ذہن تنہائی، انٹروورٹ یا کریٹوی منورٹی


ڈاکٹر خالد سہیل کا مضمون ”کیا آپ ذہنی تنہائی کا شکار ہیں“ پڑھا اور مجھے لگا کہ وہ احساس جو میں محسوس کرتی تھی اور بیان نہیں کر پاتی تھی اس کو صحیح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اس موضوع پر بات کرنا ضروری ہے۔ اس کا تعلق ہماری ذہنی صحت سے ہے۔ ہمارے ہاں تنہائی کو ایک آزار سمجھا جاتا ہے چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی۔ اس تنہائی سے بچنے کے لیے ہم بے جوڑ دوست بناتے ہیں بے جوڑ شادیاں کرتے ہیں اور پھر ساری عمر ذہنی طور پر پریشان رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو زیادہ لوگوں سے گھلتے ملتے نہیں اور زیادہ باتیں نہیں کرتے ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ذہنی مسائل کا شکار ہیں حالانکہ وہ introvert پرسنیلٹی کے مالک افراد ہوتے ہیں یا ان میں سے کچھ آپ کی اصطلاح میں creative minority سے تعلق رکھتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر انٹراورٹ کریٹیو بھی ہو لیکن انٹراورٹ افراد کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے جب ان کے اوپر سوشلائز کرنے کے لیے زیادہ زور ڈالا جاتا ہے لوگوں سے ملنے باتیں کرنے یا بھیٹر والی جگہوں پر موجود رہنے کے لیے تو وہ پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر فرد سائیکارٹسٹ اور سائیکولوجسٹ ہے اس لیے ہر وہ بندہ جو ذرا سا بھی مختلف ہے ہا سوسائٹی کے عام نارم کے ساتھ نہیں مطابقت رکھتا یا اختلاف کرتا ہے وہ ڈپریسڈ ہے وہ انگزائٹی کا مریض ہے اور یہاں تک کہ میرے ایک جاننے والے جن کا سائیکولوجی سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں وہ ہر اس بندے کو جو ان کو پسند نہ ہو اس کو بائی پولر ڈس آرڈر ڈائگنوز کرتے ہیں۔ ہر بندہ ایک اوپینین رکھتا ہے جو کہ اچھی بات ہے لیکن اس اوپینین کو پہلا اور آخری سچ مان کر ہر ایک پر مسلط کرنا ایک اور بات ہے۔

ہم ایک ہیجان کے دور میں جی رہے ہیں ہر جگہ بھیڑ ہے اور ہر دماغ میں بھی ایک ہجوم ہے بے معنی اشیاء کا۔ ہمارے ٹی وی اور فون ہر وقت بریکنگ نیوز کی تکرار کرتے ہیں اور اس پر سونے پر سہاگہ سوشل میڈیا ہے جو فیک نیوز اور ایسے فیک تھمب نیل کی تابڑ توڑ بارش کرتا ہے جس سے صرف ایسا زندگی کے لائف سٹائل کا پرچار ہوتا ہے جس میں ہر وقت ہلہ گلہ ہے۔ جب بازار جائیں تو لوگوں کی بھرمار ہے کچھ خریدیں نہ خریدیں بس ایک بے مقصد ہجوم ہے۔ اس سب کی بڑی وجہ اپنے آپ سے بھاگنا ہے اس شور و غل میں اپنے آپ کا سامنا اپنے دبے ہوئے خیالات اور سوچوں سے پیچھا چھوڑانا اور ان کو دبا دینا ہے۔ وہ لوگ جو ایکسٹروورٹ ہیں ان کے لیے ایک بڑا دوستوں کا حلقہ، ہر وقت باہر پھرنا شاپنگ پہ جانا باہر کھانے کھانا ایک مزیدار عمل ہے لیکن ایسے میں وہ لوگ جو انٹراورٹ ہیں ان کے لیے بہت مسئلہ ہے کیونکہ اس extroversion کو ایک نارمل رویہ روایتی سوسائٹی میں سمجھا جا تا ہے اس لیے جو لوگ انٹراورٹ ہیں ان کو ایسے القابات دیے جاتے ہیں جیسے وہ ذہنی مریض ہیں۔ سونے پہ سہاگہ اگر آپ کے اندر تخلیقی جراثیم موجود ہیں تو زیادہ ذہنی سکون اور تنہائی کے طالب ہیں کہ تخلیق کا عمل ذہنی سکون مانگتا ہے، ایسا وقت جس میں آپ اپنی سوچوں اور خیالات کے ساتھ بالکل تنہا ہوں اور ایک ایسے تخلیق کے عمل سے گزریں جس میں آپ کے جسم میں adrenaline rush ہو اور آپ کو اپنی تخلیق کے علاوہ کچھ علم نہ ہو اور غیر روایتی طرز زندگی چاہتا ہے۔ ایسے افراد کے لیے ایک روایتی پروفیشن، خاندان اور زندگی نبھانا مشکل کام ہوتا ہے اور جتنی جلدی یہ سمجھ جائیں آپ اتنی کم غلطیاں کرتے ہیں روایتی زندگی کو اپنانے کی۔

اگر انٹروورٹ بچے ہیں تو ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ماں باپ ان کے ساتھ زبردستی کرتے ہیں کہ وہ جا کر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلیں دوست بنائیں باتیں کریں اگر وہ نہ کرنا چاہیں تو اور شامت آتی ہے۔ آج کل سوشل اور کا نفیڈیٹ بنانے کے نام پر ہر جگہ بچوں کو گھسیٹا جاتا ہے چاہے وہ جانا چاہیں یا نہ چاہیں۔ یہ سب ان بچوں کے لیے جو اپنی دنیا میں مگن اور خوش ہیں بڑا عذاب ہے۔ ڈویلپڈ ممالک میں اسکول ایسے بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہیں اور عموماً پڑھے لکھے ماں باپ بھی لیکن پاکستانی روایتی سوسائٹی میں ایسے بچوں کے لیے زندگی خاصی مشکل ہوتی ہے اور اگر وہ کری ایٹیو بھی ہیں تو اور بھی مشکل ہے کیونکہ کر یٹیوٹی کی جگہ جس قسم کی سوشل میڈیا ریلینگ نے لی ہے وہاں لکھنے، پڑھنے، اور آرٹ کی جگہ کم رہ گئی ہے۔ اس صورتحال میں اگر آپ روایتی مذہبی خیالات، روایتی پروفیشن یا روایتی شادی سے انکار کرتے ہیں تو سارا معاشرہ ماما چاچا بن کر آپ کی اصلاح کے لیے نازل ہو جاتا ہے اور ایسا پریشر بنایا جاتا ہے کہ خود ہی غیر روایتی بچے، نوجوان کمپرومائز کے لیے مجبور ہو جائیں لیکن یہ سمجھوتہ ان کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بنتا ہے اور ہم غیر مطمئن افراد پاتے ہیں جو نہ ہی اپنے روزگار سے خوش ہیں اور نہ ہی رشتوں سے۔ جہاں پر ارینج میرج میں دو بالکل ذہنی مطابقت نہ رکھنے والے افراد کو پکڑ کر ایک رشتے میں باندھ دیا جاتا ہے اور وہ ساری عمر روم میٹ کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ انٹراورٹ اور کری ایٹیوبچوں کے لیے یہ عذاب دہرا ہے کہ وہ نہ ہی اپنے آپ کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی ان کو سمجھ آ رہی ہوتی ہے کہ وہ باقی لوگوں سے مختلف کیوں ہیں اور یہ سب ان کے ساتھ کیوں ہو رہا ہے۔

میں یہاں اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرنا چاہوں گی کہ یہ بچوں کے حوالے سے بہت اہم ہے میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں اس پر مزہ یہ کہ میرے والدین کا تعلق شعبہ تدریس تھا ہمارے گھر میں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں میرے والدین کو شوق تھا کہ میں بھی کتابیں پڑھوں اور اردو انگریزی زبان پر میری گرفت مضبوط ہو اس لیے صرف میرے لیے گھر میں چار اردو کے رسالے آتے تھے پھول، تعلیم و تربیت، نونہال اور آنکھ مچولی انگریزی کا ریڈر ڈائجسٹ اور ڈان کا بچوں کا ہفتہ وار رسالہ بھی مجھے مہیا تھا اس لیے میں نے بہت جلدی دوسری جماعت سے اردو انگریزی کے اخبار پڑھنا شروع کر دیے کہ اماں ابا کو اخبار صفحہ اول سے آخر تک پڑھتے دیکھتی۔ اس سب نے مجھے کتابوں سے بے حد نزدیک کر دیا اور میرے لیے صرف وہ لوگ جن کو کتابوں سے دلچسپی تھی دوستی کرنا ممکن رہا کیونکہ میری دلچسپی اسی میں تھی

آہستہ آہستہ موسیقی اور فلموں میں دلچسپی پیدا ہوئی تو وہ بھی ذرا ایکسٹریم کمبینیشن بنا مجھے ہالی وڈ ایکشن فلموں کا شوق تھا جب کہ میرے ساتھ کی لڑکیوں کو رومینٹک انڈین فلموں کا، موسیقی میں انگریزی پاپ کی دلدادہ رہی اس سب کی وجہ سے میں ایک دو سے زیادہ دوست نہ بنا پائی اور کیونکہ پاکستان میں نوے کی دہائی میں ایسا بچہ بہت عجوبہ تھا اس لیے یا تو میں لے پالک ڈکلیئر کی جاتی یا میرے ہم عمر جن کی پانچ چھے بہن بھائی ہوتے وہ بغیر کسی وجہ کے مجھ سے حسد کا شکار ہوتے۔ میرے والدین کو لگا کہ میں بہت تنہا ہوں اس کا حل انہوں نے میرے کزنز کی امپورٹ ایکسپورٹ گھرمیں کر کے کیا لیکن میں تو اس سے سخت آوازار ہوتی۔ میرے والدین کو جلد ہی میری طبیعت کا اندازہ ہو گیا اور انہوں نے میرے ساتھ کسی قسم کی بھی زبردستی کرنے کی بجائے خود دوستی کر لی

میرے والد کو جب میری انٹرسٹ کا اندازہ ہوا تو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ ہر جگہ رکھنا شروع کر دیا حتیٰ کہ جب میرے والد نے پاکستان ٹیچرز فورم کی بنیاد رکھی تو اس کے ہر سیمنار ہر میٹنگ مین ان کے ساتھ تھی اس طرح ان کے دوست میرے دوست بن گئے جو کہ عموماً میرے والد سے بھی عمر میں زیادہ تھے میں خاص کر یہاں ڈاکٹر طارق صدیقی اور اختر حمید خان کا ذکر کرنا چاہوں گی کہ عمر کہ اتنے فرق کہ باوجود وہ نہ صرف مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے دیتے بلکہ بات سنتے اور سوال کا تحمل سے جواب دیتے کہ مجھے ان کی باتیں سن کر مزہ آتا تھا۔ ڈاکٹر طارق صدیقی اپنی آخری سانس تک میرے ساتھ ایسے ہی دوست رہے جیسے میرے ابا کے ساتھ ۔  بلی کی طرح اپنے ابا کے ساتھ چپکی سارہ کے لیے یہ زندگی کے بیسٹ لمحات ہوتے جب میں ان کے تخلیق کار دوستوں کی محفل کا حصہ ہوتی۔ مصیبت اس وقت کھڑی ہوتی تھی جب مجھے شادیوں میں ان کے ساتھ جانا پڑتا یا اپنے خاندان کے کسی فنکشن مین جانا ہوتا لیکن پھر یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ ابا گھر رہتے اور اماں جاتیں۔ میری اماں بہت ایکسٹروورٹ تھیں اور مجھے میرے اکیلے رہنے کی عادت کی وجہ سے ”میرا گوتم بدھ“ کہتی تھیں لیکن کبھی انہوں نے مجھے کسی قسم کے پریشر میں نہیں ڈالا۔

وقت کے ساتھ مجھے اندازہ ہوا کہ میں مس فٹ ہوں سوسائٹی میں کیونکہ اب تو میرے خیالات اور نظریات بالکل مختلف ہو چکے تھے اور پھر میں نے اپنے آپ کو سوسائٹی میں فٹ کرنے کی کوشش کی ایک روایتی طرز زندگی اپنایا مجھے لگتا تھا کہ مجھے ایک روایتی معاشرہ میں زندگی گزارنے میں جن مسائل کا سامنا ہے وہ اس سے حل ہو جائیں گے اور مجھے قبولیت مل جائے گی میں ایک آوٹ لا نہیں رہوں گی لیکن اس کے برعکس ہوا میں اس روایتی ہجوم اور بھیڑ میں اپنے آپ کھونے لگی اور ذہنی طور پر مزید پریشان ہوئی یہ میرا اپنا فیصلہ تھا جس سے میرے والدین نے منع کرنے کی بہت کوشش کی اور اس کا نتیجہ ذہنی پریشانی کی صورت میں برداشت کیا۔

میرے والد کو پاکستان میں میری ذہنی پریشانی کا اندازہ تھا اس لیے جب مین نے کینیڈا جانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے میرا ساتھ دیا ان کی مدد اور حمایت سے میں یہ فیصلہ کر پائی اور یہاں آ کر میری ڈاکٹر خالد سہیل سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب سے میں نے سیکھا کہ پرسکون زندگی کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ میرے لیے انہیں ایک غیر روایتی طرز زندگی گزارتے دیکھنا اور اس میں خوش رہتے دیکھنا لائف چینجنگ ایکسپیرینس ہے کہ جہاں مغرب میں لوگ بھی شادی شدہ ہونے، بچے پیدا کرنے کو ایک کامیاب زندگی کا بینچ مارک سمجھتے ہیں انہوں نے نے اس سے انکار کیا اور جہاں نیل ٹائیسن جیسا آدمی اپنے اتھیزم کو پبلک لی ماننے سے ڈرتا ہے وہ اس کو ہر ایک کو بتاتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے مجھے کئی دفعہ اپنی فیملی آف ہارٹ بنانے کی ہدایت کی لیکن میں اس نتیجے پہ پہنچی کہ میں ایک بڑے حلقہ احباب میں کبھی خوش نہیں رہ سکتی اور وہ چند لوگ جن کے ساتھ میں ذہنی مطابقت رکھتی ہوں میرے لیے کافی ہیں اور میں کسی کے لیے اپنے آپ کو بدل نہیں سکتی میرے لیے سب سے پرسکون دن تھا۔ اب نہ مجھے کسی کی ویلیڈیشن کی ضرورت ہے اور نہ ہی ایک روایتی معاشرے سے کسی بھی سند کی میں اپنی سکن میں پہلی مرتبہ بہت کمفرٹیبل ہوں یہ ذہنی تنہائی نہیں بلکہ ذہنی سکون ہے جس کے باعث میں لکھ پڑھ پاتی ہوں۔ آج بھی مجھے شاپنگ مال جانا، شادیاں اٹینڈ کرنا یا زیادہ دیر روایتی لوگوں میں گھرا رہنا عذاب لگتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایلف شفق کے یہ الفاظ پڑھے تو میں مسکرا دی کہ اس میں میں نے اپنے آپ کو دیکھا

” میں نے ایسے لوگوں کو جانا ہے جنھیں اگر کئی گھنٹوں تک اکیلا چھوڑ دیا جائے تو وہ پاگل ہو سکتے ہیں، لیکن میں نے ہمیشہ اس کے برعکس محسوس کیا میں پاگل ہو جاتی ہوں اگر مجھے طویل وقت تک کسی کے ساتھ رہنا پڑے، میں اپنی تنہائی کو یاد کروں گی۔“

اپنے آپ کو تسلیم کرنا اور اپنے سے جنگ نہ کرنا پہلا قدم ہے جو ہر انٹروورٹ اور کریٹیو انسان کو اپنے ذہنی سکون کے لیے اٹھانا چاہیے اور دوسرا قدم روایتی زندگی گزارنے کی کوششوں کو ترک کرنا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ دوستوں کے جھمگھٹے میں یا ہر وقت خاندان کی محفلوں یا شاپنگ مال میں ہی خوش رہیں اکیلے کتاب پڑھ کر، لکھ کر، موسیقی سن کر اور بنا کر، پینٹینگ کر کر، نیچر کی تصویریں کھینچ کر یا چند ہم آہنگ افراد کی محفل میں اپنے غیر روایتی نظریات کو اپنا کر بھی خوش اور پرسکون رہا جا سکتا ہے خاص کر ماں باپ کو اپنے انٹروورٹ اور کریٹیو بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کی بجائے ان کے ساتھ ان کے مزاج کو سمجھ کے ان کے لیے ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس میں وہ خوش اور مطمئن رہ سکیں ورنہ ایک روایتی انسان بناتے بناتے ایک ذہنی پریشان انسان جنم لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments