انحراف کی تنہائی
اپنی کتابوں پر مشاہیر سے پیش لفظ یا تبصرے وغیرہ لکھوانا بندہ کم مایہ کی طبیعت سے میل نہیں کھاتا۔ آرتھر کوئسلر نے کتابوں پر لکھے جانے والے بیشتر تبصروں کو ’قیمہ کرنے کی مشین سے نکلے ہوئے الفاظ‘ قرار دیا تھا۔ اشارہ یہ تھا کہ ان تبصروں میں ایسی یکسانیت پائی جاتی ہے کہ مصنف اور کتاب کا نام ہٹا کر کسی دوسری کتاب کا عنوان اور مصنف رکھ دیجئے، تفہیم میں کوئی تبدیلی آئے گا اور نہ معنویت میں کوئی فرق آئے گا۔ درویش کی عمر کتاب، قلم اور داخلی جلاوطنی کی دنیا میں گزری ہے۔ اس کاروبار کے پیچاک کسی حد تک سمجھتا ہے اس لئے اپنی تحریروں پر پیش لفظ وغیرہ سے گریز ہی مناسب معلوم ہوا۔ البتہ تین ہستیاں ایسی تھیں کہ جن کی رائے جاننے میں اس لیے دلچسپی تھی کہ وہ کتاب پڑھے بغیر پیش لفظ نہیں لکھیں گی۔ دوسرے، ان کی رائے میں سرپرستانہ توصیف سے زیادہ تربیت کا پہلو نمایاں ہو گا۔ تیسرے یہ کہ ان سے کسی منفعل کرنے والے غلو کی توقع نہیں تھی۔ آئی اے رحمان، خالد احمد اور عارف وقار۔ مجھے مردم شناسی یا عقل مندی کا دعویٰ نہیں لیکن تینوں بزرگوں نے ایسی ذرہ نوازی کی کہ ’عشق میں طبیعت نے زیست کا مزہ پایا‘ ۔ ہر تین اساتذہ کی رائے زندگی کا ایسا احسان ٹھہری کہ آئندہ کسی پیش لفظ کی ضرورت ہی ختم ہو گئی۔
ستمبر 2008 میں ’محاصرے کا روزنامچہ‘ کی پہلی جلد کی اشاعت درپیش تھی۔ مسودہ محترم خالد احمد کے سامنے رکھ دیا۔ خالد صاحب اپنے ارفع فکری مقام سے قطع نظر ہر چھوٹے بڑے کے لئے قابل رسائی تھے۔ ان کا انکسار خود نمائی کے دیمک زدہ چوکھٹے پر بچھایا نمائشی تخت پوش نہیں تھا، ان کی ذات سے بے نیازی یوں پھوٹتی تھی جیسے پہاڑی چٹانوں سے ٹھنڈے پانی کی دھارا۔ چند روز بعد ہاتھ سے لکھا مختصر پیش لفظ میرے تک پہنچ گیا۔ کیا رواں دواں سواد خط تھا۔ لطف یہ کہ ڈیڑھ صفحے میں ہر سطر ایک مکمل فلسفیانہ بیان تھی۔ مصنف اور تصنیف کا ذکر برائے بیت تھا اور ایک مربوط تاریخی تجزیے میں یوں سمویا گیا تھا کہ اردو میں ایسا کم نما ’دیباچہ‘ کم لکھا گیا ہو گا۔ یہ تھے ہمارے خالد احمد۔
آپ جانتے ہیں کہ اردو زبان میں کتاب کی تعداد اشاعت کیا ہوتی ہے اور سولہ برس گزرنے کے بعد یہ خیال بھی خوش فہمی ہو گا کہ خالد احمد کی یہ تحریر اردو پڑھنے والوں کی دسترس میں ہو گی۔ بھائی محمود الحسن نے 17 نومبر 2024 کو خالد صاحب کی رحلت سے کچھ روز بعد اس تحریر کو ’ہم سب‘ پر شائع کرنے کی تجویز دی تھی۔ میں نے تب اس خیال سے محترمی محمود الحسن سے اتفاق نہیں کیا کہ ایک تو خالد صاحب سے دائمی مفارقت کا گھاؤ ایسا تازہ تھا کہ یہ خیال بھی سوئے ادب معلوم ہوتا تھا۔ دوسرے یہ کہ خالد صاحب کے دنیا بھر میں پھیلے عشاق کی طرف سے تعزیتی تاثرات موصول ہو رہے تھے جن کی فوری اشاعت اور ترسیل کہیں زیادہ ضروری تھی۔ اب میاں میر قبرستان کی زمیں پر بارش برس چکی ہے اور خالد احمد سے محرومی کا دکھ واماندگان رفاقت کے مجموعہ درد میں جذب ہو رہا ہے تو شاید اب یہ تحریر ’ہم سب‘ کے پڑھنے والوں کی نذر کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔
*** ***
انحراف کی تنہائی
ریاست سرحدوں کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے اپنی آبادی کے تحفظ کا خیال رہتا ہے لیکن سرحدوں کا اصل استعمال اپنی آبادی کو دوسری آبادیوں سے علیحدہ کرنے اور اس میں یکساں سوچ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ فکری یکسانیت قومی یک جہتی کا لازمہ ہے اور اس پر استوار کی گئی اجتماعی پہچان ریاست کی بقا کو یقینی بناتی ہے۔
تمام ریاستوں کی طرح پاکستان نے بھی قومی شناخت کا منصوبہ وضع کیا اور آبادی کے ذہن میں یکساں سوچ کی بنیاد رکھی۔ یہ سوچ پیدا کرنے کے لیے اس نے ایک قومی بیانیہ تخلیق کیا۔
ریاستوں کی تاریخ میں معمول ہے کہ داخلی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے قومی بیانیے میں ایک خارجی دشمن کا تعین کیا جاتا ہے۔ ارتقا کے ابتدائی مراحل میں قومی خطرے کی بنیاد پر آبادی کو متحد کرنے کے لیے اس قسم کے جذبہ ¿ قوم پرستی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ریاستیں عموماً اس مرحلے سے گزرتے ہوئے قوم پرستی کو ایک خطرناک جذبے کے طور پر پہچان لیتی ہیں اور بالآخر اسے ترک کر دیتی ہیں۔
قوم پرستی کے نظریے کو رائج کرنے کے لیے قانون کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ اس نظریے سے منکر ہونے والے کو سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس ضمن میں اگر قانون سازی نہ ہو سکے یا قانون بوجوہ غیر فعال ہو جائے تو نظریے سے انکار کرنے والا معاشرے کی طرف سے الگ تھلگ کیے جانے کے عمل کا سامنا کرتا ہے۔
انحراف کے خلاف تمام معاشروں میں تشدد کا جذبہ پایا جاتا ہے حالانکہ منحرف کی تنہائی اسے نظرانداز کرنے کی سفارش کرتی نظر آتی ہے لیکن قومی بیانیے پر تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس وقت بھی جب اس بیانیے کی وجہ سے ریاست کو نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔ اس نقطے پر آ کر ریاست دراصل اپنے شہریوں سے خون کی قربانی مانگتی ہے۔
پاکستان کے جذبہ ¿ قوم پرستی کی پیوستگی کا دار و مدار بیرونی دشمن کے تعین اور اس کے خلاف ’منصفانہ‘ جنگ پر ہے۔ پاکستانی ریاست کے اس منصوبے میں سب سے اہم عنصر پاکستانی قوم کی وہ شناخت ہے جو اس کو لڑانے کے لیے وضع کی گئی ہے۔
غیر مہذب قومیں اپنے آپ کو بیرونی دشمن کے تقابل سے پہچانتی چلی آئی ہیں۔ قوم پرست بیانیے میں دشمن ہمیشہ قابل شکست گردانا جاتا ہے۔ اس لیے وقفہ ¿ امن دراصل جنگی تیاری کا وقت ہوتا ہے۔ ریاست کا آبادی کو متحد رکھنے کا منصوبہ اس وقت بھی قائم رہتا ہے جب بیرونی دشمن ناقابل شکست ثابت ہو جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ریاست شکست کے بعد بھی پرانی شناخت کو برقرار رکھتی ہے اور اس کے بعد وہ قومی بیانیے میں ترمیم کے بعد قومی ہدف کو فتح کی بجائے انتقام کی جانب منتقل کر دیتی ہے۔ جذبہ ¿ انتقام شکست کے امکان کو نظر انداز کرنے میں معاون ہوتا ہے جیسا کہ بلقان کی سرب قوم نے ثابت کر دکھایا ہے۔
انتقام کا نظریہ وہ حربہ ہے جس سے ناقابل شکست دشمن کے ساتھ دوبارہ جنگ کو قومی ذہن کے لیے قابل قبول بنایا جاتا ہے۔ خارجی دشمن کے خطرے سے کہیں زیادہ اس دشمن سے انتقام کا جذبہ مضبوط ہوتا ہے اور یہ مدافعانہ نہیں بلکہ جارحانہ خروش ہوتا ہے۔
وجاہت مسعود کا ناقابل معافی جرم قومی بیانیے کے مرکزی واقعے سے انحراف ہے۔ وہ 1965 کی مبہم نتیجے کی جنگ کو فتح ماننے کے لیے تیار نہیں۔ قوم پرست ذہن، یہ جانتے ہوئے بھی کہ 1965 کی جنگ پر نظر ثانی بھارت کے ساتھ بعد کی ناکام جنگوں کا نتیجہ تھی، یہ ماننے پر تیار نہیں کہ کوئی 1965 کی فتح سے انکار کرے۔
مذہب پر مبنی قومی پہچان سے انحراف لکھنے والے کے لیے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ ریاست داخلی وحدت کو مضبوط کرنے کے لیے قومی شناخت کا سہارا لیتی ہے اور اس کو برقرار رکھنے کے لیے ملک کی اکثریتی آبادی کا سہارا لیتی ہے۔ ریاست اپنے تحفظ کے لیے اکثریتی شناخت کو زیادہ سے زیادہ شدید بناتی ہے۔ جس کے نتیجے میں متعدد گروہ جو ابتدائی قومی شناخت کے ابہام کی وجہ سے ”سوادِ اعظم“ سے جڑے ہوتے ہیں، آہستہ آہستہ قوم سے خارج ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
پاکستان جیسی مذہبی ریاست میں گروہوں کا قوم کے دائرے سے اخراج کا عمل دو طریقوں سے ہوتا ہے۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ چھوٹے گروہ کے عقائد کی تعبیر ارتداد سے کی جائے اور پھر قانون سازی کے ذریعے اس گروہ کو زبردستی قومی شناخت سے ساقط کر دیا جائے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اکثریتی آبادی کی پہچان کو اس قدر واضح اور شدید بنا دیا جائے کہ کچھ گروہ اپنے آپ کو خارج ہوتا ہوا محسوس کر کے عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں۔ اس کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے ان گروہوں کی تکفیر کا مطالبہ شروع ہو جائے۔ حتٰی کہ خارج شدہ گروہوں کے ساتھ مزید ”قابل اخراج“ گروہوں کا اضافہ ہوتا جائے۔ ریاست کی تطہیر کا یہ عمل معاشرتی ارتقا کے ابتدائی عہد میں ہونے والی انسانی قربانیوں کی رسم سے جا ملتا ہے۔
ریاست اس طرح تکفیر کے عمل کے ذریعے استحکام کے مرحلے سے نکل کر انہدام کے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے۔ وجاہت مسعود تکفیر کی مخالفت کر کے انحراف کی صحافت کو ارتداد کی سرحدوں تک لے جاتا ہے۔ وہ پاکستانی قوم پرستی کے بنیادی مفروضوں پر تنقید کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسے قومی رازوں پر سے پردہ اٹھانے کا شوق ہے اور انکشاف کے ان گوشوں کی طرف مائل ہے جو قومی شناخت کے مرکزی بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔ وہ لیاقت علی خاں کے قتل کو قومی معما نہیں سمجھتا۔ وہ لال مسجد کے ’قومی سانحے‘ کو ’قومی سانحہ‘ نہیں مانتا۔ بلکہ ریاست کے قلب میں پیوست ریاست کی اپنی ’خودکشانہ‘ دہشت گردی کا خنجر تصور کرتا ہے۔
وجاہت مسعود کی بغاوت کئی دفعہ ایسے مکالموں میں کارآمد رہتی ہے جب مقتدر سوچ کے مقابلے میں کوئی آزاد رائے کا اظہار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جب پاکستان میں تمام مکالمے بند ہو جائیں گے اور سب جگہ ذہن کی موت کا ایک سا راگ الاپا جائے گا تو وجاہت مسعود کی تنہائی مکمل ہو جائے گی۔ لیکن اگر ریاست کے نظریے کے زوال کے بعد جمہوری عمل کے ذریعے نئی سچائیاں قومی ذہن کو بیدار کر دیں تو وجاہت مسعود کی بغاوت تسلیم شدہ بیان ٹھہرے گی۔ لیکن اس سے پہلے آزادی کا مفہوم حقِ انحراف ہی سے واضح ہوتا ہے اور وجاہت مسعود کے انحراف کی مدت ابھی ختم نہیں ہوئی۔
خالد احمد
ستمبر 2008
- انحراف کی تنہائی - 11/01/2025
- لبرل فاشسٹ کی تلاش - 01/12/2021
- پاک بھارت تعلقات: جسونت سنگھ اور یشونت سنہا کے درمیان - 25/03/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).