ڈہڈا بھیڑا عشقے دا روگ


بہار کی آمد آمد تھی کلیاں چٹک رہی تھیں۔ غنچے کھل رہے تھے۔ درختوں پر نئے شگوفے نکلنا شروع ہو چکے تھے۔ پاکپتن شہر کی قربت میں واقع نور پور کی شامیں بہت حسین ہو چکی تھیں اور آج تو اس میں انوکھا نکھار تھا۔ نئے پھوٹتے ہوئے شگوفوں کی خوشبو سے لدی پھندی ٹھنڈی ہوائیں عجب سماں باندھ رہی تھیں۔ جب یہ ٹھنڈی خوشبو دار اور کسی بھی قسم کی آلودگی سے پاک اور صاف ہوا سانس کے ذریعے پھپھڑوں میں جاتی تو یوں لگتا کہ اس کے خوشگوار اثرات جسم کے روئیں روئیں کو معطر کر رہے ہیں اور کنیز کو تو موسم بہار کی یہ ساری خوبصورتیاں اپنی روح کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

وہ زندگی کے سولہویں سال میں پاؤں رکھ چکی تھی۔ وہ زندگی کی پندرہ بہاریں دیکھ چکی تھی لیکن رواں سال اس موسم کے اثرات پہلے سے یکسر مختلف تھے۔ جب وہ درختوں کی نئی پھوٹتی ہوئی کونپلوں کو دیکھتی۔ کلیوں کے چٹکنے اور ان کو خوبصورت اور مکمل پھول کی صورت اختیار کرنے کے عمل کا مشاہدہ کرتی نئے کھلنے والے غنچوں کی پتیوں، ان کے خوبصورت رنگوں اور اُن سے پھوٹنے والی مسحور کن خوشبوؤں کو جانچتی تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ خود بھی ایک کلی کی مانند ہے۔ اس کے وجود میں نئی امنگوں اور انوکھی آرزوؤں کے خوشبو دار شگوفے پھوٹتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ اُس کو اپنے اندر ایک انوکھی اور نہ سمجھ آنے والی لیکن مسحور کن تبدیلی کا احساس ہو رہا تھا۔

اس کا دل چاہ ر ہا تھا کہ وہ اپنے گھر کے قریب ہی واقع سکول میں چلی جائے۔ اس سکول میں موجود کلیاں، شگوفے، غنچے، پھول اور برگ و ثمر سب اُسے اپنے پاس بلا رہے تھے۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ بھی اپنے وجود کو اس ماحول میں سمو کر اس کا ایک ایسا حصہ بن جائے جس کی حیثیت سب سے منفرد ہو۔ جو بھی نظر اُٹھے اسی پر پڑے اس کی تعریف و توصیف کرے۔ وہ درختوں کے ٹہن پکڑ کر اُن کے ساتھ جھول جائے۔ وہ ان کی پتیوں میں چھپ کر ان کا ہی ایک حصہ بن جائے۔ وہ اس گلشن میں موجود پھول کلیوں سے ان کی زبان میں باتیں کرے۔ گل و بلبل سے اُن کی داستان ِ عشق سنے، چکوری سے چاند کے ساتھ وصال کی شدید لیکن لاحاصل خواہش کا سبب دریافت کرے۔ بھنورے سے پھولوں کا رس چوسنے کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرے۔

اس وقت وہ اس حقیقت کو بھول چکی تھی کہ وہ ان تمام مظاہر سے بالکل مختلف ایک انسانی وجود میں متشکل ہے۔ جس کی تشکیل اور نوعیت بلکہ تخلیق کے ساتھ ان چیزوں کی کوئی نسبت نہیں ہے۔ وہ انہی خیالات میں الجھی ہوئی تھی کہ اچانک ہوا کی لہروں پر سوار ایک مترنم، دل کش، اور پرکشش آواز اس کے پردہ سماعت کے ساتھ آ ٹکرائی۔

اج سِک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں لایاں کیوں جھڑیاں

اُسے یوں محسوس ہوا کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے جو کسی اور زبان سے ادا ہو رہی ہے وہ کون ہے جو اس کے دل میں بیٹھا ہوا ہے جو اس کا محرم راز ہے۔ جو اس کی امنگوں، تمناؤں اور خواہشوں کا ترجمان ہے۔ میرے خیالات، جذبات اور احساسات سے اُسے کیوں کر آگاہی ہوئی۔ اچانک اس کے پاؤں خود بخود بے اختیاری کی کیفیت میں آنے والی آواز کی سمت اُٹھنے لگے۔ وہ اس ہستی کو دیکھنا چاہتی تھی جو اس کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ چکی تھی۔ وہ کون ہے، اس کی شکل و صورت کیا ہے۔ دکھنے میں کیسا لگتا ہے۔ ابھی وہ انہی خیالات میں الجھی ہوئی تھی کہ اُسے یوں لگا کہ گائیک نے اس کے دل و دماغ کو پڑھ لیا ہے اور وہ اس کے دل میں پیدا ہونے والی انوکھی خواہش اور تمنا کی تکمیل کے سلسلے میں اُسے آگاہی دے رہا ہے کہ۔

مکھ چند بدر شاشانی اے
متھے چمکدی لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے
مخمور اکھیاں ہن مدھ بھریاں

یہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے۔ میرے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہے۔ یہ مجھے کیسے جانتا ہے بلکہ جس قدر میرے ساتھ جان پہچان اس کی ہے خود میری اپنی بھی نہیں ہے۔ اب میں اس کا پتہ کیسے لگاؤں اُسے کس طرح بتاؤں کہ تم نے تو میرے دل کو اپنا گھر بنا لیا ہے۔ مجھے یہ سب کچھ بہت بھلا لگ رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم دونوں ازل سے ہی ایک دوسرے سے واقف ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے لئے بنایا گیا ہے اور ہم اس سے پہلے بھی ایک دوسرے کے شناسا رہے ہیں۔ یا اللہ وہ تو اپنے خیالات کو ہوا کے دوش پر مجھ تک پہنچا رہا ہے۔ میں کیا کروں کس طرح اُسے بتاؤں کہ ہم تو پہلے بھی آشنا رہے ہیں۔

میں اپنے اظہار تشکر اور احسان مندی کے جذبات کو کیسے اس تک پہنچاؤں لیکن مجھے یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ تو خود ہی اپنی زبان سے اس کے متعلق میرے دل میں موجزن جذبات کا اظہار کر رہا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میری طرف سے تشکر اور احسان مندی کے جذبات کا اظہار وہ اپنی زبان سے کر رہا ہے۔

میرے بے زبان جذبات اور احساسات کو اس نے ایک زبان عطا کر دی ہے۔ حالاں کہ اس کی آواز سنائی مجھے دے رہی تھی لیکن مجھے یوں لگتا تھا کہ یہ میری آواز ہے۔ یہ میں ہوں جو اس سے مخاطب ہوں۔

اس صورت نوں میں جاں آکھاں
جان آکھاں کہ جان جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان توں شاناں سب بنیاں

مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کوئی دوسرا نہیں ہے وہ تو میرے ہی وجود کا حصہ ہے۔ وہ مجھ سے الگ کیوں کر ہوا کیسے ہوا، اس کا تو مجھے پتہ نہیں تھا اور نہ ہی مجھے اس بارے میں سب کچھ جاننے کی خواہش تھی لیکن میں اس کو دوبارہ اپنے وجود کا حصہ بنانا چاہتی تھی۔ اسے اپنے وجود میں سمو لینا چاہتی تھی۔ اسی تمنا کی تکمیل میں میرے پاؤں بے اختیار سکول کی طرف بڑھنے لگے۔ جہاں سے اس کی آواز آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس وقت یقیناً میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی۔ میری کیفیت ایک ہپناٹزم کے زیر اثر ہستی کی سی تھی۔ جسے اپنی ذات پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ بلکہ اس کی حرکات و سکنات کسی دوسرے کی منشا کے تابع ہوتی ہیں یا ایک ایسی سحرزدہ ہستی کی سی تھی جو کسی سحر اور جادو کے زیر اثر روبہ عمل ہو۔

میں سکول کی دیوار سے چند قدم کے فاصلے پر تھی کہ اچانک بابر کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ کنیز تم اس وقت کہاں جا رہی ہو۔ یہی ایک آواز مجھے عالم تخیلات و تصورات سے عالم حقیقت میں کھینچ لائی۔ اُف میں کیا کرنے جا رہی تھی۔ مجھے ایک دم بے ہوشی سے جیسے ہوش آ گیا ہو۔

کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں

کہاں وہ دو جہانوں کے سردار جن کی شان بیان کرنے کے لیے یہ نعت لکھی گئی اور کہاں ہم جیسے گنہگار لوگ جنہوں نے اس کا اطلاق اپنی ذات پر کرتے ہوئے کفر کا ارتکاب کیا۔

اے رحمان و رحیم اور غفور و کریم مجھے اس قدر کفریہ سوچ پر معاف فرما دے۔ میں تیرے حضور صدق دل سے توبہ کرتی ہوں۔ کہ آئندہ ایسی سوچ ایسے تصور اور ایسے افعال و اعمال سے شعوری طور پر مکمل گریز کروں گی۔ بابر کو میں نے اِدھر اُدھر میں ٹال دیا اور اس کے ساتھ واپس گھر آ گئی۔ میں سوچ رہی تھی کہ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والی دو جوان بھائیوں کی اکلوتی بہن اس طرح کیسے بہک سکتی ہے۔ میں سکول میں کیا لینے جا رہی تھی۔ مجھے اس کا صحیح طور پر ادراک نہیں ہو رہا تھا۔ بہرحال اب میں نے فیصلہ کیا آئندہ اس قسم کی حرکت کبھی نہیں کروں گی لیکن جب رات کو کھانے پر بیٹھی تو اچانک ہی مجھے سکول میں موجود اجنبی گائیک کا خیال آ گیا۔ پتہ نہیں اس نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں۔ میں نے بابر سے پوچھا کہ باہر یہ سکول میں کون ٹھہرا ہوا ہے۔

آج شام کو وہ نعت پڑھ رہا تھا۔ بابر نے بتایا کہ ایک ماسٹر صاحب ہیں جن کا شکایتی تبادلہ ہوا ہے۔ پچھلے سکول میں اس کی اپنے ہیڈماسٹر کے ساتھ کچھ کھٹ پٹ ہو گئی تھی اور اس نے تبادلہ کروا دیا۔ اس کا گھر یہاں سے کافی دور ہے۔ روزانہ گھر نہیں جاسکتا اس لیے اس نے اپنی رہائش سکول میں ہی رکھ لی ہے۔

اب میں اس سے اجنبی کے کھانے کے متعلق پوچھنا چاہتی تھی کہ گاؤں میں رہ کروہ کھانا کہاں سے کھائے گا کیوں کہ یہاں تو کوئی ہوٹل بھی نہیں ہے۔ میں اس بارے میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ بابر نے کہا، ماسٹر صاحب کمیانہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک زمیندار گھرانے سے ہیں۔ آج دوپہر اُن سے ملاقات ہوئی تھی۔ نہایت خوش اخلاق اور ملنسار انسان ہیں۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ اُن کے لئے کھانا ہم گھر سے بھجوا دیا کریں گے۔

آج سے اُن کے لیے صبح شام کھانا ہمارے گھر سے جایا کرے گا۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی۔ حالاں کہ میں شام کو اپنے اوپر طاری ہونے والی اضطراری کیفیت سے تو باہر آ چکی تھی لیکن اس اجنبی کے ساتھ ہمدردی کا احساس پیدا ہو رہا تھا۔ کچھ دن تو کام اسی طرح چلتا رہا اور اجنبی مہمان کا کھانا صبح و شام ہمارے گھر سے جاتا رہا۔ پھر ایک دن بھائی تصور کہنے لگے، کھانا سکول میں جاتے جاتے ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ میں نے ماسٹر صاحب کو بول دیا ہے کہ وہ صبح و شام گھر آ کر گرم گرم کھانا کھا لیا کریں گے۔ میرے لیے یہ اور بھی خوشی اور اطمینان کی بات تھیں۔

نامعلوم کیوں مجھے اس اجنبی کی قربت میں رہنا بہت اچھا لگتا تھا۔ میں بہانے بہانے سے اس وقت بیٹھک کے دروازے کے سامنے سے گزرتی جب اجنبی مہمان وہاں پر موجود ہوتا لیکن اس نے کبھی آنکھ اُٹھا کر بھی میری طرف نہیں دیکھا تھا۔ اس کا رویہ میاں محمد بخش کے اس شعر کی زندہ تفسیر تھا۔

جس گھر آون جاون ہووے
رہیے وانگ بھراواں
خانے کعبے وانگوں تکیے
تے رکھیے پاک نگاہواں

مجھے یہ ساری داستان میرے چک بیدی میں قیام کے دوران نور بی بی نے سنائی۔ جو اکثر و بیشتر وہاں پر ہمارے سکول ٹیچر اسلم کمیانہ سے ملنے آیا کرتی تھی اور مجھے یہ ساری تفصیل اس کی بیٹی کنیز کی زبانی معلوم ہوئی تھی۔

نور بی بی ایک ادھیڑ عمر خاتون تھی۔ وہ جب بھی ہمارے سکول میں آتی تو اسلم کمیانہ سے اس کی ملاقات گھنٹوں پر محیط ہوتی۔ میں حیران تھا کہ وہ کون سی قدرِ مشترک ہے جس کی بناء پر یہ لوگ اس قدر طویل دورانیے پر محیط ملاقاتیں کرتے ہیں۔

ایک دن نور بی بی کمیانہ سے ملاقات کے لیے آئی۔ کمیانہ اُس دن چھٹی پر تھا۔ اس کی جگہ میں نے لے لی۔ اس کے لیے چائے وغیرہ منگوائی اور چائے پینے کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ اُسے کیا مسئلہ درپیش ہے جو وہ بار بار کمیانہ کے پاس آتی ہے۔ میرے استفسار پر اس نے اپنی بیٹی سے سنی ہوئی مندرجہ بالا داستان مجھے سنائی اور ساتھ ہی بتایا کہ وہ کنیز کی والدہ ہے۔ اسلم کمیانہ تو اُن کے گاؤں میں تقریباً ایک سال گزارنے کے بعد ٹرانسفر ہو کر یہاں چلا آیا۔ اس کے یہاں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی ہمارا کنیز کی شادی اس کے خالہ زاد کے ساتھ کرنے کا پروگرام بن گیا کیوں کہ ہمارے خاندان میں لڑکی کی شادی عموماً جسمانی طور پر بالغ ہونے کے فوراً بعد ہی کردی جاتی ہے۔

وہ کچھ عرصہ تو ٹال مٹول کرتی رہی لیکن ہماری طرف سے زور دینے پر اس نے مجھے علیحدگی میں بتایا، کہ اگر وہ شادی کرے گی تو صرف اور صرف اسلم کمیانہ سے کرے گی۔ ورنہ وہ شادی نہیں کرے گی۔ پہلے تو میں نے اُسے خوب بُرا بھلا کہا، ڈانٹ ڈپٹ بھی کی لیکن وہ اپنی بات پر ڈٹی رہی۔ اس نے مجھے صاف بتا دیا ہے کہ اگر اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر نے کی کوشش کی تو وہ خود کشی کر لے گی۔ چاہے اس کے لیے اُسے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے۔

اس کے دونوں بھائیوں کو اس بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ ورنہ گاؤں میں تو ایسی باتوں پر لڑکیوں کو قتل کر دینا معمولی سی بات ہے۔ میں اپنے بیٹوں سے چوری چوری کمیانہ کو اس کے ساتھ شادی پر رضامند کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہوں کہ اگر وہ مان جائے تو پھر اس بات کو آگے بڑھاؤں لیکن وہ کسی طور پر بھی رضامند ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ میں اپنی بیٹی کی وجہ سے بہت مجبور ہوں۔ کیوں کہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ وہ تو کمیانہ کے بغیر کسی سے شادی کرنے کی بجائے موت کو ترجیح دے گی۔ دوسری طرف اس کے بھائی بھی جلدی میں ہیں کہ غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے خاندان کا ایک بہت اچھا رشتہ کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے اور ان سب کے درمیان میری جان شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔ میری بات ان تینوں فریقوں میں سے کوئی بھی نہیں سنتا۔

مجھے یہ ساری کہانی سن کر اس بزرگ خاتون نور بی بی پر بڑا ترس آیا اور کمیانہ پر بہت غصہ۔ اگر اس نے یہ شادی نہیں کرنا تھی تو اس نے بے چاری معصوم لڑکی کو لارا کیوں لگایا۔ میں نے اس خاتون کو تسلی دے کر واپس بھیج دیا کہ کمیانہ کے ساتھ میں خود بات کروں گا۔ اب میں اس کا بڑی شدت سے انتظار کر رہا تھا۔

دو تین دنوں بعد کمیانہ آ گیا ہم چار غیر مقامی لوگ سکول میں ہی رہائش پذیر تھے۔ ہم نے میس کے لئے سکول کے ساتھ ملحق ہوسٹل کا ایک کمرہ اپنے تصرف میں رکھا ہوا تھا اور اپنا باقی ساز و سامان اور چارپائیاں وغیرہ سائنس روم میں رکھی ہوئی تھیں۔ میرے اور کمیانہ کے علاوہ ساہیوال سے تعلق رکھنے والے دو ٹیچر افضل اور نصیر خان بھی ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ میں نے موقع پاتے ہی کمیانہ کو علیحدہ بٹھا لیا اور اُسے بتایا کہ مجھے اس کی ساری کارستانیوں کا پتہ چل چکا ہے۔

نور بی بی مجھے پوری کہانی سنا چکی ہے تم ایسے کیوں کر رہے ہو۔ ایک معصوم لڑکی کی جان سے کھیل رہے ہو۔ اگر تم نے اُس کے ساتھ شادی نہیں کرنی تھی تو اُسے لارا کیوں لگایا۔ وہ کچھ دیر تک بے بسی سے میری طرف دیکھتا رہا، پھر بولا کیا تم یقین کرو گے کہ میں نے اس لڑکی کو آج تک نظر بھر کر نہیں دیکھا لارا لگانے اور وعدہ کرنے والی بات تو بہت دور کی ہے۔ میں یہ بات سن کر بہت حیران ہوا ویسے بھی کمیانہ انتہائی نفیس الطبع اور صاف ستھرے کردار کا مالک تھا۔

اب میں نے بات آگے بڑھائی میں نے کہا، چلو کوئی بات نہیں، اگر تم نے اُسے نہیں دیکھا وہ تو تمہارے ساتھ اس قدر محبت کرتی ہے۔ اس کی محبت کا ہی کچھ بھرم رکھ لو۔ وہ بولا، میں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔ میری دو بیٹیاں ہیں۔ میری شادی میری بہن کے وٹے سٹے پر ہوئی ہے۔ اب تم مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں۔ واقعی اُس کی بات ٹھیک تھی۔ اس کے مسائل بڑے گمبھیر تھے اگر اُس کے سسرالیوں کو اس بات کی ذرا سی بھی بھنک پڑ گئی تو وہاں پر اس کی بہن کا جینا حرام ہو جائے گا۔ چار و ناچار میں بھی خاموش ہو گیا۔

ایک ہفتے کے بعد نور بی بی پھر وہیں تھی۔ میں نے بالا بالا ہی اُسے صورتِ حال سے آگاہ کیا جس کے بارے میں اُسے پہلے سے ہی علم تھا۔ تو اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ کمیانہ مرد ہے اور مرد دو دو شادیاں بھی کر لیتے ہیں تو یہ دوسری شادی کر لے۔ ہمیں اس کی پہلی بیوی اور بچوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ میں نے اُسے بتایا، کہ ایک سکول ٹیچر کی آمدنی ہی کیا ہوتی ہے۔ اس سے وہ دو گھروں کا خرچ نہیں چلا سکتا۔ تو وہ خاتون بولی، اس کا بھی حل میرے پاس موجود ہے۔ ہم اُسے پاکپتن شہر میں ایک چھوٹا سے گھر لے دیتے ہیں اور اس کا خرچہ بھی ہمارے ذمے ہو گا۔ بس یہ صرف ہماری لڑکی کے ساتھ نکاح کر کے اُسے اس گھر میں رکھ لے۔ باقی چھوٹے موٹے سارے مسائل ہم خود دیکھ لیں گے۔ اور اس طرح یہ نکاح اس کے گھر والوں کی نگاہوں سے پوشیدہ بھی رہے گا۔ لیکن کمیانہ کا کہنا تھا کہ ایسی چیزیں زیادہ دیر تک نہیں چھپ سکتیں اور حقیقت حال سامنے آنے پر ہنستے بستے دو گھرانے اجڑ جائیں گے۔

بہرحال بات کسی صورت آگے نہ بڑھی۔ نور بی بی کا آنا جانا اس کے منت ترلے اسی طرح جاری رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نور بی بی کی آمد کا درمیانی وقفہ بڑھتا گیا۔ میں دو سال یہاں پر رہا۔ اس کے بعد میرا تبادلہ گھر کے قریب ہو گیا اور میں چک بیدی کو خیر باد کہہ کر گھر چلا آیا لیکن نور بی بی والا قصہ میرے ذہن میں تازہ ہی رہا۔

تین چار سال بعد میرا جانا چک بیدی ہوا۔ وہاں پر کمیانہ سے علیحدگی میں نور بی بی والے قصے کے متعلق پوچھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ کیا ہوا، تو وہ کافی دیر تک بول نہیں پایا۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے مجھے مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ کافی دیر کے بعد بولا، جب اُس کی ماں نے اُسے بتایا کہ اس کی شادی اس کی حسب منشا ہونا ممکن نہیں ہے تو اس کو ”ٹی بی“ کا مرض لاحق ہو گیا اور چھ ماہ کے اندر اندر وہ تمام مراحل سے گزرتے ہوئے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئی۔

مجھے اس فوتیدگی کا علم ہوا تو میں تعزیت کے لیے اس کے گھر اس کے بھائیوں کے پاس گیا۔ قبرستان میں اس کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گیا اور پورے خلوصِ دل کے ساتھ اس کی بخشش کے لیے دعا مانگی۔ اس دوران اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا اس بے نام لیکن طاقتور ترین تعلق کو کیا نام دیا جائے گا۔ یک طرفہ سچی محبت، جسمانی ضرورت، بشری تقاضا یا کچھ اور میں تو اس سلسلے میں آج بھی ابہام کا شکار ہوں۔ اگر قارئین میں سے کسی کو اس کے متعلق کچھ علم ہو تو مجھے بھی ضرور آگاہ کریں۔ آپ کا ممنون ہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments