بھگت سنگھ زندہ ہے
یہ واقعہ ہے 23 مارچ 1931 ء کا کہ جب لاہور کے سینٹرل جیل میں چار بجے دن سے کچھ کھلبلی سی مچی ہوئی تھی۔ وارڈن نے قیدیوں کو اپنی اپنی کوٹھریوں میں جانے کا حکم صادر کر دیا تھا۔ جیل کا نائی، برکت، قیدیوں کے سامنے سے چہ مگوئیوں کے انداز میں اطلاع دیتا ہوا گزرا کہ آج رات بھگت سنگھ، سکھ دیو گرو اور جگدیش کو پھانسی ملنے والی ہے۔ قیدیوں کے لیے یہ فیصلہ غیر متوقع تھا۔ کیونکہ پروگرام کے مطابق پھانسی کا وقت تو 24 مارچ کی صبح چھ بجے طے تھا۔ لیکن بھگت سنگھ اور اسے ساتھیوں کی مقبولیت سے ہراساں انگریز سرکار نے پھانسی کو گیارہ گھنٹے قبل دینے کا فیصلہ کیا۔ جیل کے قیدیوں نے برکت سے درخواست کی کہ پھانسی کے بعد جو چیز بھی بھگت سنگھ کی کوٹھری سے ملے، لے آئیں تاکہ وہ اپنے پوتے اور پوتیوں کو بتا سکیں کہ وہ بھی کبھی بھگت سنگھ کے ساتھ جیل میں تھے۔ قیدیوں کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ سے کوٹھری سے ملنے والے قلم اور کنگھا کے لیے قرعہ اندازی ہوئی۔
اس دن صبح دس بجے جب بھگت سنگھ کے وکیل مسٹر مہتا نے بھگت سے ملاقات میں کہا کہ وہ سرکار سے معافی مانگ لیں یا معافی کی درخواست جمع کرا دیں تو انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ انہیں برطانوی سامراج سے جان بچانے کے لیے رحم نہیں وطن کی آزادی درکار تھی۔ جس کے لیے وہ بخوشی جان دینے کے لیے تیار تھے۔
جب بھگت سنگھ سے آخری خواہش کا پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ لینن کی زندگی پہ لکھی کتاب Reminiscences of Lenin کو اپنی موت سے پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کتابوں کے متوالے تیئیس سالہ نوجوان بھگت سنگھ نے محض اپنی قید کے ایک سال دس ماہ کے عرصے کے دوران تین سو کے قریب کتابیں پڑھ لیں تھیں۔
جب ان کے وکیل نے ان سے پوچھا تھا کہ کوئی پیغام ہے تو انہوں نے کہا
سامراج مردہ باد
انقلاب زندہ باد
پھر وہ وقت بھی آ گیا کہ جب بھگت سنگھ اپنے ساتھیوں کے جلو اور سپرٹینڈنٹ جیل بی ٹی چوپڑا کی سنگت میں پھانسی گھاٹ کی جانب چلے۔ ان نوجوانوں کو اس شان اور تمکنت سے پھانسی کے پھندے کی جانب جاتے دیکھ کر ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جیل محمد اکبر خان اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تینوں حریت پسندوں اپنے ہاتھ آپس میں جوڑے، سرشاری کے عالم میں گیت گا رہے تھے۔
کبھی وہ دن بھی آئے گا کہ جب آزاد ہم ہوں گے
یہ اپنی زمیں ہوگی یہ اپنا آسماں ہو گا
بھگت سنگھ نے پھانسی سے قبل اپنے چہرے پہ نقاب پہنے سے انکار کیا۔ اور ماسک واپس کر دیا۔ آخری گھڑیوں میں تینوں نے مل کر کہا
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ انقلاب زندہ آباد
پھانسی کے قریب پہنچ کر بھگت سنگھ نے پہلے پھانسی کے پھندے کو مسکراتے ہوئے ایسے چوما جیسے وہ ان کی محبوبہ ہو جس سے ملاپ کے وہ منتظر تھے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے اس پھندے کو اپنے گلے میں ڈالا۔ ان کے ہاتھ پیر کو باندھ دیے گئے۔ پھر جلاد مسیح نے ان تین جانثاران وطن کو پھانسی دے دی۔
کسے معلوم تھا کہ لاہور سینٹرل جیل میں ان قیدیوں کی برطانوی سامراجیت کے خلاف جانیں وارنے کے محض سولہ برس بعد 1947 ء میں برطانوی راج کا سورج غروب اور آزاد ہندوستان کا سورج طلوع ہو گا۔
آخر بھگت سنگھ کون ہے کہ جس نے محض تیئیس سال کی عمر میں موت کو زندگی سے زیادہ شیریں پایا۔
بھگت سنگھ ایک جرات مند انقلابی تھے کہ جن کی پیدائش لائل پور (فیصل آباد) ، پاکستان، کے گاؤں، بنگہ میں 28 ستمبر 1907 ء کو کشن سنگھ اور ودیاوتی کے گھر ہوئی۔ نو بہن بھائیوں میں بھگت سنگھ کا نمبر دوسرا تھا۔ ان کے والد کشن سنگھ، چچا اجیت سنگھ، کرشن سنگھ اور سورنگ سنگھ غدر پارٹی کے کارکن اور برطانوی سامراجیت کے خلاف عملی طور پہ متحرک تھے۔ اس طرح گویا سامراجیت کے خلاف بغاوت کا بیج ان کے گھر آنگن میں پروان چڑھا۔ جس دن بھگت سنگھ پیدا ہوئے۔ اس دن ان کے والد اور چچا کو قید سے رہا کیا گیا۔ اس نسبت سے دادی نے ان کا نام بھاگا بابا رکھا جو بعد میں بھگت سنگھ ہو گیا۔
بچپن کا ایک واقعہ بھگت سنگھ سے منسوب ہے کہ ایک دن انہوں نے اپنے والد کو اناج بوتے دیکھا۔ ننھے بھگت سنگھ نے پوچھا ”آپ کیا کر رہے ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا ”اناج بو رہے ہیں۔ اس سے اور اناج اگے گا۔“ بھگت سنگھ سوال کرتے ہیں کہ ”اناج کی جگہ بندوق کیوں نہیں بوتے؟ وہ بوئیں گے تو ہم ان بندوقوں سے انگریزوں کو ماریں گے۔“ تو یہ تھے ان کی کچی عمر کے پکے عزائم کہ وہ کس طرح انگریزوں کو مار بھگا کے ہندوستان کو آزاد کریں گے۔
بھگت سنگھ کی مختصر سی زندگی میں پیش آنے والے جن واقعات نے ان کو متحرک اور عملی انقلابی بنایا ان میں سب سے اہم واقعہ جلیانوالہ باغ میں قتل عام کا تھا۔
جلیانوالہ باغ میں قتل عام:
برطانوی راج کے خلاف بھگت سنگھ کی جدوجہد کا آغاز محض بارہ سال کی عمر میں 13 اپریل 1919 ء کی دو پہر کو ہوا۔ اس دن پورے ہندوستان میں بیساکھی کا جشن منایا جا رہا تھا۔ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں بھی دس، پندرہ ہزار سے زیادہ مردوں، عورتوں اور بچوں کا اجتماع تھا۔ یہ باغ ماسوا ایک راستے کے ہر جانب سے دیواروں سے گھرا ہوا تھا۔ اس دن مہاتما گاندھی کی جانب سے رولیٹ ایکٹ کے خلاف لڑنے والے سیف الدین کچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری کے ردعمل میں پرامن تحریک میں شرکت کے لیے بھی لوگ جمع تھے۔ رولیٹ ایکٹ کے تحت سیاسی سرگرمیاں، غیر قانونی اور بغاوت کے مترادف قرار پائی تھیں۔ اس کے خلاف اسمبلی سے محمد علی جناح، مظہر الحق اور مدن موہن ملاویا نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ گاندھی کی سول فرمانی کی تحریک نے برطانوی سامراجیت اور اپنی ہی ملک میں غلامی کے خلاف بغاوت کی آگ سی بھڑکا دی تھی۔ یہ بات واضح نہیں کہ اس دن کتنے لوگ سیاسی عوامی اجتماع کی خلاف ورزی اور رولیٹ ایکٹ کے خلاف تھے اور کتنے بیساکھی منانے آئے تھے۔ لیکن جنرل ڈائر کے حکم پہ ان نہتے پرامن عوام پہ فوجیوں نے نہ صرف کھلے راستے کی ناکہ بندی کی بلکہ بغیر کسی وارننگ کے دیوانہ وار فائرنگ شروع کردی۔ کہا جاتا ہے 1650 کے قریب گولیاں اسلحہ کے خاتمے تک ماری گئیں۔ سائیکلو پیڈیا برٹینکا کے مطابق سرکاری اندازہ میں کم ازکم 379 اور بارہ سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ (گو مرنے اور زخمی ہونے والوں کی حتمی تعداد معلوم نہیں لیکن بہت سے تحقیق دانوں کے مطابق اموات ہزار سے تجاوز کر چکی تھیں۔ )
مشین گنوں سے خونریزی کے بعد فوجی لاشوں اور زخمیوں کو چھوڑ کے چلے گئے۔ زخمیوں کو طبی امداد نہیں دی گئی۔ کھلے آسمان تلے، گرمی کے سبب سڑتی لاشوں پہ چیلیں منڈلا رہی تھیں۔ جنرل ڈائر نے شہر کی بجلی اور پانی بند کرنے کا حکم دے دیا تھا اور شہر میں مارشل نافذ ہوا کر دیا گیا۔ دوسرے دن اس بہیمانہ واقعہ کا سنکر بھگت سنگھ اپنے اسکول جانے کے بجائے گھر سے اکیلے جلیانوالہ باغ چل پڑے جہاں سے اس واقعہ کی یادگار کے طور پہ وہ اپنے ساتھ ایک شیشی میں قتل گاہ کی خون سے نم مٹی لائے۔
وہاں پہ ہونے والے کشت و خون کے بازار نے انگریز سامراجیت کے خلاف ان کے معصوم ذہن پہ بہت گہرا اثر چھوڑا۔ ان کے وجود میں ہندوستان میں سامراجیت کے خلاف نفرت کا بچپن سے اگا پودا، تناور درخت بنتا چلا گیا۔ اپنی آخری سانسوں تک ان کی جدوجہد بلا مذہبی تخصیص، ہندوستانی عوام کے حقوق اور برطانوی تسلط کے خلاف، دھرتی کی آزادی اور مظلوم عوام کی بہتری کے لیے تھی۔
ابتداً وہ گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک سے وابستہ ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب عوام میں سامراجیت کے خلاف بغاوت اور انقلاب کی آگ لگی ہوئی تھی۔ لیکن پھر گاندھی کی خود اپنی ہی حکمت عملی سے انحراف سے اختلاف کے بعد وہ دائیں بازو کی جماعت ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہو گئے۔ (بعد میں بھگت سنگھ کے مشورے پہ اس جماعت کا نام بدل کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلیکن ایسوسی ایشن رکھ دیا گیا۔ ) اس وقت وہ لاہور میں لالہ لاجپت رائے کے قائم کردہ نیشنل کالج کے طالب علم تھے جہاں انہوں نے 1923 ء میں داخلہ لیا تھا۔
1924 ء میں جب ان پر خاندان کی جانب سے شادی کے اصرار نے زور پکڑا تو بھگت سنگھ خاموشی سے گھر چھوڑ کے دلی چلے گئے۔ بقول بھگت سنگھ کہ غلام ہندوستان میں ان کی ”ان کی دلہن صرف موت تھی“ ۔ دلی میں کچھ عرصے بلا معاوضہ ”ارجن“ اخبار کے لیے کام کیا۔
دلی سے وہ کانپور چلے گئے۔ جہاں الہ آباد، گورکھ پور، جھانسی اور بنارس کے انقلابیوں کے بارے میں پتا کیا تاکہ ملکی سطح پہ انقلابی تحریک کو منظم کیا جا سکے۔ کانپور میں انقلابیوں کے ساتھ مل کر برطانوی سامراجیت کے خلاف کام کرتے رہے۔ اس وقت کانپور میں مولانا حسرت موہانی بھی کسان اور مزدوروں کے مشہور فعال رہنما تھے۔ حسرت موہانی نے ہی انہیں سمجھا بجھا کے واپس لاہور ان کے گھر بھیجا۔
9 اگست 1925 میں کاکوری، لکھنؤ کی قریب گاؤں میں ٹرین میں ہندوستان ری پبلک کا اپنی جماعت کی فنڈنگ کے حصول کے لیے جماعت کے ممبران نے ٹرین میں سرکاری خزانے پہ ڈاکا ڈالا تھا۔ گو اس میں بھگت سنگھ براہ راست ملوث نہ تھے لیکن اس عمل کی تائید میں ان کا مضمون فرضی نام سے شائع ہوا۔ بعد میں اس کیس کے ملزمان کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ بھگت سنگھ 1926 ء میں لاہور واپس آ گئے۔ جہاں سکھ دیو، رام کشن اور دوسرے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مارچ 1926 ء میں ”نوجوان بھارت سبھا“ کی بنیاد رکھی۔
بھگت سنگھ بہت ذہین تھے۔ وہ اردو، ہندی، سنسکرت اور گرمکھی (پنجابی) زبانوں پہ عبور رکھتے تھے۔ وہ اردو، پنجابی اور انگریزی میں تواتر سے لکھتے اور اپنے انقلابی، سخت پرولتاری، اور مارکسی سوچ کا پرچار کرتے۔ جس میں ان کتابوں اور تعلیمات کا رنگ تھا جن کا انہوں نے مرتے دم مطالعہ کیا۔ وہ ادیب اور رسائل کے مدیر بھی رہے۔ انہوں نے کام کو خفیہ رکھنے کے لیے فرضی ناموں سے بھی لکھا مثلاً بلونت کے قلمی نام سے ”پرتاب“ میں لکھتے رہے۔ ”انقلاب زندہ باد“ کے نعرے کو انہوں نے ہر خاص و عام میں مقبول بنا دیا۔ ادب سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہر قوم کو اپنی ترقی کے لیے اعلیٰ معیار کے ادب کی ضرورت ہوتی ہے۔“ شعر و شاعری میں گہری دلچسپی کے باوجود وہ اپنی عملاً انقلابی تحریک سے وابستگی کے سبب اس کے لیے وقت نہ نکال سکے۔ لیکن دوران قید، موت تک اہم مضامین، خطوط اور ڈائری لکھنے اور کتابیں پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
بھگت سنگھ کا کسی بھی مذہبی تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔ ان کا مشہور مضمون why I am an atheist ” (میں لا مذہب کیوں ہوں ) ان کی سیکولر سوچ کا عکاس ہے، جو انہوں نے اکتوبر 1930 ء میں قید کے دوران لکھا۔ وہ پوری دنیا کو ایک خاندان تصور کرتے اور بلا کسی تخصیص کے انسانوں کے درمیان ملاپ و آشتی کو ہی انسانیت کی معراج سمجھتے تھے۔
ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کے بارے میں بھگت سنگھ کا کہنا تھا، ”ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں غلامی اور استحصال پہ مبنی بوسیدہ نظام قائم رہے۔ ہماری لڑائی ایسی آزادی کے لیے ہے جو اس ظالمانہ نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بدل کے رکھ دے۔“ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”انقلاب سے ہماری مراد ایک ایسے سماجی نظام کا قیام ہے جس میں پرولتاریہ کا اقتدار تسلیم ہو اور ایک عالمگیر فیڈریشن کے ذریعے نسل انسانی، سرمایہ داری، مصائب اور سامراجی جنگوں کی غلامی سے آزادی پالے۔“
خفیہ سیاسی سرگرمیوں اور انقلابی تحریری مواد کی وجہ سے ان کی زندگی پر خطر تھی۔ مثلاً ان پہ لاہور کے دسہرہ میلے میں 1926 ء میں بم دھماکے کا الزام تھا۔ وہ گرفتار ہوئے مگر والد کی جانب سے ساٹھ ہزار روپوں کی ضمانت اور اچھے رویے کے باعث پانچ ماہ میں بری کر دیے گئے۔
تاہم دو ایسے مقدمات تھے کہ جنہوں نے انہیں عدالت کے کٹہرے سے پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا۔ ان میں ایک مقدمہ سنٹرل اسمبلی بم دھماکہ کیس کا تھا جس کی سماعت 7 مئی 1929 ء کو شروع ہوئی۔
جبکہ دوسرا کیس سانڈرز کا قتل (لاہور سازش کیس) : اس مقدمہ کی سماعت 10 جولائی 1929 ء کو شروع ہوئی۔ اس واقعہ میں بھگت سنگھ کو سکھ دیو تھاپر اور شیورام راج گرو کے ساتھ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سانڈرز کو قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ قتل 30 اکتوبر 1928 ء میں اس وقت پیش آیا جب سائمن کمیشن ہندوستان آیا۔ لاہور اسٹیشن پر اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں 64 سالہ لالہ لاجپت رائے بھی شامل تھے۔ جو لاہور میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی مانے جاتے ہیں۔ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے پہلے پرامن انداز میں اور پھر سپریٹنڈنٹ پولیس ایس۔ پی۔ اسکوٹ کے حکم پہ پولیس بشمول افسر سینڈرز کے سخت لاٹھی چارج اور ڈنڈے برسانے کی وجہ سے لالہ لاجپت زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کچھ عرصے بعد دل کے دورے سے سترہ نومبر کو انتقال کر گئے۔ ان کے آخری الفاظ تھے، ”میری موت برطانوی سامراج کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔“ اور وقت نے ثابت کیا کہ ایسا ہی ہوا۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں شیوا رام راج گرو، سکھ دیو تھاپر اور چندرا شیکھر آزاد نے لالہ جی کی موت کا بدلہ افسر اسکوٹ کے قتل کی صورت لینے کی ٹھانی۔ مگر درست شناخت نہ ہونے کے سبب، غلط فہمی میں، 17 دسمبر 1928 ء کو لاہور میں، اکیس سالہ برطانوی افسر جون سانڈرز مارا گیا۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی راج گرو نے اپنا حلیہ بدل لیا۔ 19 دسمبر کو بھگت سنگھ پگڑ بندھے لمبے بالوں کے بجائے چھوٹے بالوں کا کٹ میں، برٹش افسر کے رعونت بھرے انداز میں بولتے، سر پہ ہیٹ پہنے فرسٹ کلاس کے ڈبے میں، اپنے دوست کی بیوی درگا بھابی اور ان کے تین سالہ بچے کے ساتھ سوار ہوئے۔ درگا بھابی ان کے کامریڈ بھگوتی چرن وہرہ کی انقلابی بیوی تھیں۔ لاہور اسٹیشن پہ ان کو پکڑنے کے لیے پانچ سو پولیس کی نفری، تعینات تھی، جن کی آنکھوں میں دھول جھونک کے وہ کلکتہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے ساتھی راج گرو نے اس جوڑے کے نوکر کا روپ دھارا اور وہ تھرڈ کلاس میں سوار تھے۔
دوسرا مقدمہ سنٹرل اسمبلی بم دھماکہ کیس کا تھا۔ یہ بم دھماکہ مزدور یونین پہ پابندی لگانے سے متعلق دو بلز کے رد عمل میں کیا گیا، جو 8 اپریل 1929 ء کو دہلی کی سینٹرل لیجیسٹیٹو اسمبلی کے چیمبر میں پیش آیا۔ جس میں بھگت سنگھ اور باتوکیشور دت نے دو کم خطرناک نوعیت کے بم اوپری گیلری سے نیچے خالی بینچوں کی جانب پھینکے اور انقلاب زندہ باد کے واشگاف نعرے بلند کیے اور ساتھ ہی اس پیغام کے پمفلٹ پھینکے۔ ”بہروں کو سنانے کے لیے ایک دھماکہ ہوتا ہے۔“ درحقیقت یہ پورا منصوبہ فرانسیسی انقلابی آگسٹ ویلنٹ کے اسی طرح کے منصوبے پر بنایا گیا تھا، جس نے اس مشہور سطر کو جنم دیا۔ بم کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان کا مقصد بھی جان لینے کے بجائے احتجاجی نعرہ بلند کرنا تھا۔
اس واقعہ کے بعد بھگت سنگھ اور باتوکیشور دت نے اپنی گرفتاری پیش کردی۔ آزادی کے لیے اپنے پیغام کو اعلی سطح پہ پہنچانے کے لیے عدالت میں مقدمہ کی کھلی کارروائی سے بڑھ کر کون سا موقعہ ہو گا کہ جب ملک کے تمام اخبارات ساری کارروائیوں کو ملک کے چپے چپے تک پھیلا دیں۔ ان کا منصوبہ پروگرام کے مطابق پورا ہو رہا تھا۔ عوام کے ساتھ قوم کے لیڈران بھی ان حریت پسندوں کی آواز سن رہے تھے۔
آٹھ اپریل کے بعد بھگت سنگھ کو دو مقدمات کا سامنا تھا۔ پہلا دہلی بم کیس جس کی شروعات 7 مئی 1929 ء سے ہوئی۔ ان پہ دفعہ 307 اور دھماکہ خیز مواد ایکٹ کے تحت مقدمہ کی کارروائی دہلی میں جون سے شروع ہوئی
بھگت سنگھ نے اپنے مقدمے کے لیے کسی وکیل کی نمائندگی کے بجائے وکیلوں سے قانونی مشاورت کی خواہش ظاہر کی۔ جبکہ بی کے دت کی نمائندگی وکیل آصف علی نے کی۔
12 جون کو، ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں، دونوں ملزمان کو مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ 14 جون کو سزا کے بعد 15 جون کو بھگت سنگھ کو میانوالی اور دت کو لاہور جیل منتقل کر دیا گیا۔ تاہم کچھ عرصے بعد بھگت کو بھی لاہور بھیج دیا گیا۔
قید میں بھی ان کی جدوجہد کا سلسلہ جاری رہا جب انہوں نے جیل میں برطانوی سامراج کے ہاتھوں ہندوستانی کی غلامی کا مظاہرہ دیکھا جہاں سیاسی قیدیوں کو نہانے، دھونے، پڑھنے لکھنے کی سہولت کے بجائے ان کے ساتھ جبری مشقت اور ہتک آمیز رویہ روا رکھا جا رہا تھا۔ بھگت سنگھ اور دت دونوں کی طرف سے سیاسی قیدیوں کی حیثیت کا مطالبہ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال 15 جون سے ہوئی۔
سانڈرز کیس کی کارروائی 10 جولائی 1929 ء کو شروع ہوئی۔ بھگت سنگھ کو، جو دت کے ساتھ بھوک ہڑتال پر تھے، اسٹریچر پر عدالت لایا گیا۔ کیس کے دیگر ملزمان کو اس دن اس بھوک ہڑتال کا علم ہوا اور تقریباً سبھی اس ہڑتال میں شامل ہو گئے۔ اس بھوک ہڑتال کے نتیجے میں 13 ستمبر 1929 ء کو جتیندر داس کی شہادت واقع ہوئی۔
آزادی کے ان متوالوں کی بھوک ہڑتال نے نہ صرف ہندوستانی عوام بلکہ بین الاقوامی سطح پہ بھی توجہ حاصل کی۔ نہرو بھوک ہڑتال کے دوران ان سے ملنے جیل گئے۔ اس وقت بھوک ہڑتال کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ جہاں وہ بھگت سنگھ کے علاوہ جتندر ناتھ داس سے بھی ملے۔ نہرو نے بھگت سنگھ کی ہمت کو داد دی۔ اپنے سوانح ”ٹوسرڈ فریڈم“ ( 1941 ء ) میں لکھتے ہیں۔
”بھگت سنگھ کا چہرہ پر سکون اور پرکشش چہرہ تھا۔ لگتا ہے اس میں کوئی غصہ نہیں ہے۔“
قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے اجلاس، 12 دسمبر 1929 ء میں آواز اٹھاتے ہوئے کہا
”جو شخص بھوک ہڑتال پر جاتا ہے اس کی ایک روح ہوتی ہے۔ وہ اس روح سے متاثر ہوتا ہے اور وہ اپنے مقصد کے انصاف پر یقین رکھتا ہے ؛ وہ کوئی عام مجرم نہیں ہے جو سرد خون، گھناؤنے، شریر جرم کا مرتکب ہو۔“ جناح نے واضح الفاظ میں ان کی بہادری کا اعتراف کیا۔ بھگت سنگھ اور دیگر ساتھیوں کی بھوک ہڑتال کا سلسلہ 4 اکتوبر کو ختم ہو گیا، حالانکہ ”سیاسی قیدی“ کا درجہ ابھی تک نہیں دیا گیا تھا۔ تاہم کچھ اور مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔
بہت جلد ہی برطانوی سامراج کو اندازہ ہو گیا کہ ان کا مقابلہ کسی کمزور انسان نہیں بلکہ طاقتور شیر سے ہے۔ ملک کے چپے چپے میں بھگت سنگھ کی مقبولیت ایک ہیرو کی طرح تھی۔ لہٰذا ان شیروں سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کے لیے 7 اکتوبر 1930 ء کو بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سزا کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس مقصد کے لیے انہیں لاہور سینٹرل جیل پھانسی کے وارڈ بھیج دیا گیا۔ پھانسی کی تاریخ 24 مارچ 1931 ء کی صبح طے پائی۔ جو خود ان انقلابیوں کے لیے عین متوقع تھا۔ انہیں شادمان چوک کے مقام پہ پھانسی دی گئی۔
پھانسی کے بعد عوام کے ردعمل کے خوف سے رات کو جیل کے پیچھے کی دیواریں تڑوا کے ٹرک میں ان کی لاشوں کو ڈال کے ستلج کے کنارے بھجوایا گیا جہاں دو پجاریوں نے ان کی چتاؤں کو آگ لگائی اور صبح ہوتے ہی ان ادھ جلی لاشوں کو دریائے ستلج میں پھینک دیا گیا۔ اس جگہ کی شناخت چوکی نمبر 201 سے ہوئی۔ پولیس اور پجاریوں کے جاتے ہی گاؤں والوں نے ستلج کے پانی سے جسم کے بقیہ اعضا نکالے اور آخری رسومات ادا کیں۔
پھانسی کی سزا کے بعد ہندوستان میں احتجاج اور غم و غصے کی آگ بھڑک اٹھی۔ بغاوت کا شیر موت کے بعد بھی چنگھاڑ رہا تھا۔ لاہور میں کالے لباس پہنے پچاس ہزار افراد کا تین میل لمبا احتجاجی جلوس نکلا۔ پھانسی کے وقت مہاتما گاندھی سفر میں تھے۔ جب وہ کراچی اسٹیشن پہ اترے تو مشتعل مظاہرین نے ان کو کالا گلاب پیش کیا اور پھانسی کا ذمہ دار قرار دیا کہ انہوں نے لارڈ ارون سے ہندوستان کے مستقبل سے متعلق میٹنگ میں بھگت سنگھ کی پھانسی سے متعلق کوئی شرط نہیں رکھی۔
23 مارچ 2025 ء بھگت سنگھ کی شہادت کو چورانوے سال بیت گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لہو سے ہندوستان کی آزادی کی قیمت ادا کی۔ لیکن ان کا خواب محض برطانوی تسلط اور ان کی غلامی سے نجات نہیں تھا۔ ان کی قربانی استحصالی نظام کے خلاف تھی جو خواہ ملک کے اندر ہو یا باہر۔ اگر کسی ملک کے وسائل پہ اس کے عوام کا حق نہیں کیونکہ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا نافذ نظام ملکی دولت پہ قابض ہے تو بھگت سنگھ کی قربانی کا مقصد پورا کہاں ہوا؟
افسوس صد افسوس کے ہم آج تک اس فیصلے تک پہ متفق نہیں ہو سکے کہ شادمان چوک کا نام تبدیل کر کے شہید بھگت سنگھ چوک رکھا جائے۔ وہ نوجوان جس نے بلا کسی تفریق سکھ، ہندو، مسلمانوں کی آزادی کے لیے موت کو گلے لگایا۔ وہ جو انسانی حقوق کا علمبردار تھا۔ کیونکہ ہم تقسیم ہند سے آج تک مذہبی بنیادوں پہ مذہبی اور علاقائی تنگ نظری اور منافرت کے بیج بوتے اور فصلیں کاٹتے رہے ہیں۔
ہمارا مزدور ہمارا کسان آج بھی ملک کے استحصالی نظام کے سبب مفلسی، فاقہ مستی، منافرت اور جہالت سے دوچار ہے۔ پہلے ہمارا دشمن استحصالی برطانوی سامراج تھا مگر اب ہمیں اپنے ملک کے اندر ملکی وسائل کو خون چوستی جونکوں اور حقوق کو ڈسنے والے بہت سے زہریلے سانپوں کو مارنے کے لیے سڑکوں پہ آنا ہو گا۔ بلاشبہ زبوں حال اور تنزلی کا شکار، آج پاکستانی معاشرہ کو ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ بلند کرنے اور وطن کے لیے قربانی دینے والے ایک نہیں کئی بھگت سنگھ درکار ہیں۔
بھگت سنگھ کا خط اپنے بھائی کے نام
عزیز کلتار
آج تمھاری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بہت رنج ہوا۔ آج تمھاری بات میں بہت درد تھا۔ تمھارے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ہوتے۔ برخوردار، ہمت سے تعلیم حاصل کرتے جانا، اور صحت کا خیال رکھنا۔ حوصلہ رکھنا۔ اور کیا کہوں شعر تجھے کیا لکھوں سنو
اسے فکر ہے ہر دم نیا طرز جفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
دہر سے کیوں خفا رہیں، چرخ کا کیا گلہ کریں
ہمارا جہاں عدو سہی آؤ مقابلہ کریں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
مرے ہوا میں رہے گی خیال کی بجلی
یہ مشت خاک ہے فانی، رہے رہے، نہ رہے
اچھا رخصت
”خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں“
حوصلے سے رہنا
نمستے۔ تمھارا بھائی
بھگت سنگھ
- عورت: خوبصورتی اور غربت کا چکر - 28/04/2025
- ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا بچوں کے لیے کراچی میں ادارہ ’سائنوسا‘ کیا کر رہا ہے؟ - 25/04/2025
- بھگت سنگھ زندہ ہے - 08/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).