ٹرمپ صاحب کی ’میں‘ اور غزہ کا گالف کورس
چار سال کے وقفہ کے بعد ٹرمپ صاحب دوبارہ وائٹ ہاؤس واپس آ گئے۔ اور جیسا کہ توقع تھی ان کی واپسی کے ساتھ ہی امریکی اور عالمی سیاست میں اتھل پتھل شروع ہو گئی۔ پہلے تو کابینہ کے لئے ان کے نامزد حضرات اتنے متنازع تھے کہ ان کے ماضی اور ان کے کردار پر ہی بحث شروع ہو گئی۔ پھر صدر بنتے ہیں حسب توقع غیر ملکی درآمدات پر ٹیرف لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اور از راہ شفقت بعض دوسرے ممالک کو اپنی ریاست بنانے کا عندیہ بھی دے دیا۔ یہ جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اہل غزہ کو اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے ممالک کی طرف نقل مکانی کا مفت مشورہ دے دیا تاکہ محض خدمت خلق کے لئے امریکہ ان کے علاقہ پر قبضہ کر کے کچھ خوبصورت عمارتیں بنائے۔
اور کیا اس بے لوث خدمت کے بعد یہ علاقہ واپس فلسطینیوں کو ملے گا؟ میرا نہیں خیال کہ ٹرمپ صاحب نے کوئی شک و شبہ کی گنجائش چھوڑی ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ اہل غزہ تو کبھی وہاں واپس نہ آئیں لیکن امریکہ وہاں مال اور ہوٹل تعمیر کرے گا۔ بڑی بڑی سڑکیں بنائے گا۔ پارک بنائے گا۔ اور شاید کچھ گالف کورس بھی بنائے جائیں جہاں دنیا بھر کے امراء، بینکر اور سیاستدان آ کر گالف کھیلا کریں گے اور باتوں باتوں میں ہم جیسے غریب غرباء کی قسمت کے فیصلے بھی کر دیں گے۔ اس طرح دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا ہو گی۔ اور کچھ اشارے بھی دیے کہ عرب ممالک بھی اس پر تیار ہو جائیں گے۔
اس بیان پر مسلمان اور عرب ممالک نے اگر کوئی احتجاج کیا ہے ہے تو غالب کے الفاظ میں کچھ ایسا ہی ہے
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
رہے ہم پاکستانی تو ایسے ہر موقع پر ہمارا ایک ہی رد عمل ہوتا ہے کہ ہم اپنی گاڑیاں اور سرکاری عمارتیں جلانا شروع کر دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو پتھر مار مار کر ہسپتالوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ بیشتر اس کے کہ اس مرتبہ بھی ہم ایسا ہی کچھ مظاہرہ کریں تو سب سے پہلے چند حقائق سمجھنے ضروری ہیں۔ ٹرمپ صاحب کی آواز صرف فرد واحد کی آواز نہیں۔ اس وقت امریکہ کی آبادی کا پچاس فیصد انہی خیالات کی تائید کر رہا ہے۔ اور ان کے ہم خیال گروہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹرمپ صاحب اور ان کی ذہنیت ایک ٹھوس حقیقت ہے کوئی وہم نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے۔
ضروری نہیں کہ ٹرمپ صاحب اپنی ہر بھڑک پر عمل بھی کریں لیکن ان سے کسی بھی غیر منصفانہ طرز عمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ وہ کینیڈا اور نیٹو کے معاملہ پر تو پیچھے ہٹ سکتے ہیں لیکن یہ امکان کم ہی ہے کہ وہ مسلمان ممالک کے معاملہ میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں۔ اس طرح انہیں یہ ثابت کرنے کا موقع بھی مل جائے گا کہ وہ واقعی ایسے مرد آہن ہیں جس کی اس وقت امریکہ کو شدید ضرورت تھی۔ اور ان کے ہم خیال گروہ میں واہ واہ بھی ہو جائے گی۔
بہتر ہو گا کہ اس موڑ پر ٹرمپ صاحب کی نفسیات کا تجزیہ کیا جائے۔ میرے سامنے ان کی ایک تصنیف گریٹ اگین ہے۔ یہ کتاب انہوں نے اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران لکھی تھی۔ بعض تبصرہ نگار یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی کتب کسی اور سے لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرواتے ہیں۔ مجھے دوسری کتابوں سے فیض اٹھانے کا موقع تو نہیں ملا لیکن یہ کتاب انہی کے ذہن کی پیداوار معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ شاید کوئی اور مصنف ان کی اتنی زیادہ تعریف و توصیف نہ کر سکتا جتنی انہوں نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے۔ لیکن میرے خیال میں ٹرمپ صاحب کا نظریہ یہی ہے :
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ شاید ہی کسی اور کتاب میں ’میں‘ کا لفظ اتنی مرتبہ استعمال ہوا ہو جتنا اس کتاب میں استعمال کیا گیا ہے۔ وہ بار بار اپنی تعریف میں کئی پیراگراف تحریر کر کے اپنی اہمیت اجاگر فرماتے ہیں مثال کے طور پر صفحہ 74 ملاحظہ فرمائیں وہ اپنی منفرد خوبیاں اور بے مثال ذہانت کا ذکر فرما کر آخر نہایت انکسار سے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں :
But there is nobody like me -Nobody
مگر میرا جیسا کوئی نہیں۔ کوئی بھی نہیں۔
لیکن پھر شاید انہیں یہ خیال گزرتا ہے کہ ہو سکتا ہے کند ذہن قاری اس لطیف نکتہ کو نہ سمجھ سکا ہو اسی لئے اگلے ہی صفحہ پر وہ اپنے عظیم کاروباری کارنامے بیان کر کے دوبارہ ان الفاظ میں یہ یاد کراتے ہیں
Nobody understand business better than I do
یعنی کاروبار کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
پھر صفحہ 90 پر کمال عاجزی سے لکھتے ہیں
They have never seen anyone like me in politics
یعنی انہوں نے کبھی میرا جیسا کوئی شخص سیاست میں نہیں دیکھا۔
اس کے ساتھ وہ بار بار یہ یاد دلاتے ہیں کہ باقی سیاستدان تو صرف جھوٹ بولتے ہیں۔ صرف میں لوگوں کے سامنے سچ رکھتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنے دعاوی پر سو فیصد یقین ہے۔ صرف اپنی تعریف کرنا کافی نہیں تھا وہ بار بار باقی سیاستدانوں کو بیوقوف اور احمق بھی قرار دیتے ہیں۔
اگر کوئی بھلا مانس یہ سوال پوچھے کہ حضور آخر آپ میں کیا خاص بات ہے کہ امریکہ بلکہ ساری دنیا کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں سونپ دی جائے۔ تو اس کتاب میں اس سوال کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ ٹرمپ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کاروبار کو اتنی ترقی دی ہے۔ مجھ سے زیادہ قابل شخصیت کون سی ہو گی؟ اور حتمی ثبوت کے طور پر کتاب میں کے آخر میں اپنی ملکیت میں عمارتوں اور کاروباروں کی تفصیلات کی فہرست بھی ضمیمہ کے طور پر شامل کی گئی ہے۔
یہ تو درست ہے کہ کسی سربراہ حکومت کے لئے اقتصادی امور اور کاروباری معاملات کا بخوبی سمجھنا بھی ضروری ہے لیکن نہ معلوم یہ نتیجہ کس طرح نکالا گیا کہ جو جتنا امیر ہو گا اتنا ہی زیادہ بہتر سربراہ بھی ثابت ہو گا۔ اور اگر یہ فلسفہ قبول بھی کر لیا جائے تو پھر دنیا میں ان سے بھی زیادہ کامیاب بزنس مین موجود ہیں۔ انہیں دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک کیوں نہ بنا دیا جائے؟
انہوں نے کتاب میں اپنی بنائی ہوئی پر شکوہ عمارتوں کی کئی تصویریں بھی شامل کی ہیں کہ یہ ہیں میرے کارنامے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کیا ثابت کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اس عاجز نے نیویارک کا ٹرمپ ٹاور بھی دیکھا ہے۔ اور دوبئی ملیشیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کی عمارتیں بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اور چین کی پرشکوہ عمارتوں کا بھی ذکر سنا ہے۔ ٹرپ صاحب کی عمارتیں بہت اعلیٰ ہوں گی لیکن دنیا میں ان عمارتوں سے بہتر سینکڑوں عمارتیں موجود ہیں۔
اگر کسی نے کوئی عظیم عمارت بنوانی ہے اور اس کے لئے اسے کسی ٹھیکیدار کی ضرورت ہے تو یہ فہرست اور تصاویر شاید کسی بزنس مین کو تعمیر کا کوئی ٹھیکہ دلانے کے لئے تو کار آمد ہو سکتی ہیں لیکن ایک سربراہ کے لئے کچھ اور صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کتاب میں ان کی سوئی اسی بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ میں نے اتنی عمارتیں بنائی ہیں یا ان کی تزئین نو کی ہے اور تو اور میں نے بہت سے گالف کورس بھی بنائے ہیں، جن میں لوگ دور دور سے آخر گالف کھیلتے ہیں۔ میرے سے زیادہ امریکہ کو کس کی ضرورت ہے؟ کچھ تو عقل سے کام لو۔
اس کتاب کے آخری باب کا عنوان ہے Making America Great Again۔ اس باب کے آغاز میں انہوں کچھ صفحات اس ذکر میں صرف کیے ہیں کہ کس طرح 1974 میں انہوں نے ایک پرانے ہوٹل کی عمارت کا ٹھیکہ لے کر اس کی کایا پلٹ دی تھی۔ سامنے عمدہ عمدہ شیشے نصب کیے تھے۔ فرش کی ٹائلیں تبدیل کی گئی تھیں جس سے فرش خوبصورت ہو گیا تھا۔ اور اس کے بعد سے وہ ناکام ہوٹل کامیابی سے چلنے لگا تھا۔
ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات سے اختلاف کیا جائے لیکن یہ نفسیات سمجھنی ضروری ہے۔ ان کے اندر جو بزنس مین اور عمارتیں تعمیر کرنے والا کاروباری موجود ہے وہ اپنا جلوہ دکھا رہا ہے۔ اور اس وقت ٹرمپ صاحب کو غزہ اور اہل غزہ کی جو بربادی نظر آ رہی ہے، انہیں اس کا حل یہی نظر آ رہا ہے کہ جو اہل غزہ زندہ بچ گئے ہیں وہ کسی اور ملک منتقل ہو جائیں اور پھر ان جیسے بزنس مین وہاں پر عالی شان عمارتیں تعمیر کریں۔ بڑے بڑے مال بنیں۔ کچھ گالف کورس بنائے جائیں۔ بینکوں کی عالی شان عمارتیں ہوں۔ اگر کچھ کیسینو بھی بن جائیں تو کیا بات ہے۔ اس طرح کاروبار کو ترقی ملے گی۔ اور غزہ ایک جدید شہر میں تبدیل ہو جائے۔
لیکن اگر یہ سوال پوچھو کہ حضور پرنور غزہ کے بچے کچھے تباہ حال شہریوں کا کیا بنے گا؟ شاید ٹرمپ صاحب تنگ آ کر اس کا یہ جواب دیں کہ بھئی کچھ کام تم بھی کرو کیا اب ساری دنیا کا ٹھیکہ میں نے ہی لے رکھا ہے۔ بہرحال یہ صاحب انتخابات تو جیت چکے ہیں اور اب ان کے نزدیک پوری دنیا ایک گالف کورس ہے، جس پر ان کا کھیل جاری ہے۔ دیکھیے ہماری باری کب آتی ہے؟
- ٹرمپ صاحب کی ’میں‘ اور غزہ کا گالف کورس - 07/02/2025
- علمائے دیوبند اور مسلم لیگ: ایک موازنہ اور پورا سچ - 31/01/2025
- کیا زندگی میں روح جسم سے علیحدہ ہو سکتی ہے؟ - 19/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).