ساس بہو کی باہمی نوک جھونک


dr badar habib sipra

کلمہ طیبہ سے کشیدہ کالی چادر میں لپٹا ہوا نوجوان، زندگی کی الجھنوں سے آزاد، ابدی نیند سو رہا تھا۔ گھر میں کربلا سا سماں۔ غم ایسا کہ اپنے تو اپنے، بیگانے بھی نڈھال۔ کوئی سر پیٹ رہا تھا، تو کوئی چھاتی۔ کوئی چھپ چھپا کے رویا، تو کوئی بلک بلک کر۔ مسکراتا اور تمتماتا چہرہ جیسے ان سب کو چڑا رہا تھا۔ چہرے پر کوئی شکن تک نہ تھی۔ نہ جانے کتنے دنوں کے بعد وہ سکون کی نیند سویا ہو گا۔ لیکن حقیقت سب کو جھنجھوڑ رہی تھی۔ سبھی لوٹ آنے کی التجا کر رہے تھے۔ لوٹ آ، لوٹ آ، لوٹ آ! اب ان احمقوں کو کون سمجھائے کہ جو اس راستے پر چل دیا، وہ کبھی پلٹ کر نہ آیا۔ محبتوں والا یار اب جا چکا تھا، وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔

موصوف بچپن سے ہی غیر معمولی قابلیت کے مالک، کتابوں سے لگاؤ رکھنے والے اور علم کے دلدادہ تھے۔ دھوپ ہو یا چھاؤں، سردی ہو یا گرمی، کوئی بھی مشکل ان کے راستے کا کانٹا نہ بنی۔ مالی حالات سازگار نہ تھے، مگر ”ہمت مرداں، مدد خدا“ کے اصول پر چلتے ہوئے وہ آگے بڑھتے رہے۔ مقابلے کی دوڑ میں ہمیشہ اول آتے۔

گھر والوں نے اس مسافت میں بھرپور ساتھ دیا، کئی جتن کاٹنے پڑے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج جھنگ سے بی۔ ایس۔ سی کرنے کے بعد ایم۔ ایس۔ سی کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور کا رخ کیا۔ حالات ایسے تھے جیسے پاؤں میں زنجیر ڈال دی گئی ہو، مگر جب ارادے بلند ہوں اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھا جائے، تو خدا کی مدد منتظر رہتی ہے۔ اکلوتی بھینس کو بیوپاری کے حوالے کیا، اور جو رقم ہاتھ آئی، وہ شاہ جی ( ہاسٹل مالک) کے سپرد کر دی۔ شاہ صاحب نے رہائش اور کھانے پینے کی ذمہ داری اٹھائی۔ بعد ازاں، جامعہ پنجاب کے ہاسٹل میں جگہ ملنے پر شاہ جی نے وہ رقم واپس لوٹا دی۔

تعلیمی اخراجات کا زیادہ تر انحصار وظیفہ پر تھا، جبکہ باقی ضروریات ہوم ٹیوشنز سے پوری ہو جاتیں۔ دن رات کی محنت اور مستقل مزاجی سے کامیابی کی راہیں ہموار ہو گئیں۔ آخرکار، محنت رنگ لائی اور ڈگری مکمل ہونے کے فوراً بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت ریاضی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔

خدا مہربان ہوا تو حالات سنبھلنے لگے۔ والدین کی رضا مندی سے خاندان میں ہی رشتہ طے پایا، اور زندگی خوشیوں سے جیسے بھر گئی۔ نا جانے کس بدنظر نے زیر کیا کہ سیاہ بادل منڈلانے لگے۔ ساس اور بہو کے درمیان نوک جھونک ہونے لگی۔ جب دلوں میں محبت کی جگہ نفرت کے بیج بو دیے جائیں، تو رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ جب پیا من بھاوے تو جو چاہے بجا لاوے، سب خیر۔ مگر جب دل کے کسی کونے کھدرے میں نفرت کی چنگاری سلگ رہی ہو تو کسی کا سانس لینا بھی گراں گزرتا ہے، شکوہ شکایت تو دور کی بات۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی دل دکھتا ہے، اور کسی کا حال چال پوچھنا بھی گوارا نہیں رہتا۔ شکوے اور شکایات کے سلسلے بڑھنے لگے، اور تعلقات میں وہ مٹھاس باقی نہ رہی۔

یہ مسئلہ اس قدر عام ہے کہ ہر گھر میں اپنے پنجے گاڑے ہے، لیکن یہاں حالات نے کچھ اور ہی رخ اختیار کیا۔ اختلافات بڑھنے لگے تو یہ خلیج بھی وسیع ہوتی گئی، یہاں تک کہ محترمہ اپنے میکے جا بیٹھیں۔ صاحبِ خانہ اس صورتِ حال سے شدید پریشان تھے۔ کبھی ماں کو سمجھانے کی کوشش کرتے تو کبھی محترمہ کو راضی کرنے کے جتن کرتے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش میں لگے رہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ چکی کی مشقت ان کے اعصاب پر سوار ہوتی گئی۔

مسلسل تناؤ اور ذہنی دباؤ کے سبب وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔ ہر طرف سے گھیرے جانے کے احساس نے ان کی زندگی کو بوجھل اور بیزار کر دیا، اور سکون کہیں دور جا چکا تھا۔ جب دماغ تناؤ کا شکار ہوتا ہے تو افعال بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ذہنی تناؤ کی کئی علامات ہو سکتی ہیں، مثلاً مسلسل تھکاوٹ محسوس کرنا، معاشرتی علیحدگی اختیار کر لینا، نیند کا نہ آنا، مختلف قسم کے خیالات کا بار بار آنا، اور زندگی سے اس قدر بیزاری کہ موت کو گلے لگانے کی خواہش پیدا ہو جانا۔

محترم بھی اس بیماری کا شکار ہوئے۔ ان کا نہ صرف دل پژمردہ تھا بلکہ دماغ بھی اپنا کام چھوڑ چکا تھا۔ کئی دن اور راتیں بے خوابی میں گزر گئیں، جیسے نیند نے ہمیشہ کے لیے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہو۔ جب کئی دن یہ سلسلہ جاری رہا، تو حالت اس قدر بگڑ گئی کہ دماغی اور جسمانی بوجھ ناقابلِ برداشت ہونے لگا۔ اس صورتحال کے پیش نظر ایک ماہرِ نفسیات (سائیکاٹرسٹ) سے رجوع کیا، مگر کم مقدار میں دوا تجویز کیے جانے کی وجہ سے شاید وہ اتنی موثر ثابت نہ ہوئی۔ ذہنی دباؤ کی شدت کم نہ ہو سکی، اور یہ کیفیت روز بروز بگڑتی گئی۔

ایک روز، کالج سے واپس آتے ہی، وہ گندم میں رکھی جانے والی زہریلی گولیاں ساتھ لے آئے اور بہن کے سامنے کھانے لگے۔ بہن کے روکنے کے باوجود، ان کی بے بسی اور لاچارگی کے عالم میں، ایک گولی بغیر پانی کے نگل لی۔ فوراً گھر میں شور برپا ہوا، اور جلدی سے انہیں ضلعی ہیڈکوارٹر (ڈی ایچ کیو) اسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں فوری طور پر ابتدائی طبی امداد (فرسٹ ایڈ) فراہم کی گئی۔ N۔ G ٹیوب کی مدد سے معدے کی صفائی کا عمل شروع کیا گیا، زہر کے اثرات کو ختم کرنے کوشش کی گئی۔ حالت بظاہر قدرے بہتر نظر آنے لگی، اور سب کے چہروں پر امید کی کرن جھلکنے لگی۔ مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھی۔ زہر کا یہ اثر بنیادی طور پر ”لیو سڈ انٹرول“ تھا، جس میں مریض ظاہری طور پر تو بہتر دکھائی دیتا ہے، مگر اندر ہی اندر زہر اپنا کام کر رہا ہوتا ہے۔

حقیقت اس وقت آشکار ہوئی جب اچانک دل کی دھڑکن غیر معمولی طور پر سست ہونے لگی۔ یہ زہر بالآخر دل کو جکڑ چکا تھا، اور مریض مسلسل بریڈی کارڈیا (دل کی دھڑکن کا خطرناک حد تک کم ہونا) کا شکار ہو گیا۔ خون کا دباؤ مسلسل کم ہونے کے باعث مریض شاک میں چلا گیا، اور یہ حالت بالآخر موت کے دہانے تک لے جاتی ہے۔

یہ نوجوان اس دھج سے مقتل کی طرف روانہ ہوا۔ بچھڑنے کی اس ادا نے گویا رت ہی بدل ڈالی۔ موصوف اپنے پسماندہ علاقے سے 17 ویں گریڈ کے لیکچرار کے عہدے تک پہنچے۔ وہ علاقہ مکینوں کے واسطے ایک امید کی کرن تھے، محنت اور ثابت قدمی کی لازوال مثال۔ علاقے میں اکثر و بیشتر کہا جاتا، کہ جب چودھری صفدر جیسے نوجوان مشکلات کو پار کرتے ہوئے منزل پا سکتا ہے، تو آپ کیوں نہیں؟

خودکشی ایک حرام عمل ہے، جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جس پر انسان کو دنیا اور آخرت میں جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات انسان ایسی ذہنی اور نفسیاتی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے افعال پر قابو کھو بیٹھتا ہے۔ جب کسی کو اپنے اعمال پر اختیار نہ رہے، جب آگ اور پانی کا فرق سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جائے، اور ذہنی دباؤ اس قدر شدید ہو جائے کہ اپنے ہی وجود کو نقصان پہنچا لے، تو یہ صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔ ایسے وقت میں انسان شاید مکمل طور پر اپنے اعمال کا ذمہ دار نہ ہو، کیونکہ اس کے فیصلے اس کے شعور کی بجائے اس کی حالت کے تابع ہو جاتے ہیں۔

ایسی کیفیت انتہائی تشویشناک ہوتی ہے۔ ڈپریشن جیسے خطرناک مرض سے بچنے کے واسطے صبر و شکر کی ویکسین موجود ہے۔ اور اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو علاج بھی ضروری ہے۔ ایسے مریضوں کے علاج میں کوئی کسی قسم کا عار نہیں ہونا چاہیے۔ عموماً، ایسے مریضوں کو آرام دینے کے لیے دوائیں استعمال کی جاتی ہیں تاکہ وہ زیادہ دیر تک سکون کی حالت میں رہ سکیں۔ ڈپریشن کا علاج بھی ذرا پیچیدہ ہوتا ہے اور اس میں مریض کی ذہنی حالت کو درست کرنے کے واسطے نہ صرف دوا، بلکہ مناسب کونسلنگ بھی ضروری ہوتی ہے۔

خدا تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ ہمیں ایسی صورتحال سے محفوظ رکھے، بھائی صفدر کو کروٹ کروٹ سکون و راحت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments