آسماں در آسماں از شاہد صدیقی: کتابِ دیگر است


کچھ روز پہلے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ہر اک ہنگامہ سا برپا تھا، ایسے لگتا تھا کہ کسی نے تھوڑی سی پی لی ہو۔ ہنگامہ یہ برپا تھا کہ پروفیسر شاہد صدیقی کی کوئی نئی کتاب آ رہی ہے ”آسماں در آسماں“ ، کچھ غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کتاب کی رونمائی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ہونے والی ہے۔ ناشر کے یہ پیغامات بھی موصول ہونے لگے کہ پیشگی خریداری پر رعایت بھی ملے گی۔ میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں موجود دوست سے کتاب کے حصول کی درخواست کردی، کتاب پچھلے اتوار شام، بندے کو پہنچ گئی۔

کتاب کے پہنچتے ہی بندہ اس مین غرق ہو گیا۔ کتاب نے ایسا پکڑا کہ وہ دو روز کے لیے میرے صبح و شام ہو گئی۔

کتاب کا مرکزی موضوع ان فنکاروں، صداکاروں، شاعروں، نغمہ نگاروں، کہانی کاروں، ہدایتکاروں اور شہر سازوں کی کہانیاں ہیں جنہوں نے جنم تو ان علاقوں میں لیا جو اب پاکستان کا حصہ ہیں مگر زندگی میں نمایاں مقام وہاں حاصل کیا جو علاقے اب ہندوستان کہلاتے ہیں۔ وہ وہاں چلے تو گئے مگر اپنے اصل وطن کی یاد انہیں ستاتی رہی۔ کچھ تو تقسیم کے بعد اپنا اصل وطن دیکھنے آ سکے مگر زیادہ تر اس کی یاد کو ساتھ لے کر سات آسمان پار کر گئے۔

مصنف کی زبان اتنی میٹھی، اتنی سادہ اور اتنی خالص ہے کہ آپ اس کے سحر سے رہائی نہیں پا سکتے۔ صرف زبان کا معیار ہی بلند نہیں ہے بلکہ کہانیاں بھی بڑی جان دار ہیں۔ اس کتاب کو اردو ادب میں وہی مقام حاصل ہونا ہے جو مولانا محمد حسین آزاد کی آب حیات کو حاصل ہے۔ تیس سے اوپر ایسی زندگیوں کی منفرد کہانیاں جو مختلف پس منظر سے اٹھے اور اپنی مثال آپ بن گئے :

آپ اپنی مثال بن سکتا
کاش میں آفتاب بن سکتا
(مقصود الزماں سحر شہید)

ان کہانیوں میں سیکھنے والوں کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ زندگی کم وسائل سے شروع ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کا خاتمہ بھی محرومی پر ہو۔ آپ اگر ہمت کریں تو آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ برے زمانوں میں بھی انسانی معاشرے میں ایسے نفوس موجود ہوتے ہیں جن کا کردار فرشتوں سے کم نہیں ہوتا۔ تقسیم جس نے بظاہر لاکھوں انسانوں کے کئی نسلوں کے ہر طرح کے سرمائے کو مٹا دیا تھا وہ انہی لوگوں کو پھر جہان تازہ پیدا کرنے سے نہ روک سکی۔

یہ سچی کہانیاں صرف ان بڑے فنکاروں کی ہی نہیں ہیں جو بہت جانے جاتے ہیں، جیسا کہ رفیع، دلیپ کمار، گلزار، امرتا پریتم، دیو آنند، خشونت سنگھ، دیوان سنگھ مفتون، سریندر کور، سر گنگا رام وغیرہ بلکہ ان کے بارے میں بھی ہیں جن کو لوگ کم جانتے ہیں یا جن کے بارے میں کم جانتے ہیں جیسے کہ راجہ مہدی علی، ثریا، بلونت کارگر وغیرہ۔ کتاب ایسے بڑے لوگوں کی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے بھری پڑی ہے۔

کتاب میں فلموں، گانوں اور کتابوں کے نام لکھ کر ایک بڑی خدمت کی گئی ہے، آپ کتاب ہی نہیں پڑھتے بلکہ بہت سی شاندار چیزوں کے نام سے واقف بھی ہوتے ہیں اور انھیں تازہ بھی کرتے ہیں۔ کتاب پڑھنے کی چیز ہے، میں اب کچھ وقت میں اس کو دوبارہ شروع کرنے والا ہوں۔ مصنف کو چاہیے اب ان لوگوں کو موضوع بنائے جو پیدا تو ہندوستان میں ہوئے مگر زندگی پاکستان میں بسر کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments