صحافت کے عطائی


صحافت مکمل طور پر ایک پیشہ ورانہ علم و تربیت کا عمل ہے۔ اس عمل کے لیے باقاعدہ طور پر جامعات اور کلیات اپنے یہاں ڈگری، ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ پیش کرتے ہیں اور پیشہ ورانہ مہارت کے حصول کے بعد اسناد عطا کرتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے قانون کی ڈگری ہے مطلب وکالت کی سند۔ شعبہ طب میں مختلف امور سر انجام دینے کے سرٹیفیکیٹ اور اسناد موجود ہیں۔ مزید اس میں تخصیصی علوم اور مہارتوں کے لیے ڈگریاں اور کورس موجود ہیں۔ سوشیالوجسٹ مطلب عمرانیات کے طلباء کو سماجی طبیب کہا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشرے میں موجود بیماریوں کا علاج اور معاشرے کی صحت کو برقرار رکھنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بالکل عمرانی علوم کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے اس میں مختلف تخصیصی پروگرام موجود ہیں۔ مزید ان سپیشلائزڈ برانچز کی آگے اور شاخیں ہیں۔

اب صحافت عمرانی علوم کی ایک برانچ ہے اور مزید اس میں تخصیصی پروگرام اور ڈگریاں موجود ہیں۔ جیسے ترقیاتی صحافت جسے ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے تحت پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے اور علیحدہ سے بھی اسے سٹڈی کیا جاتا ہے۔ مطلب سماجی رویوں سماجی ترقی کے مختلف پروگرامز کو تشکیل دینا ان کے لیے ابلاغی حکمتِ عملی بنانا وغیرہ اس کورس میں شامل ہے۔ اس مضمون کی تعلیم و تربیت جس قدر آج ہے پہلے نہ تھی جیسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے متعلق لوگوں کو آگاہ کرنا۔ اس بارے ابلاغی منصوبہ بندی کرنا۔ لوگوں کو اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے متعلق تیار کرنا۔ ان تبدیلیوں کے محرکات اور ان کی کھوج کرنا اور رپوٹ کرنا، اس کے سائنسی اور غیر سائنسی محرکات کو اجاگر کرنا۔ چھپے محرکات کو فیچر کرنا، ڈاکومنٹ کرنا، سر وے رپوٹ، نیوز رپوٹ بنانا اور شائع کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ بتائیں کہ اسے کون کرے گا؟ اور یہ کون لوگ کر رہے ہیں؟

اس میں ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ ڈیٹا کی نیچر نوعیت کے مطابق یہ فیصلہ کرنا کہ اسے خبر کرنا ہے کہ نہیں۔ اس مواد کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا کہ اسے کس فارمیٹ میں پیش کیا جائے تاکہ اس کی اثر پذیری بھی قائم رہے اور سماجی انتشار، کسی کی دل آزاری، کسی قسم کی اخلاق باختگی اور ملکی و قومی ساخت کے مجروح ہونے کا اندیشہ تو نہیں۔ اس صورتحال کو جانچ کر اس کا جائزہ لے کر کہ کون سا فارمیٹ موزوں رہے گا پھر اس کے مطابق ڈیٹا شائع کرنا یہ ایک سائنس ہے ایک نظام ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ مکمل طور پر زبان دانی پر کمانڈ ہونا بھی ضروری ہے کون سا لفظ کہاں پر استعمال میں لانا ہے اور اس کا اثر کیا ہو گا۔ فقرے کی ساخت اور بُنت کیا ہوگی۔ یہ زبان کی سائنس لہجوں تک پہنچاتی۔ کس فار میٹ میں کون سے الفاظ کیا اصطلاحات اور فقرے کی ساخت اور خدو خال استعمال ہوں گے؟ یہ ساری باتیں یہ سارا علم اور تربیت کہاں سے آئے گی ظاہر ہے کہ ابلاغیات کے علمی حصول سے۔

پچھلی تحریر کے مطابق وہاں بھی یہ سب ندارد ہے۔ مگر ادارے تو موجود ہیں وہاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ وہاں ایک نظام تو موجود ہے۔ کسی خبری مواد کو فیچر کے فارمیٹ میں لانا ایک مشکل ترین عمل ہے اسے وجہ سے شاید اب فیچر رائٹر ناپید ہو گئے ہیں اب صحافت میں فیچر کرنے والے افراد کا بحران ہے فیچر کے نام سے مواد دکھائی ضرور دیتا ہے مگر وہ اپنی نوعیت اور ساخت میں فیچر ہوتے نہیں ہیں۔ فیچر کا ایک بہت بڑا نام ریاض بٹالوی ان کے بعد کوئی ایسا نام سننے میں نہیں آیا۔ اب تو خیر فیچر فلم بھی مفقود ہو کر رہ گئی ہے فیچر فلم کے نام پر ڈرامہ نما کوئی چیز پیش ہو رہی ہے خیر اس موضوع کو کسی اور تحریر کی زینت بنائیں گے اور اس پر تفصیلی لکھیں گے۔

خود فیصلہ کیجئے ہمارے یہاں صحافت کا کیا حال ہے اور کیوں ہے اگر ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی۔ اپنے ارد گرد صحافت کرنے والے افراد سے پوچھیں کہ آپ نے صحافت پڑھی ہے؟ آپ نے باقاعدہ اس کی تعلیم حاصل کی ہے؟ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ اس بیمار معاشرے کہ ڈاکٹر کتنے پڑھے لکھے ہیں۔ ان کے پاس کون سے شعبہ کی ڈگری موجود ہے؟ اور وہ کر کیا رہے ہیں؟

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

چونکہ یہ ایک پروفیشنل ڈگری ہے اس کے لیے بھی ایک کونسل ہونی چاہیے۔ جو صحافی کی اسناد کو پرکھے اور اسے پریکٹس کے لیے سرٹیفیکیٹ جاری کرے۔ جیسے طب کی کونسل ہے۔ جیسے انجینئرنگ کی کونسل ہے۔ اور پریس کلب کی ممبر شپ بھی اسی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ کم از کم پانچ سال کے تجربہ کے بعد پریس کلب کا ممبر بننے کی شرط ہونی چاہیے۔ ان معاملات کو پی ایف یو جے جیسی تنظیم بڑے موثر انداز سے دیکھ سکتی تھی۔ مگر وہ آمروں کی بھینٹ چڑھ گئی اور اس کا ستیا ناس ہو گیا۔ اس طرح کے سارے امور اسی نے ہی تشکیل دینا تھے۔ جیسے صحافتی اخلاقیات کو مرتب کرنا اپنے لیے قوانین تشکیل دینا۔ صحافی برادری کے تحفظ اور فلاح کے منصوبے تیار کرنا۔ جب صحافت غیر صحافیوں کے ہاتھ میں تھی تو کیا ہو سکتا تھا اور کیا ہونا تھا۔ اور اب جو صحافت کے نام پر معاشرے میں تعفن پھیل چکا ہے جس کا جو جی چاہتا ہے شروع کر دیتا ہے۔

اینکرازم صحافت بن چکی ہے۔ ایک بہت بڑا المیہ جس طرف حکومت کی توجہ نہیں وہ یہ کہ غیرملکی خصوصی طور پر انڈین نیوز چینل پر ان کے ٹاک شو میں شرکت کرنے والے کون لوگ ہیں؟ وہ کس قانون اور کس کی اجازت سے وہاں موقف لے کر حاضر ہوتے ہیں؟ اور پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں؟ میں نے آج تک کوئی سینئر صحافی نہیں دیکھا اور معروف نام وہاں کوئی بھی نہیں ہوتا۔ اور پھر یہ کون لوگ ہیں؟ نا ان کی تیاری ہوتی ہے اور نہ ہی تاریخ کا علم۔ اور وہاں صرف بے معنی غل غپاڑہ کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ ان کے پینلسٹ خوب درگت بناتے ہیں۔ کم از کم سیفما ہی اس معاملے کو زیر غور لائے۔ سیفما ہی کے پلیٹ فارم سے غیرملکی خصوصاً خطے کے ممالک کے درمیان ہونے والے صحافیانہ بحث مباحثے میں شرکت کے لیے صحافی کو نمائندگی کی اجازت ہونی چاہیے۔ اور سیفما اس نمائندگی اور اس کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس سے بھی کہیں بہتر ہے کہ یہ کام آئی ایس پی آر اپنے ذمہ لے یا پھر یہ کام وزارت خارجہ کے توسط سے سرانجام پائے۔

عام طور پر ایک جملہ بار بار سن سنے میں آتا ہے وہ یہ کہ جناب کتابی صحافت اور عملی صحافت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پروفیشن میں کتابی صحافت نہیں چلتی۔ فیلڈ میں کام کرنا بہت مختلف ہے۔ ان جملوں کے خالق اور اس نفسیات کے حامل افراد کا تعلق بھی عمومی طور پر غیر صحافی طبقہ سے ہوتا ہے جو صحافت جیسے اہم شعبہ میں گھس بیٹھیے ہیں۔ یہ لوگ نئے آنے والے افراد کو بھی کرپٹ کر دیتے ہیں۔ صحافت کی بقا صحافتی تعلیم اور خود احتسابی میں ہی مضمر ہے۔ صحافی اور صحافت کی عزت و آبرو احترام اور وقار گھس بیٹھیوں اور صحافت کے نا خواندہ افراد سے چھٹکارے اور نجات سے ہی ممکن ہے۔ اور یہ کہ ”خود کماؤ ہمیں بھی کما کے دو“ والے سیٹھ اور صحافت کو رد کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments