اینڈوکرنالوجی اور ابارشن


“جا بیل اسے مار” کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر نیازی نے مشورہ دیا کہ ابارشن کے موضوع پر لکھئیے۔

ایک مولوی صاحب کی تصویر اور اقوال دیکھے جس میں‌ وہ بہت عقلمندی سے یہ بتانے کی کوشش کررہے تھے کہ زمین منجمد ہے اور گھوم نہیں‌ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر زمین گھوم رہی ہے تو اگر ایک جہاز فضا میں‌ معلق ہوجائے تو چائنا کو اس کی طرف آ جانا چاہئیے۔ اس تصویر کو دیکھ کر ہنسی تو آئی ساتھ میں‌ یہ عبرت بھی ہوئی کہ جس موضوع کے بارے میں‌ زیادہ پتا نہ ہو اس پر لکھنے سے یا بولنے سے گریز کرنا چاہئیے ورنہ وہ خود کو ڈارٹ بورڈ کی طرح‌ سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں‌ اسقاط حمل ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں‌ اور پہلے زمانے میں‌ بلکہ آج بھی جہاں‌ یہ سہولیات میسر نہیں‌ وہاں‌ غیر قانونی اور غیر معیاری ابارشنز سے اموات اور حادثات ہوتے ہیں۔ اس مسئلے میں‌ کمی تعلیم اور تربیت بڑھانے‌ اور برتھ کنٹرول کی سہولت عام کرنے سے‌ ممکن ہے۔ سائنس کی ترقی نے یہ ممکن بنایا کہ صاف ستھرے ہسپتال میں‌ انسانی جانیں‌ بچ سکیں‌ اور لوگوں کی صحت بہتر ہو۔

اوکلاہوما یونیورسٹی کے پروفیسر پال سئرز نے کہا کہ “سائنس میں‌ روشنی ڈال کر وضاحت کرنے کی طاقت ہے لیکن وہ انسانوں‌ کے گہرے مسائل حل نہیں‌ کرسکتی کیونکہ تعلیم کے بعد سمجھ اور عمل کا مرحلہ آتا ہے جو کہ انتہائی ذاتی ‌ہیں۔”

جس طرح‌ سائنسدان سب الگ طرح‌ کے ہیں اور ٹیچر سب الگ طرح‌ کے ہوتے ہیں اسی طرح‌ ڈاکٹرز بھی انہی فیلڈز کے بارے میں‌ اچھی طرح‌ جانتے ہیں‌ جس میں‌ ان کا مطالعہ یا تجربہ ہو۔ او بی گائنی میں‌ ٹریننگ کے باہر کام نہیں‌ کیا اور وقت کے ساتھ یہ خوف بیٹھ گیا کہ کبھی ہم لوگ جہاز پر سوار ہوں‌ گے اور کوئی خاتون لیبر میں‌ چلی جائیں‌ گی اور جہاز میں‌ اعلان ہوگا کہ یہاں‌ کوئی ڈاکٹر ہے تو کچھ پتا نہیں‌ چلے گا کہ ان کی مدد کیسے کرنی ہے۔ اس خوف کی سائکالوجکل ٹرم بنی “ایرو گائنوفوبیا!” ایسا ابھی تک نہیں‌ ہوا اور آگے بھی امید ہے کہ یہ صورت حال سامنے نہیں‌ آئے گی۔

یہ مضمون ریپروڈکٹو اینڈوکرنالوجی، ذاتی تجربے اور مشاہدے اور معاشرتی نقطہء نظر سے لکھا گیا ہے اور اس کو اسی طرح‌ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لئیے لوکل او بی سے رابطہ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔

زندگی میں‌ کچھ سوالوں‌ کا کوئی درست یا غلط جواب نہیں‌ ہوتا۔ وہ ہر کسی کے منفرد حالات پر مبنی ہے اور یہ فیصلہ اپنے لئیے مریض‌ خود ہی کرسکتے ہیں۔ ایک مریضہ کو ڈاؤن سنڈروم ہے۔ اس کی ماں‌ کو حمل کے کچھ ہی ہفتوں‌ میں‌ یہ بات پتا چل گئی تھی کہ اس کے بچے کو ڈاؤن سنڈروم ہے۔ اس وقت اس کے سامنے دو راستے تھے، ایک اسقاط حمل اور دوسرا ساری زندگی کے لئیے ایک ذہنی طور پر معذور بچے کی دیکھ بھال میں‌ گذارنا۔ اس نے اس بچی کو 9 مہینے تک پیٹ میں‌ رکھا، پیدا کیا، پھر اس کو پالا بھی۔ آج وہ بچی بڑی ہوگئی اور اولمپکس میں‌ حصہ لیتی ہے۔ اس کی ماں‌نے اپنی زندگی اس کی ضروریات کے گرد نئے سرے سے تشکیل دی۔ وہ ہمیشہ خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی سچؤیشن کو دیکھ کر کوئی بھی انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ کیسی بچت ہوئی کہ زندگی میں‌اتنا مشکل فیصلہ کرنے کی نوبت نہیں‌ آئی۔

زندگی قیمتی ہے۔ ہمارے کلینک کی جاب اس بارے میں‌ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ماں‌ اور اس کے بچے میں‌ ذیابیطس، تھائرائڈ اور کسی بھی دیگر اینڈوکرائن کی بیماری کے باعث کم سے کم پیچیدگیاں‌ پیدا ہوں۔ اگر کوئی فون کرے اور کہے کہ وہ حمل سے ہیں تو ان کو ترجیح دی جاتی ہے، جلدی اپوئنٹمنٹ بھی اور ان کا بچہ ہوجانے تک ہر چار ہفتے واپس بلایا جاتا ہے۔ بلکہ جو بھی بچے پیدا کرنے کی عمر کی خواتین مریض‌ ہیں‌ ان کو پہلے سے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کی اینڈوکرائن کی بیماری سے حمل کے دوران کیا کیا پیچیدگیاں‌ لاحق ہوسکتی ہیں۔ اس بات کو چارٹ میں‌ ریکارڈ بھی کیا جاتا ہے کہ حمل سے متعلق ایجوکیشن دے دی گئی ہے۔

ہر سال بیلکنیپ پراکٹرشپ کے اسٹوڈنٹس کو یہی کہتی ہوں‌ کہ اگر آپ کو اینڈوکرائن کلنک کی صرف ایک بات یاد رکھنی ہے تو اس روٹیشن کے بعد ہمیشہ کے لئیے یہ یادرکھیں‌ کہ ہائپوتھائرائڈ مریضہ کو حمل کے دوران اپنی تھائرائڈ کی دوا پابندی سے لینے کی ضرورت ہے اور ڈوز کو تیس فیصد بڑھانے کی بھی ضرورت ہے ورنہ ان کے بچوں‌ میں‌ مینٹل رٹارڈیشن ہوجاتی ہے۔ حمل کے 11 ہفتے تک بچے کا اپنا تھائرائڈ گلینڈ نہیں‌ بنا ہوتا اور وہ اپنی ماں‌ پر انحصار کرتے ہیں۔ بچوں‌ میں‌ دماغی کمزوری کا سب سے عام اور قابل علاج مرض‌ ہائپوتھئراڈزم ہے۔ ذیابیطس سے کیا پیچیدگیاں‌ ہوتی ہیں، اس پر میری کتاب میں‌ پورا چیپٹر ہے۔

ابھی تک جتنی بھی ہماری مریض خواتین کے مس کیرج ہوئے ان کو تو یاد ہی ہوگا مجھے بھی یاد ہے۔ چھ سال پہلے ایک ہائپرتھائرائڈ مریضہ کی پری میچیور جڑواں‌ بچیوں‌ میں‌ سے ایک مر گئی تھی۔ آج تک سوچتی ہوں‌ کہ کیا مختلف کرتے کہ وہ بھی بچ جاتی۔ ایک خاتون واپس آئیں‌ تو وہ انتہائی اداس تھیں کہ مس کیرج ہوا اور جب وہ لوگ ایمرجنسی روم پہنچے تو فرنٹ ڈیسک نے فیٹس کو ایک پلاسٹک بیگ میں‌ ڈال دیا جس میں‌ ٹشو سیمپل جمع کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ان کو بہت تکلیف محسوس ہوئی کیونکہ وہ ان کی اولاد تھی۔ کہنے لگیں‌ کہ اس کو انسان کی طرح‌ تولیہ میں‌ بھی لپیٹ سکتے تھے۔ یہ میڈیکل عملے کے لئیے ایک سیکھنے کا لمحہ ہے کہ مریض کیسا محسوس کرتے ہیں۔ ان کی اداسی مجھے خود پر چڑھتی ہوئی محسوس ہوئی جس کو جھٹکنے میں‌ سارا دن لگ گیا۔

ابارشن کے موضوع پر امریکہ میں‌ دو گروہ پائے جاتے ہیں‌، ایک پرو لائف اور ایک پرو چوائس۔ پرو لائف رائٹ ونگ موومنٹ ہے جو ان خواتین کو مجرم قرار دے کر سزاوار ٹھہرانا چاہتے ہیں‌ جو اسقاط حمل چنیں اور پرو چوائس گروہ کے مطابق یہ ایک خاتون کا نجی معاملہ ہے۔ ان کی فلاسفی کے مطابق اگر کوئی ان ناچاہے بچوں‌ کو گود لینے کے لئیے تیار نہیں‌ تو ان کو کوئی حق نہیں‌ پہنچتا کہ وہ کسی ماں‌ کو یہ ذمہ داری اٹھانے پر مجبور کریں۔ پرولائف افراد بینر اٹھائے ابارشن سینٹر کے باہر آتی جاتی خواتین کو ہراساں‌ کرتے ہیں، ان پر نعرے کستے ہیں اور ان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی لوگ ان ڈاکٹرز اور نرسز کو جان سے بھی مار چکے ہیں۔ یعنی ان کو یہ بچے نہ گود لینے ہیں اور ان بچوں کی اتنی فکر تھی جو ابھی دنیا میں‌ آئے بھی نہیں‌ کہ انہوں‌ نے تعلیم یافتہ جیتے جاگتے انسانوں کی جان لینا مناسب سمجھا۔ جیسا کہ ساری دنیا نئی امریکی حکومت کا تماشہ دیکھ رہی ہے، مشہور کامیڈین بل ماہر نے صحیح‌ کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ری پبلیکنز کسی انسان کی جان کی کچھ پروا کریں تو ان کو واپس اپنی ماؤں‌کی بچہ دانی میں‌ لگا دیں۔

ایک سائکالوجکل ٹرم ہے پروجیکشن جس میں‌ ہم اپنے آپ کو کسی اور میں‌ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوں‌ تو ایسا لگتا ہے کہ ہم خود کھیل رہے ہیں، ہم جیت گئے یا ہار گئے۔ اسی لئیے گونگی چیخ کی طرح‌ کے جذباتی ابارشن کے خلاف مضامین میں‌ جو کہا گیا ہے وہ مکمل طور پر حقیقت نہیں‌ ہے۔ ماں‌ کے پیٹ میں‌ بچے کو نروس سسٹم تشکیل دینے میں‌ وقت لگتا ہے اور کوئی شواہد نہیں‌ کہ بالکل شروع کی سطوحات میں‌ یہ فیٹس تکلیف محسوس کرنے کے لائق ہیں۔ اس طرح‌ کی وڈیوز سے دیکھنے والے پروجیکشن کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتے ہیں۔

پرولائف فلاسفی کے مطابق ایک ماں‌ نے اس وقت اس بچے کے دنیا میں‌ آنے کی ذمہ داری قبول کرلی جب انہوں‌ نے جنسی تعلقات قائم کئیے۔ کیا یہ بات اتنی ہی سادہ ہے؟ پاکستان کے اندر ایک اندازے کے مطابق 33 فیصد شادیاں‌ انڈر ایج ہو رہی ہیں۔ ان معصوم بچیوں‌ کے کھیلنے کے دن پورے نہیں‌ ہوتے اور ان کے کاندھوں‌ پر گھربار اور بچوں‌ کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔ اس وقت نہ ان کا جسم اور نہ ہی دماغ ان ذمہ داریوں‌ کو نبھانے کے لائق ہوتا ہے۔ سائنس ترقی کرچکی ہے اور برتھ کنٹرول محفوظ طریقہ ہے جس سے بچوں‌ کی تعداد کو کم کیا جاسکتا ہے اور اس سے وہ اپنی صحت اور زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس وقت افسوسناک حالات یہ ہیں‌ کہ پاکستان دنیا میں‌ بچے کی پیدائش کے دوران ماں کی موت کی شرح‌ میں‌ بھی سب سے آگے ہے اور پیدائش کے دوران بچوں‌ کی اموات کی شرح‌ میں‌ بھی سب سے آگے ہے۔ ایک انڈر ایج انسان جنسی تعلق کے لئیے انفارمڈ کنسنٹ یعنی کہ تعلیم یافتہ رضامندی دینے کا اہل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ دنیا کے کافی سارے ممالک میں‌ میریٹل ریپ کو جرم تصور نہیں‌ کیا جاتا۔ ان کے خیال میں‌ جب ایک خاتون نے شادی کی رضامندی دی تو شوہر کو کسی بھی وقت اور حالات میں‌ جنسی تعلق بنانے کا حق مل گیا۔ ایسے حالات میں‌ جہاں‌ نارمل ٹین ایجرز کو اپنے نارمل جذبات، احساسات اور بنیادی انسانی حقوق پر جلایا اور مارا جارہا ہے وہاں‌ پر انفارمڈ کنسنٹ کا تصور بھی مشکل ہے۔ ‌افریقی اور عرب دنیا، یہاں‌ تک کہ کچھ جنوب ایشیائی کمیونٹیز میں‌ آج بھی فیمیل جینیٹل میوٹیشن سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ خواتین میں‌ جنسی مسرت ختم کی جا سکے۔ دنیا میں آج بھی کافی لوگ اس تخریبی کام میں‌ جتے ہوئے ہیں‌ کہ کس طرح‌ خواتین کو ایک انکوبیٹر بنا دیں۔ اس کا نقصان بھی سب ہی اٹھائیں گے لیکن یہ دقیانوسی سوچ ہر طرح‌ کی کتابوں‌ اور جھوٹی سائنس کا سہارا لینے سے گریز نہیں‌ کرتی۔

جنسی تعلقات کا مقصد محض بچے پیدا کرنا ہوتا تو پوسٹ مینوپازل خواتین، حاملہ خواتین، کسی بھی کروموسومل یا بیماری کی وجہ سے بچے نہ پیدا کرسکنے والے افراد اور ہم جنس جوڑے جنسی تعلقات استوار نہ کرتے۔ ریپ ایک اور مثال ہے اور ہر جسم میں‌ بچہ دانی نہیں‌ ہوتی۔ اس طرح‌ یہ نقطہ غلط ثابت ہوتا ہے کہ جنسی تعلق استوار کرنا ایک بچے کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرنے سے مشروط ہے۔

 دنیا میں‌ ماں‌ سے زیادہ اپنے بچے کا خیال یا اس سے پیار کوئی نہیں‌ کرسکتا۔ اگر ایک ماں‌ یہ فیصلہ کرلے کہ وہ اس بچے کو نہیں‌ سنبھال پائے گی تو یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہے۔ اس ذاتی فیصلے میں‌ ریاستی یا قانونی دراندازی سے غیرقانونی اور خطرناک پروسیجرز میں‌ اضافہ ہوتا ہے جو کہ ان خواتین کی موت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں ‌100 ملین خواتین بدسلوکی کی وجہ سے غائب ہیں جن میں‌سے زیادہ تر افریقہ ، چین اور انڈیا میں ‌ہیں اور ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے میں‌ لگا ہے اس لئے ماؤں‌ کو ہی کھڑا ہو کر پوچھنا پڑے گا کہ ہماری بچیاں‌ کس لئے مر رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).