نہایت سادہ زبان میں بیان کیا ہے، جو کہ اردو میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
کتاب کی تمہید میں فلسفے کی تعریف کو عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ وجودیت کے پس منظر کو محض تین صفحات میں اس طرح سمیٹا گیا ہے کہ قاری کو اس موضوع کی بنیادیں سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ کتاب میں آٹھ فلسفیوں کے کام کو شامل کیا گیا ہے، جن میں سورن کر کے گورڈ، ایڈمنڈ ہُسرل، مارٹن ہائڈیگر، مارٹن بوبر، ایمانویل لے وی ناس، ژاں پال سارتر، سیموں ڈی بوار اور مورس مرلو پونتی شامل ہیں۔ باسط میر نے ان فلسفیوں کے نام اور ان کے نظریات کو ان کی اصل زبان اور ثقافت کے مطابق پیش کیا ہے، جو کہ ایک منفرد اور قابلِ تعریف پہلو ہے۔
مصنف نے فلسفیوں کے نظریات کو تاریخی تناظر میں بیان کیا ہے تاکہ قاری ان کے فکری پس منظر کو بہتر طور پر سمجھ سکے۔ ان فلسفیوں کے کام پر بات کرتے ہوئے میر صاحب نے جو طریقہ استعمال کیا ہے اس کے مطابق انہوں نے پہلے بنیادی سوال یا مسئلے کو واضح کیا ہے، پھر اس پر پیش کنندہ کے علاوہ دیگر فلسفیوں کے نظریات کا ذکر کیا ہے اور اس کا خلاصہ اور نتیجہ بیان کیا ہے۔ فلسفیوں کے نظریات اور ان کے دور کے حالات کا ذکر بھی ہے تاکہ قاری پر نظریات کا مقصد بہتر طور پر واضح ہو سکے مختلف نظریات کے تقابلی جائزے اور مصنف کی اپنی رائے کتاب کو مزید دلچسپ اور فکر انگیز بناتی ہے۔ کتاب میں فلسفیوں کے نظریات کے ساتھ ساتھ ان سے منسوب کہانیاں بھی شامل ہیں، جو قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھتی ہیں۔
فلسفے کو عام طور پر خشک اور پیچیدہ سمجھا جاتا ہے، لیکن باسط میر نے اپنے سادہ اور واضح اندازِ تحریر سے اس غلط فہمی کو دور کیا ہے۔ ان کا اسلوب قاری کو فلسفے کے مشکل مباحث جیسے وجودیت، مظہریت، مابعد الطبیعات، اور نظریہ علم پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
کتاب کا انتساب بھی نہایت متاثر کن ہے
”ان تمام لوگوں کے نام جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے نہ صرف اس کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ انسان دوستی کی بنیاد پر اسے بدلنے کی جدوجہد بھی کرتے ہیں۔“
” ان تمام لوگوں کے نام جو اپنا سچ تلاش کرنے کے بعد اپنے آپ کو اپنے سچ میں مقید کرنے کی بجائے اپنے سچ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اپنے موقف میں تبدیلی کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ “
باسط میر کی یہ کتاب فلسفے کے اساتذہ، طالبعلموں، اور عام قارئین کے لیے ایک قیمتی اضافہ ہے اور ہر اس شخص کے لیے مفید ہے جو فلسفے کے بنیادی تصورات کو عام فہم انداز میں سمجھنا چاہتا ہو۔ یہ کتاب آرٹ لائنرز، اسلام آباد سے دستیاب ہے۔
- جعلی منٹو، نقلی عصمت - 17/01/2025
- مظہریت اور وجودیت: باسط میر - 05/01/2025
- نگاہ دگر کی روشنی (نظمیں) - 19/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).