کیا ہم نئی سوچ کو اپنانے کے لیے تیار ہیں؟
پاکستان کو اپنی تاریخ کے بد ترین معاشی بحران پر قابو پانے کا امتحان درپیش ہے۔ معاشی تنزلی کے رکنے پر بحالی کا مرحلہ آئے گا جس کے بعد ترقی کی شرح میں اضافے کی کوئی امید پیدا ہو گی۔ ان مشکل حالات میں دہشت گرد حملوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً دو گنا زیادہ کا خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ ملک بالخصوص، پچھلے چھیالیس سالوں سے جن حالات سے گزر رہا ہے موجودہ معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی اس کا اذیت ناک منطقی نتیجہ ہے۔
ہمارا خطہ طویل عرصے تک دنیا کی دو عظیم طاقتوں کے درمیان شدید سیاسی، نظریاتی، فوجی محاذ آرائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آماجگاہ رہ چکا ہے۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث اس خطے میں خاص اہمیت رکھتا ہے لہٰذا اس کے پاس ان عظیم طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی میں ملوث ہونے یا الگ رہنے کا انتخاب موجود تھا۔ تاہم، ہماری حکومتوں نے خطے میں سوویت اثر و رسوخ کو روکنے میں ہمیشہ امریکا کی زیر قیادت مغربی بلاک کا ساتھ دیا۔ امریکا نے مالی اور فوجی سرپرستی کے عوض حکومتوں سے جب اور جو بھی خدمات مانگیں وہ پر جوش انداز میں اسے فراہم کر دی گئیں۔
سوویت یونین نے افغانستان میں دسمبر 1979 میں فوجی مداخلت کی۔ اس وقت جنرل ضیا الحق منتخب وزیر اعظم کا عدالتی قتل کروا نے کے بعد ملک میں سیاہ و سفید کے مالک بن چکے تھے۔ جمی کارٹر امریکا کے صدر تھے۔ انہوں نے 400 ملین ڈالر کے عوض جنرل ضیا سے سوویت مخالف جنگ میں امریکا کی مدد کرنے کو کہا۔ اس پیش کش کو انہوں نے دانستاً مونگ پھلی کا دانہ قرار دیا کیونکہ جمی کارٹر کا تعلق امریکا کی ریاست جارجیا سے تھا جو مونگ پھلی کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ اس کے جواب میں جمی کارٹر نے ’کرائے‘ کی رقم بڑھا کر 4.5 ارب ڈالر کر دی جسے ’مرد مومن مرد حق‘ نے قبول کر لیا اور پاکستان، فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر افغان جنگ کا ایندھن بننے لگا۔
امریکا نے سوویت یونین کے خلاف مسلح مزاحمت کو مذہبی رنگ دیا اور اسے اللہ کو نہ ماننے والوں کے خلاف مقدس جنگ سے تعبیر کیا۔ سوویت قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کہلائے۔ ان مجاہدین نے جدید ترین امریکی اسلحے، سعودی سرمائے، سی آئی اے کی منصوبہ بندی، رہنمائی اور تربیت سے سوویت قبضے اور ترکئی حکومت کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی۔ یہ جنگ تقریباً دس سال جاری رہی۔ اس دوران افغانستان میں کئی سوویت نواز حکومتیں بر سر اقتدار رہیں۔ افغان مجاہدین نے جب اپریل 1992 میں کابل پر قبضہ کیا تو اس وقت ملک میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت تھی۔ مجاہدین نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنا کر سرعام پھانسی پر لٹکا دیا۔ اس جنگ میں دس لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے، دونوں جانب سے ہلاک اور زخمی فوجیوں کی تعداد بھی ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ افغانستان کی 11 فیصد آبادی بے گھر ہوئی، 63 لاکھ افغان شہریوں نے پاکستان اور ایران میں پناہ لی۔ اس وقت ان کو خوش آمدید کہا گیا لیکن اب یہ دونوں ملک انہیں بے دخل کرنے کے درپے ہیں۔ مفادات کی بے رحم جنگوں میں عوام کے ساتھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
سوویت یونین معاشی سست روی کا شکار تھا۔ اس میں دس سال سے زیادہ جنگ کی بھاری مالی قیمت برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی۔ اسے بالآخر پسپائی اختیار کرنی پڑی اور وہ افغانستان سے نکل گیا۔ اس موقع پر جو لوگ مجاہدین کی کامیابی کو الحاد کے خلاف اسلامی مجاہدین کی شان دار فتح کہہ کر جشن منا رہے تھے انہیں علم نہیں تھا کہ وہ دن دور نہیں جب یہ جشن ان کے لیے ماتم کا سبب بن جائے گا۔ اس جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے سے صرف جنرل ضیا الحق کے اقتدار کہ دوام ملا۔ پاکستان اور اس کے عوام کو منشیات، کلاشنکوف کلچر، مذہبی و فرقہ ورانہ انتہا پسندی، انسانی اور جمہوری حقوق کی پامالی کے سوا کچھ نہ ملا۔
سوویت انخلا کے بعد 1992 میں افغان مجاہدین کے اتحاد نے اپنی حکومت قائم کر لی لیکن بہت جلد ان کے درمیان کابل پر قبضے کی لڑائی شروع ہو گئی۔ ایک خوں ریز خانہ جنگی کے بعد اس اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا۔ طالبان کے نام سے ابھرنے والا ایک نیا شدت پسند عسکری گروہ افغانستان پر مسلط ہو گیا۔ یہ طالبان نے پاکستانی مدرسوں سے تعلیم حاصل کی تھی لہٰذا افغانستان میں ”تزویراتی گہرائی“ کے لیے ان کے کردار بہت اہم تصور کیا گیا۔
طالبان نے اقتدار میں آتے ہی افغانستان کو دہشت گرد تنظیموں کا مرکز بنا دیا۔ القاعدہ کی جانب سے نیو یارک کے ٹوین ٹاورز پر 9 / 11 کے ہولناک دہشت گرد حملے نے پوری دنیا کا سیاسی منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ امریکا قہر بن کر طالبان حکومت پر ٹوٹ پڑا۔ ماضی کے برعکس اس بار امریکا نے اسے مذہبی دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا جس میں وہ دہشت گرد تنظیمیں بھی نشانے پر تھیں جو ماضی میں سوویت مخالف جنگوں اور تحریکوں میں اس کی ہم نوا تھیں۔ پاکستان پر اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکم رانی تھی جو ایک منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی خدمات درکار تھیں۔
اس بار شیروانی اور شلوار کی بجائے سوٹ پہنے اور گود میں خوبصورت کتے اٹھائے ایک آمر اس سامنے موجود تھا۔ موصوف نے ایک ٹیلی فون کال پر کوئی لمحہ ضائع کیے بنا نان نیٹو اتحادی بن کر پاکستان کو دوسری افغان جنگ میں ملوث کر دیا اور امریکی توقعات سے کہیں بڑھ کر اس کا ساتھ دیا۔ نیٹو اتحاد کی فوجوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ملا عمر کی حکومت نیست و نابود کر دی۔ القاعدہ کا امیر اسامہ بن لادن امریکا سے بچنے کے لیے پاکستان میں روپوش ہو گیا۔ امریکا نے طالبان سے اقتدار چھین کر حامد کرزئی اور شمالی اتحاد کے سپرد کیا۔ اس نے تیرہ سال تک کرزئی حکومت کو طالبان کی مزاحمت سے بچائے کے لیے اپنی بھرپور فوجی طاقت فراہم کی۔ اس بار بھی امریکا کی نیابتی جنگ لڑنے کا فائدہ ملک کی بجائے جنرل مشرف کو ملا جو نو سال جاہ و جلال سے حکمران رہے۔ وہ دہشت گردی کو افغانستان سے پاکستان کے اندر لے آئے جس کے باعث ستر ہزار شہری اور فوجی جاں بحق ہوئے۔ ان کے دور میں نواب اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا جس کا آسیب آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ملک پر منڈلاتا نظر آتا ہے۔
اسامہ بن لادن کی ڈرامائی ہلاکت اور امریکا دشمن دہشت گرد تنظیموں کی طاقت کے خاتمے کے بعد ، اس خطے میں امریکا کے سیاسی اور فوجی مقاصد پورے ہو گئے۔ مزید براں، دباوٴ کا شکار امریکی معیشت کے لیے دو افغان جنگوں اور کرزئی حکومت کی فوجی اور مالی مدد کا بوجھ برداشت کرنا ناممکن ہو چکا تھا۔ لہٰذا امریکا نے قطر میں طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ ایک معاہدہ طے پانے کے بعد وہ انتہائی عجلت اور نیم بد حواسی کے عالم میں دس ارب ڈالر کا جدید ترین اسلحہ اور فوجی ساز و سامان چھوڑ کر افغانستان سے نکل گیا۔
امریکی انخلا کے بعد بائیڈن حکومت نے افغانستان کی جانب پلٹ کر نہیں دیکھا۔ امریکی فوج سے تعاون اور اسے مختلف خدمات فراہم کرنے والے افغانوں کی بہت بڑی تعداد کی زندگیاں افغانستان میں محفوظ نہیں تھیں۔ امریکا نے انہیں اپنے ملک کی امیگریشن دینے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ بھی بائیڈن حکومت نے وفا نہیں کیا۔ صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد اب ان لوگوں کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔ صدر ٹرمپ افغانستان سے بالکل لا تعلق ہیں۔ انہوں نے افغانستان سے دس ارب ڈالر کے امریکی اسلحہ کی واپسی کا مطالبہ ضرور کیا ہے لیکن اس بیان کو سابقہ امریکی انتظامیہ کے خلاف ایک سیاسی بیان تصور کرنا چاہیے۔ اسلحے کی اتنی بڑی مقدار کی فضائی واپسی پر غیر معمولی اخراجات ہوں گے جس سے فائدے کی بجائے نقصان ہو گا۔ سب جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔
پاکستان اس وقت سخت مشکل میں ہے۔ افغانستان اب دنیا کے لیے اہم نہیں رہا۔ عالمی تنہائی سے دوچار طالبان حکومت پاکستان سے محاذ آرائی پیدا کر کے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنا چاہتی ہے تا کہ دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی جا سکے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو اس زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، ہمارے خطے سے امریکا کی اچانک لا تعلقی نے طاقت کے توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ مختلف متشدد گروہ اور طاقتیں اس خلا کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یہ ایک پیچیدہ اور صبر آزما صورت حال ہے جس پر قابو پانے کے لیے سرد جنگ کی ازکار رفتہ سوچ ترک کرنی ہو گی۔ آئین کی مکمل بالادستی، وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا پائیدار تسلسل، قانون کی بلا تفریق حکمرانی، معاشی ترقی کے لیے جرات مندانہ اصلاحات، وسائل اور مواقعوں کی منصفانہ تقسیم، سیاسی ترجیحات اور تنازعات سے آزاد علاقائی اور بین الاقوامی تجارت جیسے اصولوں پر عمل سے ہی سنگین تر ہوتے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہمیں خود سے ایک سوال کرنا چاہیے ؛ کیا ہم اس نئی سوچ کو اپنانے کے لیے ہم تیار ہیں؟
اس سوال کا جواب ہمارے مستقبل کے منظر نامے کی صورت گری کرے گا۔
- صدر ٹرمپ کا سوال؛ جواب کسی کے پاس نہیں - 13/04/2025
- ایک بار یہ نسخہ آزما کے دیکھ لیں - 06/04/2025
- عوام ناخواندہ ہو سکتے ہیں جاہل نہیں - 30/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).