نامہ بر صحافی اور قیا مت کے نامے


لفظ صحافت جو کہ صحیفہ کا ماخذ ہے اپنے اندر کسی مقدس پیغام کی مکمل اور جامع تعریف سموئے ہوئے ہے۔ صحیفہ کے لفظی معنی جریدہ اور رسالہ کے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بہت سے انبیاء کرام پر صحیفے اتارے تاکہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔ اس لئے صحافت کو ایک معتبر اور پیغمبری پیشہ بھی کہا جاتا ہے۔

صحافت کی تعلیم کے دوران بنیادی صحافتی اقدار و اخلاقیات کے بارے میں پڑھا تو یہی سمجھے کہ واقعی ان اقدار کی پیروی کیے بغیر صحافی بننا ناممکن ہوتا ہو گا۔ اور یہ کہ صحافی کے لئے ضروری ہے کہ ہر چھوٹی بڑی خبر کی با قاعدہ تصدیق اور مکمل جانچ پڑتال کرے پھر اس خبر کو آگے بڑھائے۔ علاوہ ازیں سچائی، شفافیت اور تصدیق و تحقیق ایک خبر کی تشکیل کے لئے کتنے اہم عناصر ہیں۔ مگر یہ تمام عناصر بھی عملی صحافت میں شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔

صحافتی اقدار کے بارے میں جو لیکچرز ہمیں پڑھائے گئے تھے ذہن میں گونجتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ نہ جانے نصاب کی کتابوں میں درج شدہ اسباق اور عملی زندگی میں حقائق اتنے مختلف کیوں ہوتے ہیں۔ پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ شاید ”تدریسی صحافت“ اور ”عملی صحافت“ میں کچھ فرق ہوتا ہو گا۔ یہ اور بات کہ اس خود ساختہ تاویل سے، دل مطمئن ہونے کی بجائے اور بھی بوجھل ہو گیا۔

ہم سمجھتے تھے کہ دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک کی صحافت بھی عام لوگوں کے مسائل اجاگر کرنے اور ان کی آواز اربابِ اختیار تک پہنچانے کا ایک موثر ذریعہ ہے اور ریاست کا ایک اہم ستون ہے۔ مگر اب سمجھ میں آنے لگا ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ صحافت اور کچھ نہیں محض ایک کاروبار ہے۔ اور میڈیا مالکان اپنے کاروبار میں کسی قسم کا نقصان اٹھانے کے محتمل نہیں ہو سکتے ورنہ ان کے کاروبار بند ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اپنے نیوز چینلز اور اخبارات کے ذریعے زیادہ تر جھوٹ کا چورن بیچتے اور سنسنی پھیلاتے دکھائی دیتے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا کی بات کی جائے تو نیوز چینلز پر اکثر پرائم ٹائم نشریات کے دوران پروگرام کے شرکاء کو اکسانے والے سوالات کے ذریعے ایک دوسرے سے لڑائی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے پھر جب وہ دست و گریباں ہو جاتے ہیں اور گالم گلوچ سے ایک دوسرے کی اچھی تواضع کر لی جاتی ہے تو نیوز اینکرز وہ لڑائی نشر کروا لینے کے بعد ”اطمینان“ سے ”پریشان“ ہو کر بریک پہ چلے جاتے ہیں۔ پھر واپس آ کر افسوس کا اظہار فرما رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد لڑائی والا ”کلپ“ جلی سرخیوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کیا جاتا ہے اور اس طرح ان کا ریٹنگ لینے کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ پھر اینکرز کسی اور کو کال پر لے کر اس افسوسناک واقعے پر مذمتی بیان چلوا رہے ہوتے ہیں۔ عجب اک گھن چکر ہے جسے صحافت کا نام دے دیا گیا ہے۔

ماضی میں ہمارے پاس صرف ایک سرکاری ٹیلی ویژن تھا، جس پر مخصوص ٹائم میں خبریں چلا کرتی تھیں اور باقی کی نشریات کے لئے بھی ایک ٹائم ٹیبل فالو کیا جاتا تھا۔ اس پر نشر کیے جانے والے تمام پروگرامز میں شستگی اور تہذیب کی روایات پر پوری طرح عمل کیا جاتا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے اب اسے بھی قبضہ گروپس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے، اور مخصوص نامہ بروں کی اجارہ داری اور مہربانی سے اس کا معیار بھی بہت گر چکا ہے۔ اور یوں ہمارا سرکاری ٹیلیویژن بھی عوامی اعتماد سے محروم ہو چکا ہے۔

دوسری طرف کا بھی تھوڑا سا جائزہ لیا جائے تو یوں بھی نہیں ہے کہ تمام صحافتی ادارے اور صحافی برادری ہی جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی صحافت کر رہے ہیں۔ بلکہ ملک میں جاری زرد صحافت کی اس دوڑ میں اب بھی کچھ لوگ صحافت کے گرتے معیار کو بہتر کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ مگر ایسے ادارے اور صحافیوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔

فی زمانہ رائج صحافت میں سچی خبر دینے اور صحافت کا معیار بہتر کرنے کی بجائے کچھ ”پیغام رساں“ نما صحافی خاص لوگوں کے لئے مخبری یا پیغام رسانی کے فرائض سر انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذریعہ معاش ہی جھوٹ کے پرچار، الزام تراشیوں اور کسی کے ایماء پر لوگوں کو دھمکیاں لگانے سے جڑا ہے۔ ایسے میں ان لوگوں پر صحافی سے زیادہ قاصد یا ”نامہ بر“ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ صحافی ہو کر اور حقائق جاننے کے باوجود جھوٹ گھڑتے اور ظلم کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں۔

آج کل کے دور میں ان ”نامہ بروں“ کی ایک قسم بہت مشہور ہے وہ ہے ”شدید سیاسی صحافی“ ۔ یہ صحافی اپنے اپنے پسندیدہ سیاست دانوں (جو عام طور پر حکومت وقت میں موجود ہوتے ہیں ) کے حق میں خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ باقاعدہ فریق بن کر گالم گلوچ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر بد کلامی کی دکانیں چمکاتے ہیں۔ جبکہ اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کی ستائش میں زمین آسمان کے وہ قلابے ملاتے ہیں اور ایسی ایسی خوبیاں بیان کرتے ہیں جن سے خود بیچارہ سیاست دان بھی واقف نہیں ہوتا۔

آج کے پاکستان میں غریب و خستہ حال عوام اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان بہت دوریاں آ گئی ہیں۔ اور لوگ ان حکمرانوں کی طرزِ سیاست سے متنفر ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ہمارے یہ سیاسی صحافی آگے بڑھ کر اپنے پسندیدہ سیاست دان کے حق میں ایک پر اثر بیانیہ تشکیل دیتے ہیں اور عوام کی رائے کو ان کے حق میں ہموار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدلے میں عہدے، منصب اور نوکریاں حاصل کی جاتی ہیں۔ اور بعض اوقات تو سیدھے وزیر یا مشیر بھی لگا دیے جاتے ہیں۔

ان صحافیوں کا روزگار ہی کسی انسان کی کردار کشی، جھوٹ اور بہتان تراشی سے جڑا ہے تو بہ امر مجبوری یہ اسی دوڑ دھوپ میں خود کو مصروف رکھتے ہیں۔ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ ”نامہ بر“ اپنی ان ”جملہ حرکات“ پر کبھی بھی شرمسار نہیں ہوتے بلکہ بڑی دیدہ دلیری اور بے شرمی سے اپنے جھوٹ کا دفاع بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ لوگوں کی نظر میں ان کی ساکھ باقی کتنی خراب ہو چکی ہے؟ انہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اصل حقیقت سے سب لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔

وہ بس اپنے چنے ہوئے راستے پر بغیر کسی شرمندگی اور ہچکچاہٹ کے چلتے چلے جا رہے ہیں اور اپنے چننے والوں کو خوش رکھنا ہی ان کا مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر اپنی عزت اور وقار داؤ پر لگانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ذہنی آزادی سے زیادہ انہیں اپنی سوچ پر تعزیریں لگوانا اور اپنی آزاد سوچ کو فروخت کرنا پسند ہوتا ہے۔ تھوڑے سے دنیاوی مفاد کی خاطر جانتے بوجھتے غلامی کے جال میں پھنسنے کو تیار رہتے ہیں یعنی

بقول شاعر
خود شوق اسیری سے پھنسے دام میں صیاد
شرمندہ تیرے ایک بھی دانے کے نہیں ہم

کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اس لیے مختلف سوشل میڈیا ایپس کی موجودگی سے ان کا کام مزید آسان ہو گیا ہے۔

یہ صحافی ”چڑیا والی ایپ“ یعنی ایکس پر اپنی قابلیت کا سی وی ٹویٹ کی شکل میں جاری کرتے رہتے ہیں جو مقتدرین کی تعریف و توصیف سے لبریز ہوتا ہے۔ ان ٹویٹس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عالی حضرات تک ان کے جذبات کی رسائی ہو سکے اور ”معتبر ذرائع“ کا قرعہ فال ان ہی کے حق میں نکلے۔ اور ان کی پیش کردہ خدمات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے عالی حضرات انہیں اپنے فیض کی بارش سے سیراب کرتے رہیں۔

اپنی محنت شاقہ سے مناسب نوکری حاصل کر لینے اور مقتدرین کا اعتماد جیت لینے کے بعد یہ نامہ بر اکثر اوقات خاص لوگوں کے بتوائے گئے بلکہ رٹوائے گئے مخصوص پیغامات بہ الفاظ دیگر ”قیامت ناموں“ کا طلسمی ٹوکرا ساتھ میں رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان پیغامات کو بہ آواز بلند پڑھ کر سُناتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیتے ہیں تاکہ جس کے نام پیغام جاری کیا گیا ہو وہ اڑتے اڑاتے اس کے کانوں تک پہنچ جائے۔ پیغامات کی ترسیل کا یہ کام مطلوبہ نتائج حاصل کرنے تک گاہے گاہے جاری رہتا ہے۔ تھوڑی سی شہرت اور زیادہ دولت کے لئے ایسے صحافی اپنا شخصی تشخص گنوا دیتے ہیں مگر انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔

بقول مصطفیٰ خان شیفتہ
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

نہ خبر ڈھونڈنے کی زحمت نہ تصدیق کی کلفت، بس کچھ لے کچھ دے کے اصول پر کار بند رہتے ہوئے اپنی خدمات مہیا کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں پیکا آرڈیننس منظور کروانے میں ان نامہ بروں کا کافی بڑا حصہ شامل ہے جنہوں نے حسب معمول اپنی معاونت فراہم کرتے ہوئے آزادی اظہار پر قدغن لگانے والے سیاہ قانون کی کہیں خاموش تو کہیں ببانگِ دہل اپنی حمایت ظاہر کی۔ یہ بھی بھول بیٹھے کہ سب سے اصولی طور پر سب سے زیادہ اس قانون کی گرفت میں خود انہی کا آنا بنتا ہے کیونکہ یہی نامہ بر ہی اکثر جھوٹ کے پلندے گھڑتے اور بیچتے ہیں۔

مگر سرپرستی اور دست شفقت کے ہوتے ہوئے یہ تو بچ جاتے ہیں مگر عام لوگ ہی ہمیشہ دھر لئے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں قوانین بنتے ہی صرف عام لوگوں کے لئے ہیں۔ بہرحال ان کی یہ خدمات ہمیشہ یاد رکھے جانے کے لائق ہیں۔ عوام بیچارے تو انہیں کوسنے ہی دیتے ہیں مگر جن کی خدمات یہ بجا لاتے ہیں ان کی نظر میں یہ آئندہ سال بھی میڈلز کی تقسیم کے موقع پر یقیناً تمغہ برائے حسن کارکردگی کے مستحق قرار پائیں گے۔ اور بہت فخر سے اپنے نام کے ساتھ ”تمغہ امتیاز“ بھی لکھتے دکھائی دیں گے۔ اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر تک یوں ہی خدمات بجا لاتے لاتے اور غلامی کی بدنامیاں سمیٹتے سمیٹتے ایک دن تاریخ کی گمنامی میں کھو جائیں گے۔ کہ یہی گمنامی ہی ان کا مقدر ہوتی ہے جو شہرت اور دولت کی خاطر اپنا اور ملک کا وقار ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments