عصمت کی ٹیڑھی لکیر میں ہم جنسیت، مساس اور نسائیت! پہلی قسط
”اس ناول کے پہلے پچاس صفحے ایسے ہیں کہ ہمارا ادب ان کا جواب پیش نہیں کر سکتا۔“ (محمد حسن عسکری)
”جب میں نے ٹیڑھی لکیر لکھی اور شاہد احمد دہلوی کو بھیجا تو انہوں نے اسے حسن عسکری کو پڑھنے کے لیے دیا۔ انہوں نے مجھے یہ رائے پہنچوائی کہ اپنے ناول کی ہیروئن شمن کو لحاف زدہ بنا دوں۔“ (عصمت چغتائی ؛ کاغذی ہے پیراہن)
”جسم کے احتساب کا عصمت کے پاس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے مساس ؛ چنانچہ رشید سے لے کر رونی ٹیلر تک بیسیوں مرد جو اس ناول میں آتے ہیں سب کا اندازہ جسمانی یا ذہنی مساس سے کیا گیا ہے۔ زیادہ تر مساس کی کیفیت انفعالی ہی ہوتی ہے۔ مساس ہی عصمت کے یہاں احتسابِ مرد، احتساب ِانسان، احتسابِ زندگی، احتسابِ کائنات کا ذریعہ ہے۔
رضائیوں کے بادلوں میں عباس کے ہاتھ بجلیوں کی طرح کوندتے ہیں اور لڑکیوں کے گروہ میں منی لرزشیں مچل مچل کر بکھر جاتی ہیں۔ رسول فاطمہ کے چوہے جیسے ہاتھ مساس کا تاریک رخ ہیں۔ ” (عزیز احمد ؛ نیا دور )
”ٹیڑھی لکیر کی اٹھان میں ایک نہایت منفرد اور اردو کی حد تک بے مثال ناول بننے کے امکانات موجود تھے، عصمت کی بعض مجبوریوں کے باعث بجھی ہوئی آگ بن کر رہ گیا۔ اس راکھ میں ہمیں بس اتنی ہی حرارت ملتی ہے کہ ہتھیلیاں سینک لی جائیں۔ اس کی آنچ ہمارے باطن تک ہماری ہستی کی بھول بھلیوں تک نہیں پہنچتی۔“ (شمیم حنفی ؛ قاری سے مکالمہ۔ صفحہ نمبر 88 )
شمیم حنفی اپنے اس تجزیے کا جواب بھی خود ہی دیتے ہیں : ”ٹیڑھی لکیر کے پہلے حصے میں شمن کی شخصیت سے اپنے تمام تر ذہنی اور جذباتی رابطے کے باوجود عصمت نے اپنی دوری قائم رکھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خود اپنے احساسات کی جنگ و جدل کا تماشا ایک فاصلے سے دیکھ رہی ہیں خوب صورتی اور بدصورتی کے ہر مظہر کو ایک لاتعلقی کے ساتھ۔“ (قاری سے مکالمہ۔ صفحہ نمبر 92 )
لیکن ایک سو چھ صفحے کے بعد عصمت ایسا نہیں کر سکیں۔ بقیہ ناول میں شمن کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے اور عصمت اپنے کرداروں کو پیچھے دھکیل کر خود آگے آ جاتی ہیں اور ان کرداروں کے حوالے سے تنقید و تضحیک کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں۔ ( قاری سے مکالمہ۔ صفحہ نمبر 95 )
تخلیقی اعتبار سے کرداروں کو اپنی سی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ کر لکھنے والے کا روپوشی کا وہ انداز جس کی رو سے ناول کے ابتدائی ابواب منور ہیں بعد کے حصوں میں نظر نہیں آتا۔ اب عصمت ضرورت سے زیادہ ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ”(قاری سے مکالمہ۔ صفحہ نمبر 98 )
حسن عسکری کو ناول کے ابتدائی 50 پچاس صفحات پسند آئے اور شمیم حنفی کو ایک سو چھ۔ دیکھ لیتے ہیں کہ پچاس اور ایک سو چھ صفحے کے بعد ایسا کیا ہوا کہ جس کے نتیجے میں یہ ناول عظیم الشان بننے سے رہ گیا۔ عزیز احمد کی رائے کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا کہ ان کی رائے کا اہم جزو ”مساس“ ہے اور اس میں رشید سے لے کر رونی ٹیلر تک نظر آتے ہیں۔
عسکری صاحب کی پسندیدگی پہلے پچاس صفحات پر ختم ہوتی ہے یعنی وہاں جہاں مس چرن کا قصہ تمام ہوتا ہے۔ مس چرن کا ادھورا قصہ، بلوغت کی حدوں میں داخل ہوتی ایک لڑکی اور عورت کے بیچ کچھ ڈھکی چھپی اور کچھ کھلی پسندیدگی کی داستان اور اس کے بعد عسکری صاحب کا یہ بیان کہ ہیروئن کو لحاف زدہ بنا دو ۔ عسکری صاحب کیا چاہتے تھے؟ کیا بے چاہی یا غیر نرینہ اولاد پر ایک خاندان کا ردِ عمل کا موضوع مزید کھنچنا چاہیے تھا یعنی ناول بس اسی موضوع کا ہو جاتا؟
لحاف زدہ ایک اشارہ تھا افسانے ”لحاف“ کی طرف جس میں عورتوں کی ہم جنسیت کو پہلی بار موضوع بنایا گیا۔ عصمت پہ فحاشی کا لیبل تو لگا ہی، اس کے ساتھ ساتھ انہیں مقدمے بازی کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ لحاف کا خیال اور زبان شرفا کو نامناسب محسوس ہوئی سے عدالت متفق نہ ہوئی اور وہ باعزت بری ہو گئیں۔
لحاف میں اہم ترین بات یہ تھی کہ اردو ادب کے قارئین اور نقادوں نے پہلی بار ایک خاتون قلم کار کو اس موضوع پہ بے باکی سے لکھتے دیکھا۔ ہم جنسیت قطعی ایسا موضوع نہیں تھا کہ لوگ بوکھلا اٹھتے مگر کبھی کسی نے اس سے پہلے عورتوں کے حوالے سے ہم جنسیت کو اس زاویے سے دیکھا اور سمجھا نہیں تھا سو چونکنا لازم تھا۔
سوال پھر گھوم کر اس نکتے پر آ جاتا ہے کہ حسن عسکری ناول ٹیڑھی لکیر کی ہیروئن کو ہم جنس پرست دکھانے پر کیوں مصر تھے؟ کیا ان کے خیال میں آزادی پسند تعلیم یافتہ لڑکی ہم جنسیت کی طرف زیادہ راغب ہوتی ہے؟ ہو نہ ہو دکھائی تو جائے، پوری نہیں تو اشارہ ہی ہو۔ یا وہ لڑکی جو اوائل عمری میں شادی کے بندھن میں نہ بندھے وہ اپنی جنسی محرومی کے لیے ہم جنسیت کا سہارا لیتی ہے؟
عسکری صاحب کی اس رائے کا ایک اور مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ڈھکا چھپا اظہار چاہتے ہیں۔ یعنی ہو جو بھی ہو۔ لیکن ڈھکا چھپا، لحاف کے نیچے ہو۔ سو ٹیڑھی لکیر کے پہلے پچاس صفحات تک جو ہوا وہ سب لحاف کے نیچے والا ہے۔ ایسا کہ خود نہیں کھلتا بلکہ ظاہر کے نشیب و فراز سے چھپے ہوئے کو محسوس کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا سمجھا جائے تو کیا کہا جاسکتا ہے کہ شمن کا گھر اور پیدائش سے بورڈنگ جانے تک کا سارا معاملہ ”درپردہ“ ہے اور اسی بنا پر اردو ادب کے لیے لاجواب۔ شاید ایسا نہیں ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).