میمنتو موری۔ ۔ ۔
یہ بات 1066 عیسوی کے انگلستان کی ہے اور کسی بھی سن کے کسی بھی استھان سے اس کا تعلق محض اتفاقی ہے۔ بادشاہ کا انتقال ہوا تو تخت کے چار دعویدار تھے۔ دو مقامی اور دو بیرون ملک۔ مقامی دعویدار، ہمیشہ کی طرح بادشاہ کے رشتے دار تھے۔ ایک بھتیجا اور دوسرا، ملکہ کا بھائی۔ فیصلہ، مقتدرہ کی مجلس نے کرنا تھا سو انہوں نے اس وقت کے رواج مطابق، بیگم کے خانوادے کو بھائی کے خاندان پہ فوقیت دی اور کم عمری کی سدا بہار تاویل دیتے ہوئے بادشاہ کے برادر نسبتی کو بھتیجے کی جگہ نیا بادشاہ مقرر کیا۔ بیرون ملک مقیم دعویداروں نے یکے بعد دیگرے، بالترتیب، شمال اور جنوب سے حملے کیے۔ نیا بادشاہ، شمال کی جنگ تو جیت گیا، مگر جنوب کا معرکہ، ہار گیا۔ اکتوبر 1066 میں جنوبی انگلستان کے ساحل پہ لڑی جانے والی یہ جنگ،
Battle of Hastings
کہلاتی ہے۔
مقامی بادشاہ کا نام ہیرلڈ اور بیرونی حملہ آور کا نام، ولیم تھا۔ انگلستان کی تاریخ میں اس جنگ کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ہندوستان کی تاریخ میں پانی پت کی جنگوں کو دی جاتی ہے۔ ساڑھے نو سو سال پرانے اس معرکے کی تقریباً تمام اہم تفصیلات، تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جنگ کا میدان، معمولی رد و بدل کے ساتھ ابھی تک ویسا ہی ہے۔ جس جگہ مقامی بادشاہ ہیرلڈ کا سر قلم ہوا، وہاں اب بھی ایک پتھر ایستادہ ہے۔ اسی پتھر کے عقب میں درگاہ نما عمارت ہے جس کے کچھ کچھ آثار اب بھی باقی ہیں۔ اس میدان سے بہت دور اور اس جنگ سے بہت پہلے یہ رسم کہیں اور بھی دہرائی جا چکی تھی۔
261 قبل مسیح میں اشوک نے دھولی کے میدان میں کالنگا کی جنگ جیتی تھی۔ ہندوستانی تاریخ میں اپنی بربریت کے سبب جانی جانے والی اس جنگ میں ہزاروں لوگ مارے گئے، جنگ کے بعد کی تباہی ایسی تھی کہ اشوک جیسے سنگ دل بادشاہ نے بھی تلوار رکھ دی اور دھرما چکر اٹھا لیا۔ کہتے ہیں اس کایا کلپ کے بعد اشوک نے اس علاقے میں ایک بہت بڑی درگاہ بنوائی جہاں بیسیوں بھکشو، ہر وقت بخشش کی دعائیں مانگتے رہتے تھے۔
ہیسٹنگز کی اس جنگ میں ہزاروں لوگوں کا خون بہانے کے بعد ، ولیم نے کلیسا کی طرف دیکھا تو پوپ نے پرائشچت کے لئے وہی آزمودہ نسخہ سجھایا۔ راج نیتی میں سب سے اچھی فصل، کفارے کی ہے کہ اس کے گیہوں سے پروہت کا پیٹ بھرتا ہے اور اس کے بھوسے سے راجہ کا قلعہ مضبوط ہوتا ہے۔
انگلستان پہ راج سنگھاسن جمانے کے لئے پہلے تو ولیم نے ایک مربوط بیانیہ تشکیل دیا کہ مقامی بادشاہ نے مقدس متبرکات پہ اس سے وفاداری کی قسم کھائی تھی۔ ولیم بادشاہ، ان دنوں اپنے ملنے والوں سے یہی کہا کرتا کہ اس قسم کی روگردانی، مذہب کی توہین تھی اور ان فتنوں کی سرکوبی کے لئے اس کا انگلستان پہ حکومت کرنا، خواہش سے زیادہ مجبوری کا معاملہ تھا۔
حکومت مستحکم کرنے کے بعد ، ولیم نے چار کام کیے۔
سب سے پہلے، شمال کے ان لوگوں کی طرف ہلہ بولا گیا تھا جو ولیم کے اقتدار کو نہیں مانتے تھے۔ ان کے خلاف جنگیں لڑی گئیں، قتل عام ہوئے، کھیت جلائے گئے اور زندہ رہنے کا واحد راستہ، ولیم کی اطاعت رکھا گیا۔ دوسرا کام، ریاست کی ہر ممکنہ سرحد پہ قلعے اٹھانا تھا۔ یہ قلعے صرف دفاعی نکتہ نگاہ سے نہیں تعمیر کیے گئے تھے بلکہ ان کے زیادہ اہم مصارف، لگان کی وصولی، مقامی لوگوں پہ خوف کا اطلاق اور ایک نئے نظام کا تعارف تھا۔ ولیم کا تیسرا کام محصولات کی وصولی سے متعلق تھا۔ اس نے کل مملکت کو سات حصوں میں تقسیم کیا اور اہلکار بھیج کر ہر قسم کی تفصیل کو دستاویز کیا۔ زمین کے ہر ٹکڑے کی پیمائش ہوئی، فصل کا احوال، زمین کی مالیت، لگان کی شرح اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ہونے والی کمی بیشی بھی اس اندراج میں شامل ہوئی۔ معلومات کا یہ دفتر، اس قدر مفصل تھا کہ لوگوں نے اسے محشر کا نامۂ اعمال کہہ کر پکارنا شروع کر دی۔
ولیم کا چوتھا کام، مذہب کے ہاتھوں، اپنے اقتدار کی گرفت مضبوط کرنا تھا۔ اس ضمن میں اس کی اصلاحات، اب نصاب کا حصہ ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک تو اسے تاریخ سمجھ کر پڑھتے ہیں، کچھ ریاستیں البتہ ایسی بھی ہیں جو اسے قانون سمجھ کر نافذ کرتی ہیں۔ انگلستان میں بادشاہ اور کلیسا کے درمیان معاملات، کنٹربری کے آرچ بشپ کا استحقاق ہوا کرتے تھے۔ سب سے پہلے ولیم نے اس عہدے پہ اپنا قابل اعتماد راہب تعینات کیا۔ اگلے مرحلے میں مقامی پادریوں کی جگہ نئے پادری بھرتی کیے گئے۔ اس کے بعد کلیسا کے انتظامی عہدوں میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ اختیار نئے آنے والے پادریوں سے ہوتا ہوا بادشاہ کے قابل اعتماد صدر راہب کے ہاتھ میں آ گیا۔ آخر میں فوجداری کے اہم معاملات، سرکاری عدالتوں سے لے کر کلیسائی عدالتوں کے حوالے کر دیے گئے جن کے فیصلے حتمی تھے۔ اب جرم کی تعزیر کے ساتھ ساتھ عدل کی تشریح بھی کلیسا کے راستے بادشاہ کا اختیار ٹھہری۔
ان چار اصلاحات نے ولیم کے اقتدار کو بظاہر مستحکم کر دیا۔ محصولات سے خزانہ بھرا رہنے لگا اور قلعوں سے ہیبت طاری ہوتی رہی، مہمات سے فتنہ پروروں کی سرکوبی اور مذہب سے فرمانبرداروں کی تشفی کا سلسلہ جاری رہا۔ آنے والے تمام سالوں میں اس کی آل اولاد نے انگلستان بلکہ یورپ بھر میں حکمرانی کی یہاں تک کہ دنیا نے جمہوریت کی طرز کا نیا نظام حکومت دیکھا، سیکھا اور اپنا لیا۔
ستمبر 1087 میں ولیم کا انتقال ہوا۔ اپنی وسیع سلطنت، مطلق اختیار اور کامل طاقت کے باوجود، موت کی قربت میں یہی بادشاہ جسے تاریخ میں فاتح کہہ کر پکارا جاتا ہے، تاسف کی شدت سے نڈھال رہا۔ اپنے آخری دنوں میں کبھی وہ ان تمام زمینوں، دیہات اور پرگنوں کی طرف بھاری رقوم، تلافی کی کوشش اور معافی کی خواہش میں بھجواتا تو کبھی ان مسمار کلیساؤں کے معزول پادریوں کو نئی عبادت گاہوں کے لئے جاگیریں عطا کرتا۔ موت کے بعد بھی بے توقیری نے اس بادشاہ کا طویل تعاقب کیا۔ اپنی آخری خواہش کے طور پہ اس نے جس عبادت گاہ کو اپنے مدفن کے لئے چنا تھا، وہ اسی کی تعمیر کردہ تھی۔ جب راہبوں نے آخری وعظ میں خدا کے لازوال بھروسے کا تذکرہ شروع کیا تو مجمعے میں سے ایک شہری، آرتھر، آگے بڑھا اور تدفین روکنے کی پکار اٹھائی۔ اس کا دعوی تھا کہ اس عبادت گاہ کی زمین، بادشاہ نے اس کے باپ سے طاقت کے زور سے چھینی تھی۔ پادریوں نے اس سے ملکیت کا ثبوت مانگا اور ضروری پڑتال کے بعد اس کا دعوی تسلیم کر لیا گیا۔ زمین کی قیمت ادا کرنے کے بعد کفن کو قبر میں اتارا گیا اور آخری رسومات مکمل کی گئیں۔
قدیم روم کی روایات یوں تو کسی نہ کسی شکل میں ساری دنیا میں رائج ہیں مگر کچھ رسوم ایسی بھی ہیں جو شاید دانستہ طور پہ فراموش کر دی گئی ہیں۔ کسی بھی مہم سے کامیاب لوٹنے پہ فاتح جرنیل کو روما کی شاہراہوں سے جلوس کی صورت گزار کر شہر کے مرکز میں لایا جاتا جہاں بادشاہ اس کی فتح کی اہمیت گنواتا اور آخر میں اس موقعے کی مناسبت سے بلوط کے پتوں سے بنا ہوا تاج اس کے سر پہ رکھا جاتا۔ شہر کی حدود میں داخلے سے سر پہ تاج رکھے جانے تک ایک خصوصی غلام، ہمہ وقت، وقفے وقفے سے جرنیل کے کان میں ”میمنتو موری“ کی سرگوشیاں کرتا رہتا۔ لاطینی زبان کی اس ترکیب کے لفظی معنی تو موت کو یاد کر نے کے ہیں، لیکن اس کا فلسفیانہ پس منظر، زوال کی آفاقیت ہے۔ دنیا کی تاریخ، انسان کی کہانی ہے، جس میں اور کچھ ہو نہ ہو، ملال ضرور ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی، کب منڈیریں اتر کر، روشن دانوں اور دہلیزوں سے ملے بغیر رخصت ہو جاتی ہے، دیوار کی اینٹوں کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ شاید میمنتو موری پکارتی آواز پہ صرف صاحب اقتدار یا رہوار پہ سوار سالار کا استحقاق بے جا ہے، ضروری ہے کہ اس کی گونج، ماند پڑتے حسن، مدھم ہوتی دھوپ اور حدت کھوتے وسیلوں تک بھی پہنچے۔
محمد حسن معراج
20 فروری 2025
- میمنتو موری۔ ۔ ۔ - 23/02/2025
- شاہدرہ اور ترلوک شاہ کے یار - 24/12/2024
- شاندار، زبردست، زندہ باد - 06/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).