بنگالی ناول ”گورا“ کا اردو ترجمہ
نوبل انعام یافتہ رابندرناتھ ٹیگور کا مشہور بنگالی ناول ”گورا“ بنگالی ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں سماجی، مذہبی اور سیاسی مسائل کو گہرائی سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ناول کا اردو ترجمہ یزدانی جالندھری اور رفیق رام سرن بھاردواج نے مشترکہ طور پر کیا ہے اور اسے ”شمع الفت“ کے عنوان سے پہلی بار 1942 ء میں لاہور سے شائع کیا گیا تھا۔ حالیہ عرصے میں، رنگ ادب پبلی کیشنز، اردو بازار کراچی نے اسے دوبارہ شائع کیا ہے جس کے پیش لفظ میں جناب یزدانی جالندھری کے صاحب زادے شاعر و ادیب حامد یزدانی نے اس ترجمے کی اہمیت و جواز پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
ناول ”گورا“ کا مرکزی منظر نامہ ہمارے سامنے 1880 ء کی دہائی کے کلکتہ کی سیاسی اور سماجی تصویر پیش کرتا ہے، جہاں ہندو ازم، برہمو سماج، ذات پات، مذہبی تنازعات اور قوم پرستی کے موضوعات ایک ساتھ پروئے گئے ہیں۔ گورا کا مرکزی کردار برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت کا جذبہ رکھتا ہے اور ہندو مذہب کی روایتی اقدار سے جڑا ہوا ہے مگر ناول کے اختتام پر اس کا نظریاتی سفر اسے انسانیت کے آفاقی اصولوں تک پہنچاتا ہے۔
ذات پات کی تفریق سے آلودہ معاشرہ میں انسانیت کی جانب بڑھایا ایک قدم بھی دوسروں کے لیے کس قدر طمانیت اور مسرت کا باعث بنتا ہے اُس کی ایک مثال ناول کے کرداروں کی زبانی ملاحظہ ہو۔ اس میں ایک اونچی ذات کا فرد نچلی ذات کے فرد کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا کر ایک غیر انسانی سماجی روایت سے بغاوت کرتا ہے۔
آج بھی گورا دفتر گیا ہوا تھا۔
ونے تیزی سے بغیر کسی روک ٹوک کے آنند متی کے کمرے میں جا کھڑا ہوا۔ اُس وقت آنند متی کھانا کھانے بیٹھی تھی اور لچھمی بھی اُس کے پاس بیٹھی پنکھا کر رہی تھی۔
آنند متی نے حیران ہو کر پوچھا: ”کیوں رے و نے، تجھے کیا ہوا ہے؟“
ونے نے اُس کے پاس بیٹھ کر جواب دیا: ”ماں بڑی بھوک لگی ہے، جلدی کچھ کھانے کو دو“ آنند متی نے متفکر ہو کر کہا: ”یہ مشکل ہے۔ برہمن باورچی تو چلا گیا۔ تو۔ تو۔ اب اور۔“
ونے : ”میں کیا براہمن باورچی کے ہاتھ کا کھانا کھانے آیا ہوں؟ اگر اسی کے ہاتھ کا کھانا ہوتا تو کیا میرا براہمن باورچی مر گیا تھا! میں تمہاری تھالی کا کھانا کھاؤں گا۔ لچھمی! مجھے ایک گلاس پانی تو لا دو۔ لچھمی کے پانی لا کر دیتے ہی و نے اُسے غٹاغٹ پی گیا۔ آنند متی نے دوسری تھائی منگوا کر بڑی محبت سے اپنی تھالی کا تھوڑا سا بھات اس میں رکھ دیا۔ و نے کئی دنوں کے بھو کے آدمی کے مانند تھالی پر ٹوٹ پڑا۔
ونے کے اس سلوک سے آنند متی کے دل کا ایک درد آج دور ہو گیا۔ اُس کے مسرت سے لبریز چہرے کو دیکھ کر ونے کے دل کا کنول بھی خوشی سے کھل گیا۔
یزدانی جالندھری اور بھاردواج نے نہ صرف بنگالی اسلوب اور ٹیگور کی نثر کی روح کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے بلکہ اردو قارئین کے لیے اس کے پیچیدہ فلسفیانہ مباحث کو بھی قابلِ فہم بنایا ہے۔ ترجمے میں لسانی سلاست اور ادبی شائستگی کا بھرپور اظہار جابجا ملتا ہے، جو اسے محض ایک ترجمہ ہی نہیں بلکہ ایک بہترین تخلیقی کاوش بناتا ہے۔
ترجمے میں اسلوبیاتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بنگالی زبان کی مخصوص ادبی موضوعات کو اردو میں منتقل کرتے ہوئے مترجمین نے محاوراتی چاشنی اور جملوں کی ساخت کو متاثر نہیں ہونے دیا ہے جو کہ ایک اچھے مترجم کی نشانی ہے۔
ترجمے میں مصنف کی فکری گہرائی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اصل ناول کے فلسفیانہ، مذہبی اور سیاسی مکالمے کو بڑی مہارت سے اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے قاری کو اصل متن کی معنویت سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
ناول کے مکالمے اور کردار نگاری بھی بہترین ہیں۔ ترجمے میں گورا، و نے، پاشی، بینوی، لولیٹا اور دیگر کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگی کو موثر انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مکالمے کی تکنیک کے استعمال کا ایک موثر انداز دیکھیے :
گورا (پریش بابو) کی چِٹھی پڑھ کر خاموش ہو گیا۔ اسے خاموش دیکھ کر تھوڑی دیر بعد و نے بولا:
”پریش بابو نے اپنی طرف سے جیسی اجازت دی ہے، ویسی ہی اجازت آپ کو بھی دینی پڑے گی، گورا۔“
گورا: ”پریش بابو اجازت دے سکتے ہیں کیونکہ ندی کی جس دھارا میں کنارے ٹوٹ رہے ہیں، وہ دھارا اُن کی ہے، لیکن میں اجازت نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ میری دھارا کنارے کی حفاظت کرتی ہے۔ ہمارے اس کنارے پر نہ معلوم زمانہ قدیم کی کتنی متبرک یادگاریں موجود ہیں۔“
ونے : ”گویا تم میری اس شادی کو منظور نہ کرو گے؟“
گورا: ”یقیناً نہیں کروں گا اور۔“
ونے : ”اور؟“
گورا: ”اور تمہیں چھوڑ دوں گا۔“
ونے : ”اگر میں تمہارا مسلمان بھائی ہوتا تو؟“
گورا: ”تو دوسری بات تھی۔ پیڑ کی ڈالی اگر خود بخود ہی ٹوٹ کر الگ ہو جائے تو پیڑ اُسے کسی طرح بھی پہلے کے مانند اپنے ساتھ جوڑ نہیں سکتا لیکن باہر سے جو بیل آ کر اُس پر چڑھتی ہے، اُسے وہ پناہ دے سکتا ہے۔ یہاں تک کہ آندھی سے ٹوٹ کر گر پڑنے پر بھی اُسے اپنے سے جدا نہیں کرتا۔ لیکن جب اپنا پرایا ہو جاتا ہے تو اس سے علیحدگی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔“
ناول کی زبان ایسی دل کش ہے کہ قاری منظر میں ڈُوب کر رہ جاتا ہے۔ تخلیقی ترجمہ کی یہی خصوصیت ہے کہ اس میں اصل متن کے حُسن کو متاثر کیے بغیر دوسری زبان کے محاورے میں منتقل کیا جاتا ہے۔ مثلاً ”گورا“ میں بارش کی ایک رات کی منظر کشی اس انداز میں کی گئی ہے :
جب رات کے دو بجے سچارتا کی آنکھ کھلی، تو اُس نے دیکھا کہ باہر چھم چھم بارش ہو رہی ہے۔
کبھی کبھی اُس کی مسہری کا پردہ چاک کر کے بجلی کی روشنی چمک اٹھتی تھی۔ کمرے میں ایک طرف جو چراغ جل رہا تھا، وہ بجھ گیا تھا۔ اُس رات کی تاریکی، ہیبت ناکی، ویرانی اور موسلا دھار بارش کی آواز سے سچارتا کے دل میں ایک طرح کی کسک ہونے لگی۔ اُس نے ادھر اُدھر کروٹیں بدل کر سونے کی بڑی کوشش کی لیکن کسی طرح نیند نہ آئی۔ آخر مایوس ہو کر وہ باہر نکل آئی۔ کھلے دروازے کے پاس کھڑی ہو کر سامنے کی چھت کی جانب دیکھنے لگی۔ کبھی کبھی ہوا کے جھونکوں سے پانی کی بوچھاڑ بھی اُس کے بدن پر پڑ رہی تھی۔ بار بار شام کا وہی واقعہ پھر اُس کے تخیل میں سنیما کی متحرک تصاویر کے مانند ایک ایک کر کے سامنے آنے لگا۔ چھت پر غروب آفتاب کی سرخ روشنی میں گورا کی صورت تصویر کے مانند اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی۔
حامد یزدانی نے پیش لفظ (حرف آغاز) میں بنگالی ناول کے اردو میں دوبارہ اشاعت کے پس پردہ عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق، یزدانی جالندھری کے تراجم کو پاکستان میں فراموش کر دیا گیا تھا جبکہ بھارت میں ان کی کتابیں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ اس ترجمے کی اشاعت ادبی احیا (Literary Revivalism) کی ایک بہترین کوشش ہے تاکہ اردو ادب کے قارئین کلاسیکی بنگالی ادب کے شاہکاروں سے واقف ہو سکیں۔
کتاب کا انتساب یزدانی جالندھری نے اپنے قریبی دوست ضیا سرحدی کی اہلیہ زہرہ غزنوی کے نام منسوب کیا ہے، جو اس وقت کے ادبی حلقوں میں ایک جانی پہچانی شخصیت تھیں۔
یہ ناول آج بھی بنگالی اور پاکستانی سماج کے لیے ایک آئینہ ہے۔ ٹیگور نے جس ذات پات، مذہبی تقسیم، طبقاتی کشمکش اور استعماری نظام کی تصویر کشی کی تھی، وہ آج بھی کسی نہ کسی صورت میں ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ ہندو انتہا پسندی، فرقہ واریت، سیاسی منافرت اور معاشرتی عدم مساوات جیسے مسائل گورا کے موضوعات آج کے عہد میں بھی ہمارے ہاں موجود ہیں۔
بنگالی ناول ”گورا (شمع الفت)“ کا یہ اردو ترجمہ نہ صرف ایک ادبی اور فکری اثاثہ ہے بلکہ بنگالی اور اردو ادب کے درمیان ایک مضبوط پل بھی ثابت ہو گا۔ یزدانی جالندھری اور بھاردواج کی یہ کاوش قابلِ ستائش ہے اور اس کی نئی اشاعت یقیناً اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کے لیے ایک خوش آئند پیشکش ہے۔ تاہم اس کتاب کے فہرست کی کمی ایک تحقیقی کمزوری سمجھی جا سکتی ہے، جسے آئندہ ایڈیشنز میں شامل کیا جانا چاہیے۔
یہ ترجمہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ زبانیں بدلنے سے کہانی کی روح تبدیل نہیں ہوتی بلکہ نئے قارئین کے لیے مزید معانی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
اس قدر عمدہ اور تخلیقی ترجمہ کرنے پر میں مترجمین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
- ریکوڈک کو ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کرنے کی ہدایت - 22/06/2025
- بھارت کی آبی دہشت گردی: دریائے چناب کا پانی روکنے کی کوشش - 09/05/2025
- پنجاب میں شادی میں نوٹ پھینکنے پر پابندی - 19/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).