اب جسٹن ٹروڈو سے ہی سیکھ لیں!
کینیڈین سیاست میں آئینی بادشاہت موجود ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس کے تعلقات برطانوی شاہی خاندان سے ہیں۔ بادشاہ وہاں کی ریاست کا علامتی طور پر سربراہ ہے۔ کینیڈا میں گورنر جنرل بادشاہ کا نمائندہ ہوتا ہے مگر تمام تر اصل اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں۔ وہاں کا وزیرِ اعظم اور کابینہ اہم فیصلے کر کے اپنے ملک کی سمت طے کرتے ہیں۔ کینیڈا جیسے بڑے ملک کی سیاسی روایات میں بہت تنوع ہے جس میں جمہوریت لازمی عنصر ہے۔
کہتے ہیں یہ ایسا نظام ہے جو عوام کے لیے ہے اور عوام ہی اس نظام کے اربابِ اختیار کو اپنی مرضی سے چُنتے ہیں۔ کینیڈا کی سیاست اپنے پورے جہازی سائز کے ملک کے مختلف پہلوؤں کو متوازن اور برقرار رکھنے کے لیے حکومتی ڈھانچے کو تشکیل دیتی ہے۔ وہاں کی پارلیمنٹ کینیڈا کی جمہوریت کا کلیدی مرکز ہے۔ یہ ہاؤس آف کامنز اور ایم۔ پی یعنی چُنیدہ اراکینِ پارلیمنٹ پر مشتمل ہے جو قوانین پر بحث کے بعد منظوری دیتے ہیں۔ سینیٹ میں مقرر کردہ پارلیمنٹ کے اراکین اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو اور سب کچھ آئین کے مطابق ہو۔
جسٹن ٹروڈو کینیڈا کے وزیرِ اعظم نے جو لوگوں میں بے حد مقبول تھے 6 جنوری 2025 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ اگرچہ وہ دس سال تک وزیرِ اعظم رہے مگر ان کا کہنا ہے کہ ان کے حق میں عوامی حمایت میں کمی اور لبرل پارٹی کے اندر اختلافات اور حکومتی تنازعات اس کی بڑی وجہ ہیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی، امیگریشن کے مسائل اور معاشی چیلنجز بھی جسٹن ٹروڈو کی مقبولیت میں کمی کا اشارہ ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق لبرل پارٹی کو شدید سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
لبرل پارٹی والوں نے جسٹن ٹروڈو سے قیادت میں تبدیلی کے لیے ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ سابق وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ کے استعفیٰ نے بھی ملکی مسائل بڑھا دیے۔ کینیڈا دس صوبوں اور تین خطوں پر مشتمل ملک ہے۔ ہر صوبے کی اپنی حکومت اور اپنی ترجیحات ہیں۔ کینیڈا میں بھی وفاق کا نظام حکومت ہے۔ وفاقی حکومت بڑے معاملات یعنی قومی دفاع امیگریشن کو سنبھالتی ہے۔ صوبے صحت، تعلیم اور مقامی بنیادی ڈھانچے پر توجہ دیتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں کینیڈا کی سیاسی تین پارٹیاں ہیں :
لبرل پارٹی: یہ پارٹی سماجی ترقی، کثیر الثقافت اور جدید زمانے کی تاریخ رکھتی ہے۔
کنزرویٹو پارٹی: یہ پارٹی مالیاتی استحکام اور معاشی ترقی کو ترجیح دیتی ہے اور روایتی اقدام کو منظم کرتی ہے۔
نیو ڈیمو کریٹک پارٹی (این۔ ڈی۔ پی) : یہ پارٹی مزدوروں، سماجی انصاف اور ماحولیات کی نمائندگی کرتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کینیڈین مقامی برادریوں میں مفاہمت اور مساوات قائم کرنا امیگریشن کے مسائل میں رہائش اور ملازمت وغیرہ کا بندوبست کرنا بھی مشکل امر ہے۔ ٹروڈو کو بہت سے تنازعات کا سمانا کرنا پڑا جس میں 2019 کا بلیک فیس سکینڈل، جنسی ہراسانی کے الزامات میں اور انتخابات میں چین کی مداخلت کے الزام شامل ہیں۔ ان تمام چیزوں نے عوام کے اعتماد کو مجروح کیا۔ ٹروڈو نے اپنے اعلان میں کہا کہ جب تک لبرل پارٹی اپنا نیا رہنما نہیں چُن لیتی تب تک وہ نگران وزیرِ اعظم کا کردار ادا کریں گے۔
یہ بھی بتایا کہ اب وہ چاہتے ہیں کہ اگلے چُناؤ میں کوئی ان سے بہت بہتر شخص اس سنگھا سن پر بیٹھے۔ جسٹن ٹروڈو کے اس فیصلے نے نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈن کی یاد تازہ کروا دی انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ان کے لیے ایمانداری سے اس عہدے پر قائم رہنا اب خاصا مشکل کام ہے لہذا وہ بھی اس عہدے سے وفا نہ کر پائیں گی اور استعفیٰ دے دیا۔ قارئین! ایک ہمارا ملک ہے جہاں مختلف وزرائے اعظم عوام میں غیر مقبول ہونے کے باوجود مسلط رہتے ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستانی سیاست خاندانوں اور شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ پاکستان میں اکثر وزرائے اعظم طاقتور اداروں مقتدرہ اور عدلیہ کی حمایت سے چنے جاتے ہیں چاہے عوامی منظوری نہ بھی حاصل ہو۔ اگر ہمارے سیاست دان بھی جیسنڈا آرڈن اور جسٹن ٹروڈو کی طرح رضا کارانہ طور پر عہدہ چھوڑ دیں تو انہیں کرپشن کے الزامات کے صلے میں قانونی مقدمات نہیں بُھگتنا پڑیں گے۔ ہمارے نام نہاد رہنما اکثر عوام میں اپنی غیر مقبولیت کو اپوزیشن کا پروپیگنڈا کہتے ہیں۔
انہیں چاہیے کہ کھلے دل سے حکومتی ناکامیوں کو تسلیم کریں اور عوامی ناراضگی کو سنجیدہ طور پر لیں۔ نواز شریف بھی عوامی عدمِ مقبولیت کی بجائے عدالتی اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے گئے۔ عمران خان نے بھی عوام اور پارلیمنٹ کی حمایت کھونے کے باوجود رضاکارانہ استعفے ٰ نہیں دیا بلکہ وہ تحریکِ عدمِ اعتماد کے ذریعے ہٹائے گئے۔ یوسف رضا گیلانی بھی سپریم کورٹ کے ذریعے نا اہل قرار دیے گئے تھے۔
جب تک ہم ترقی یافتہ جمہوریتوں سے نہیں سیکھیں گے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام حکومتی مسائل اور عوامی ناراضگی جاری رہے گی۔ جیسنڈا آرڈن اور جسٹن ٹروڈو سے ہمارے سیاست دانوں کو سیکھنا ہو گا کہ عوامی حمایت اور مقبولیت کھو دینے کے بعد کندھوں پر آئے دباؤ کے نتیجے میں استعفے ٰ دینا زیادہ خوش آئند عمل ہے جس سے سیاسی بقا کم ہونے کی بجائے یقیناً بڑھے گی۔ پاکستانی سیاست میں رہنماؤں کے عہدوں سے وابستہ مالی اور کاروباری مفادات ہوتے ہیں اور استعفیٰ دینے پر یہ مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اکثر اپنے سیاسی فائدوں کے لیے ملکی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اصل مسائل اور سیاسی چالوں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا سیاسی نظام اس مضبوط میکانزم سے محروم ہے جو رہنماؤں کو کٹہرے میں کھڑا کر سکے گو کہ اب نظام بدل رہا ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا جسٹن ٹروڈو نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے سے پہلے ہی استعفے ٰ دے دیا۔ ہمارے سیاست دانوں کو بھی سیکھنا ہو گا۔ مگر ہمارے لیڈر ان اقتدار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں عوامی مسائل اور جذبات جائیں بھاڑ میں!
- اب جسٹن ٹروڈو سے ہی سیکھ لیں! - 09/01/2025
- سنہ 2024 کی سیاست ایک رومانوی کہانی - 04/01/2025
- یَا اللہ کُرسی سے بچا - 19/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).