قومی زوال کے تین غیر ریاستی کردار (2)
’زمیندار‘ اور ’انقلاب‘ میں افتراق نے اماکن مقدسہ پر پنجاب کے مسلمانوں میں ہیجان سے جنم لیا. اگست 1925 میں خبر آئی کہ عبدالوہاب کے پیروکاروں نے اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کے مزارات کو سخت نقصان پہنچایا ہے. اس پر خلافت کمیٹی نے ایک وفد حجاز بھیجنے کا فیصلہ کیا. مولانا محمد عرفان, مولانا ظفر علی خان اور شعیب قریشی اکتوبر 1925 میں حجاز روانہ ہوئے. یہ وفد سلطان ابن سعود کو قائل کرنے میں ناکام رہا تاہم ابن سعود کے حامی مولانا ظفر علی خان نے ابن سعود سے علیحدگی میں ملاقات کر کے اپنی ایک الگ رپورٹ تیار کی. مجلس ترقی ادب کی طرف سے 1986 میں شائع ہونے والی کتاب ‘مولانا ظفر علی خان: احوال و آثار‘ کے صفحہ 145 پر درج ہے کہ ’زمیندار کو اس زمانے میں وہاں سے بے حد مالی اعانت ملی۔ کارکنوں کو رقم موصول ہونے کا علم ہوا تو عرصہ دراز سے بند تنخواہوں کا مطالبہ سختی سے کیا گیا. مولانا غلام رسول مہر کارکنوں کی نمائندگی کر رہے تھے. تلخی حد سے بڑھی تو غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک نے دیگر کارکنوں سے مل کر اپنا اخبار ’انقلاب‘ جاری کر لیا.
پنجاب میں سر سکندر حیات، سر فضل حسین اور چوہدری چھوٹو رام نے 1923 میں ہندو مسلم زمیندار اشرافیہ کے تحفظ کے لیے یونینسٹ پارٹی قائم کی تھی. روزنامہ انقلاب نے یونینسٹ پارٹی کی ترجمانی سنبھال لی. قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے ہندو اخبارات بھارت منتقل ہو گئے. لاہور میں ’زمیندار‘، ’نوائے وقت‘, ’احسان‘، ’انقلاب‘، ’امروز‘، ’سفینہ‘ اور ‘مغربی پاکستان‘ میدان میں اترے. ‘نوائے وقت‘ کو افتخار حسین ممدوٹ کی سرپرستی حاصل تھی. مسلم لیگ کی حمایت میں تاخیر سے’انقلاب ‘کو یہ نقصان ہوا کہ یکے بعد دیگرے صوبائی حکومتوں نے انقلاب پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں. سرکاری اشتہارات بند کر دیے گئے. بالآخر 1949 میں انقلاب بند ہو گیا. اسی برس 13 مئی کو کشمیر کے بارے میں ایک خبر دینے پر لاہور کے قدیم ترین اخبار’سول اینڈ ملٹری گزٹ ‘پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگائی گئی. اس مقصد کے لئے حکومتی ایما پر سولہ اخبارات نے ایک ’مشترکہ اداریہ‘ شائع کیا. صرف ’امروز‘ نے یہ اداریہ شائع کرنے سے انکار کیا لیکن اپنے موقف پر صرف ایک روز قائم رہ سکا. ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کے خلاف مہم در اصل حمید نظامی کی تخلیق تھی تاہم ’ڈان‘ کے ایڈیٹر الطاف حسین زیادہ بلند آہنگ تھے. پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اختلاف کے باوجود اس یلغار کی مزاحمت سے معذور تھے. ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ اس پابندی سے ایسا اکھڑا کہ بالآخر بند ہو گیا. وقار انبالوی کا اخبار ’سفینہ‘ بھی جولائی 1949 میں ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا. ’ممدوٹ۔دولتانہ‘ کشمکش میں نوائے وقت ممدوٹ دھڑے کا حامی تھا. تاہم ممتاز دولتانہ کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ’نظریہ پاکستان‘ کا یہ خود ساختہ محافظ روشن خیال رجحانات کی بھرپور مخالفت کے باوجود سرکاری عتاب سے محفوظ نہ رہ سکا اور اپریل 1951 میں ایک تکنیکی غلطی کی پاداش میں نوائے وقت کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا. ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے لکھا کہ ’نوائے وقت سیاسی اعتبار سے بہت طاقتور اخبار تھا. تاہم حمید نظامی آزادی صحافت کے قائل نہیں تھے‘. انہوں نے ہم عصر اخبارات پر پابندیوں کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ سیاسی بادشاہ گر کی حیثیت سے غلام محمد اور چوہدری محمد علی جیسے سرکاری کارندوں کے آلہ کار بن کر رہ گئے۔ خواجہ ناظم الدین کو برطرفی سے قبل مستعفی ہونے کا مشورہ بھی حمید نظامی نے اپنے اداریے میں دیا تھا۔ اس دوران مسلم لیگ حکومت نے سویرا، جاوید، نقوش اور ادب لطیف جیسے ادبی پرچوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔
آزادی کے فوراً بعد پاکستانی صحافت پر الطاف حسین، حمید نظامی اور زیڈ اے سلہری کا قبضہ تھا. الطاف حسین لیاقت علی خان کے قریب تھے۔ زیڈ اے سلہری مالی اور سیاسی طور پر بے پیندے کا بدھنا تھے. ایوب آمریت میں زیڈ اے سلہری کو اعزازی کرنل کا رینک دے کر آئی ایس پی آر کا سربراہ بنایا گیا. تب الطاف حسین ایوب کابینہ کا حصہ بن چکے تھے اور دونوں میں اس قدر مخاصمت تھی کہ باہم دعا سلام کے روادار نہیں تھے۔ جنیوا کے ایک ہوٹل میں اتفاقاً دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا. الطاف حسین کا آفتاب گہنا چکا تھا. دونوں اپنی اپنی میز پر بیٹھے رہے اور پھر الطاف حسین اٹھ کر سلہری کے سامنے آ بیٹھے اور اپنے پرانے ساتھی سے کہا. ’سلہری میری غلطیاں مت دہرانا‘۔
1949 میں سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو کو پروڈا کے تحت عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیا گیا تو انہوں نے اس اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کیا. مقدمے کے گواہوں میں آغا شاہی بھی شامل تھے. آغا شاہی نے عدالت میں گواہی دیتے ہوئے کہا کہ وہ سرکاری اہلکار کی حیثیت سے مقدمہ چلائے بغیر نظربندی کا اختیار دینے والے ایک آرڈیننس کے مسودے پر دستخط کرانے کے لیے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے پاس گئے تو انہوں نے غصے سے کہا ’میں ساری زندگی ایسے سیاہ قوانین کے خلاف لڑتا رہا ہوں اور اب آپ مجھ سے ایسے ہی ایک قانون پر دستخط کروانا چاہتے ہیں. نہیں! میں اپنے موقف پر قائم رہوں گا‘. قائداعظم کے انتقال کے ایک مہینہ بعد اکتوبر 1948 میں وہی آرڈیننس جس پر انہوں نے دستخط کرنے سے انکار کیا تھا, پبلک سیفٹی ایکٹ آرڈیننس کے طور پر نافذ کر دیا گیا. مئی 1952 میں دستور ساز اسمبلی نے اس آرڈیننس کو باقاعدہ قانون کی حیثیت دے دی. اسی آرڈیننس کی مبینہ خلاف ورزی پر ابراہیم جلیس, احمد ندیم قاسمی اور حمید اختر جیسے جید صحافیوں کو قید و بند کی صعوبتیں سہنا پڑیں. اسی قانون کی مدد سے ایوب آمریت نے 19 اپریل 1959 کو پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار پر قبضہ کیا۔ اس ادارے کے مالک میاں افتخار الدین اس صدمے سے سنبھل نہ سکے اور 6 جون 1962 کو انتقال کر گئے جس پر فیض احمد فیض نے لکھا تھا.
نہ گنوائو ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
(جاری ہے)
- بارہ من کی دھوبن اور رادھیکا کے توڑے - 30/04/2025
- جنگ اور امن میں انتخاب کی گھڑی - 26/04/2025
- جنگل میں رات اور خواب کی تھکن - 23/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).