ایک ہے خالد سہیل

میں بہت خوش ہوں کہ میں اس تقریب کا حصہ ہوں اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو ڈاکٹر صاحب اور پرویز صاحب کا خالص مردانہ invitation جس میں صاحب کتاب moderator اور مقرر سب مرد حضرات تھے اور اس نے میرے اندر کے فمینسٹ کو جھنجھوڑا اور جب میں نے یہ اعتراض ڈاکٹر صاحب تک پہنچایا تو انہوں نے بڑی شان بے نیازی سے کہا محترمہ معظمہ کتاب میں نے آپ کو بھی دی ہے دماغ کو زحمت دیں پڑھیں اور تقریب میں آ کر اس پر اپنی رسی دیں اور خواتین کی نمائندگی کریں لیکن کیونکہ ان کو میری مصروفیات کا علم ہے اس لیے یہ کہ میں لکھ لوں گی یہ یقین ان کو بالکل نہیں تھا اس لیے میرا نام سپیکرز میں نہیں تھا اور مجھے سرپرائز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب برا اچھا آپ لوگوں کی مرضی۔

اور دوسرا جب مجھے ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب سالک دی تو میں بہت حیران ہوئی اس کے نام سے اور ڈاکٹر صاحب کے کام سے میں ایک گنجلک کتاب کی توقع میں تھی کہ بقول ان کے یہ ان کی زندگی کے بارے میں ہے اور اس میں انہوں نے ادبی نام خضر کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے اپنی کہانی بیان کرنے کے لیے۔ لیکن اس کتاب میں ڈاکٹر خالد سہیل نے اور ٹائٹل میں صابر نذر نے لیونارڈو ڈاؤنچی کی پیروی کرتے ہوئے سمبل اور استعاروں کا استعمال کیا ہے کہ جو ڈھونڈنا چاہے وہ غوطہ زن ہو۔

اپنی امی سے خضر کی جتنی کہانی میرے کان لپیٹنے اور اس پر میری سوالوں کے بعد بھی انہوں نے زبردستی میرے کانوں میں ڈالیں اس ایک کتاب کے بارے میں سن کر تازہ ہو گئیں۔ مجھے جب بھی ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب اور اس میں اپنے تخلیقی نام خضر کے بارے میں بتاتے تو میرے ذہن اس کو قبول نہیں کرتا تھا اور مجھے وہ شرلوک ہومز زیادہ لگتے ہیں کہ وہ اس کی طرح مختلف ہیٹس پہنے ہوئے ہیں اور نفسیات کے مسائل کو شرلاک ہومز کی طرح انتہائی غیر روایتی طریقے سے حل کرتے ہیں۔

لیکن جب میں نے خضر کے استعارہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ ایران میں جس طرح برصغیر میں اسلامائزیشن کے بعد پرانے مذہبی فگرز کو نیا نام دیا گیا اس طرح زرتشت مذہب کی سب سے مقدس goddess Anhita کو خضر کا روپ دیا گیا Anhita زرتشتی مذہب میں ہریالی، سبزے اور بارش کی دیوی ہیں اور کنول کا پھول ان کا نشان ہے اور نیلا رنگ ہے وہ مزار جو Anhita سے منسوب ہے اور یزید موجود ہے وہی مزار پیر سبز کا مزار بھی ہے اور ہر سال 14 سے 18 جون کے درمیان زرتشتی پیر سبز کے مزار پر جمع ہو کر سبزے ہریالی زندگی اور پانی کی فراوانی کی دعا کرتے ہیں اور پیر سبز کا حلیہ اور داستان خضر کے حلیہ اور داستان سے مطابقت رکھتی ہے اس لیے مجھے لگتا ہے کہ دختران خوش گل کی سرزمین ایران میں جو وقت ڈاکٹر صاحب نے گزارا اس نے ان کو اس پیر سبز کے روپ میں ڈھالا اور اپنی فلاسفی کو انہوں نے سبز فلاسفی گرین زون فلاسفی کا نام دیا۔

اس نام کے علاوہ اس کتاب کا ٹائٹل میرے لیے بہت دلچسپ تھا اس کے لیے میں نے بلا جھجک صابر نذر صاحب کو بھی میسج کیا کہ انہوں نے یہ ٹائٹل کیوں بنایا کیونکہ خضر پیش نظر تھا تو ایک بزرگ سبز پگڑی اور سفید داڑھی کے ساتھ ٹائٹل پر براجمان ہوتا اور انہوں نے تو جواب نہیں دیا لیکن میری جستجو مجھے ایک سنیلہ احمد کے لکھے گئے آرٹیکل تک لے گی جس نے میرے ذہن کی گتھی سلجھا دی۔

ریور انڈس کے علاقوں میں جیسے سکھر میں خضر ہنس اور مسلمان دونوں میں انتہائی محتام اور سیکولر فگر ہے اور زندہ جھولے لال دریا لال جیسے ناموں سے جانا جاتی ہیں لیکن سب سے دلچسپ یہ ہے کہ خضر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کشتی ایک مچھلی ہے جس پر وہ سوار ہوتے ہیں اور یہ پلہ مچھلی ہے جو میٹھے پانی کی مچھلی ہے اور کرنے کے مخالف سمت میں تیرتی ہے اس ٹائٹل میں پوری انڈس ریور کی تہذیب کی کہانی سمو دی گئی خضر ایک مچھلی پر سوار جو پلہ کی طرح دکھتی ہے اور سبز نہیں نیلے رنگ میں ہے جو دیوی ان ہیتا کا رنگ ہے

صابر صاحب نے اس کتاب کو کوئی مذہبی رنگ نہیں دیا اور خالد سہیل نے کوئی مذہبی رنگ نہیں اپنایا اس میں بصد احترام ڈاکٹر صاحب کی دل پشوری کے لیے عرض ہے کہ سکھر کے باسیوں کے مطابق خضر نے اسی مچھلی پر ایک دوشیزہ کو بھی بچایا میہ ڈاکٹر صاحب بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے نیو فاؤنڈلینڈ میں وہیل پر بیٹھ کر کتنی دوشیزاؤں کو بچایا۔ اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح پیر سبز میں خضر اور انہیتا اکٹھے ہو گئے ہیں زندگی کی بقا اور جاودانی کے لیے اس طرح ڈاکٹر صاحب کے اندر بھی ایک عورت ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اپنے گھر کی عورتوں کی بلکہ اپنی دوست کو ورکرز کی بھی بے پناہ عزت کرتے ہیں اور مذاق میں بھی کبھی اخلاقیات کی حد کراس نہیں کرتے۔

اس کتاب کے ٹائٹل میں جس طرح سے صابر نذر نے اپنی جڑوں سے لگاؤ کا اظہار کیا ہے اسی طرح ڈاکٹر صاحب مختلف ناموں سے ایک زندگی کے فلسفے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو اس وقت ممکن ہے جب آپ اپنی تہذیب کے ساتھ یک جان ہوتے ہیں اس میں دوسری تہذیبوں کے رنگ مل کر اسے مزید رنگین کرتے آپ ان کو اپناتے ہیں لڑتے نہیں۔ اس کتاب کو میں نے جس وقت پڑھا اس وقت میری ٹی وی اسکرین پر میں دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر کے انتخاب ایک بلین ائر کے ہاتھوں ہائی جیک ہوتا دیکھ رہی تھی اور دنیا کے طاقتور ترین صدر کی کرسی ہر بیٹھے شخص اور اس کے پیچھے کھڑے بلین ایر کی اقدار نے مجھے بہت سی چیزوں پر سوال اٹھانے پر مجبور کیا جب آپ دو ٹین ایج بچوں کے پیرنٹ ہوتے ہیں تو آپ دو دنیاؤں کے باسی ہوتے ہیں ایک آپ کی اپنی دنیا اور ایک جس کا نوجوان نسل حصہ ہیں۔ میرے لیے یہ بہت تکلیف کی بات ہے کہ آج کے بچوں کو 24 گھنٹے اپنی اسکرین پر یہ عوام کا خون چوستے ویمپائر دیکھتے ہیں جن کے لیے فری ہیلتھ کیئر فری ہائر ایجوکیشن اور افیورڈیبل ہاؤسنگ ایک مذاق اور لیبر یونین اتنا ڈراؤنا خواب ہے کہ وہ جگہیں بند کر دی جاتی جہاں لیبر یونین قیام میں آتی ہیں یہ ان بچوں کے یہ رول ماڈل بنتے جا رہے ہیں انہوں نے ایدھی ڈاکٹر ادیب رضوی اختر حمید خان پروین رحمن سبین محمود گل خان نصیر سجاد طہیر میر غوث بخش بزنجو میجر احساق گل خان کلمتی بھگت سنگھ جیسے سیلف لیس لوگوں کو نہیں دیکھ پائے اس لیے ان کا رول ماڈل یہ بلینئرز ہیں جن کو عام ورکنگ کلاس اور غریب کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں اس لیے یہ کتاب اس لوسٹ ورلڈ کا پتہ دیتی ہے جس کو ہم آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں۔

اس کتاب میں لوگوں کو دیے گئے نام اور خود اپنی زندگی کی مختلف ادوار کو جو عنوانات دیے گئے ہیں جیسے دانائی دوستی آزادی وفادار اخلاص مہربانی انقلاب بغاوت یہ سب الفاظ ان خوبیوں کا پتہ دیتے ہیں جو ڈاکٹر صاحب ان لوگوں میں تلاش کرتے ہیں جو ان کے دوست بنتے ہیں اور جن اصولوں پر انہوں نے اپنی زندگی گزاری ہے یہ وہ خصوصیات اور اصول ہیں جو آج کل منافقت ریا کاری پیسے کی نہ صرف ہوس بلکہ صرف پیسے کو ہی سلام سے میں بدل رہے ہیں جس کا انجام اندھیرے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر خالد سہیل کی زندگی ایک ایسے ایماندار پروفیشنل ڈاکٹر کی زندگی کی مثال ہے جس نے ایمانداری کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور عام انسانوں کے دکھوں کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اپنی پروفیشنل زندگی میں پوری کامیابی کے ساتھ اس چیز کا ثبوت دیا ہے کہ کامیاب ہونے کے لیے آج کل کے بلینرز کی طرح پتھر دل اور سیلف سینٹرڈ ہونا ضروری نہیں۔ اس کے ساتھ جو چیز اس کتاب میں مجھے بہت اہم لگی وہ ڈاکٹر خالد سہیل پر ان کے مریضوں کا اعتماد اور ان کے ساتھ ان کی محبت ہے جو کہ آج کل نہ صرف معدوم ہوتی جا رہی ہے بلکہ آہستہ آہستہ ڈاکٹروں کے لیے نفرت میں بدل رہی ہے۔ جس کی بڑی وجہ ڈاکٹروں ُ کا اپنا کارپوریٹ گریڈ ہے جس کے تحت انہوں نے نہ صرف فارما کمپنیوں سے ہاتھ ملا کر مریضوں کو نقصاُن پہنچایا بلکہ ان فارما کمپنیوں کے فرنٹ مین کا کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ڈاکٹروں کا گاڈ کمپلکس ہے اور ڈاکٹر خالد سہیل میں یہ دونوں نہیں۔ شاید اسی لیے کہ وہ کسی خدا پر نہیں بلکہ اپنا یقین انسان پر رکھتے ہیں اور کسی بھی انساں کی مدد کے لیے ہمیشہ حاضر رہتے ہیں۔ وہ ڈاکٹروں کے نارسیزم سے عاری ہیں یہی ان کی کامیابی ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل بہت شاندار ادیب شاعر اور افسانہ نگار ہیں بہت خوبصورت فطرت کے انسان لیکن وہ میری معلومات کے مطابق واحد ماہر نفسیات ہیں جو سائل تک خود چل کر جاتے ہیں کھانا بھی کھلاتے ہیں اور مسئلہ بھی حل کرتے ہیں یعنی کنواں خود پیاسے کے پاس جاتا ہے۔

انڈس ویلی کے زندہ پیر، ایران کے پیر سبز اور کینیڈا کے خالد سہیل میں مشترک قدر یہی ہے کہ مشکل میں گھرے انسان تک خود چل کر جانا اور دکھ کا مداوا کرنا کہ بڑے لکھاریوں، ڈاکٹروں شاعروں سے یہ دنیا بھری ہے جس کا کال ہے وہ محبت ہے اور خالد سہیل کے پاس اس کی فراوانی ہے اس لیے جب ایک فوک ٹیل انسانیت سے محبت کی لکھی جائے گی تو لکھا جائے گا ایک ہے خالد سہیل۔ آخر میں میری بہت ہی پسندیدہ شاعرہ نوشین قنبرانی کے چند اشعار ڈاکٹر خالد سہیل اور سالک کی نظر کرنا چاہوں گی۔

الزام محبت تھا مِرے جرم کڑے تھے
آنکھوں کے کٹہرے میں کئی خواب کھڑے تھے
پھر سے تھے دلفریب تمنا کے راستے
پھر سے وہی دریا تھے وہی کچے گڑھے تھے
مرگِ خدا کے بعد جو پیدا ہوئے طبیب
وہ خانقاہِ درد کی چوکھٹ پہ پڑے تھے