خواب، محبت اور زندگی 9


یہ دن جنوبی ایشیا کی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ امی نے کئی مرتبہ یہ واقعہ ہمیں کچھ اس طرح سنایا: ”میں عروسی لباس میں ملبوس سہیلیوں میں گھری بیٹھی تھی۔ گھر میں رشتہ دار اور پڑوسی جمع تھے۔ اچانک باہر شور اٹھا، ملی جلی آوازیں آنے لگیں ’انہوں نے گاندھی کو مار دیا۔ گاندھی کو گولی مار دی گئی۔ گاندھی کا قتل ہو گیا‘ یہ سنتے ہی سب لوگ باہر بھاگ گئے اور میں کمرے میں اکیلی بیٹھی رہ گئی۔ سب کے دلوں میں خوف اور دہشت کی لہر دوڑ گئی۔ ہر کوئی خوف زدہ تھا کہ اب خون ریز ہندو مسلم فسادات شروع ہو جائیں گے۔ سب لوگ اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگے اور یوں ہماری نئی زندگی کا آغاز ہوا۔“

برسوں بعد ماہنامہ افکار کے سردار جعفری نمبر کے مطالعے کے دوران مجھے پتہ چلا کہ ترقی پسند تحریک کے اس مشہور شاعر کی شادی بھی اسی روز بمبئی میں ہوئی تھی اور گاندھی کے قتل کی خبر سن کر ہنگاموں کے ڈر سے سارے مہمان اسی طرح بھاگے تھے، عصمت چغتائی اور دیگر شاعر ادیب اپنے گھروں کو نہیں پہنچ سکے تھے اور رات راستے میں پڑنے والے کسی دوست کے فلیٹ میں بسر کی تھی۔

ہم تھوڑے بڑے ہوئے تو امی ابی کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا ”ہم اپنی شادی کی سالگرہ کا دن کبھی نہیں بھول سکتے کیونکہ صبح ہوتے ہی ریڈیو پر گاندھی کی برسی کی خبر اور پروگرام نشر ہونے لگتے ہیں اور ہمیں یاد آ جاتا ہے کہ آج ہماری شادی کی سالگرہ ہے“ ۔

پاکستان میں بہت سے لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ گاندھی کو ایک انتہا پسند ہندو نے مسلمانوں سے ہمدردی کے جرم میں قتل کیا تھا۔ (ہم نے تو گاندھی کو ایک ولن بنا کے رکھا ہوا ہے ) ۔ وہ تو تقسیم کے بعد مسلمانوں کے سرپرست کا کردار ادا کر رہے تھے۔ انتہا پسند ہندوؤں کے لئے یہ بات نا قابل برداشت تھی۔ گاندھی جی ٹالسٹائی کے شاگرد تھے، انہوں نے مسلمانوں کے لئے اپنی جان دے دی مگر ہم ان پر دشنام طرازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ گاندھی ہی تھے جن کے مرن برت (تا دم مرگ بھوک ہڑتال) کے نتیجے میں نہرو اور پٹیل پاکستان کو اس کے حصے کا پیسا اور وسائل منتقل کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ جناح بھی سارے سیاسی اختلافات کے باوجود گاندھی کی عزت کرتے تھے۔ اور انہیں ایک عظیم شخصیت قرار دیتے تھے۔

جناح، گاندھی، کشمیر، امرتسر، دہلی، پشاور کا یوسف خان، قصور کی نورجہاں، دہلی کے زین العابدین قریشی، اور امرتسر کی کشمیری لڑکی دل افروز جو شادی کے بعد دل افروز قریشی کہلائی اور ان کی پہلوٹھی کی اولاد، ایک لڑکی یعنی میں مہ ناز قریشی۔ تو یوں ہوا میری دلچسپ اور ہنگامہ خیز زندگی کا آغاز۔ مگر پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ باب دوم میرے بچپن کے دن ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا جب میں اپنی بچپن کی سہیلیوں، اسکول اور کوہ نور کالونی کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے لگتا ہے میرا بچپن بے حد خوبصورت تھا لیکن میرے بیٹے رمیز کا خیال ہے کہ میں نے اپنے بچپن کو رومانوی رنگ دے رکھا ہے اور دراصل میرا بچپن بہت سخت اور تکلیف دہ تھا۔

میرے پاس میرے بچپن کی صرف خوبصورت یادیں ہیں لیکن میرے بیٹے کا کہنا ہے کہ وہ میرے بچپن کے تکلیف دہ واقعات سے آگاہ ہے (نانا سے اس کی گاڑھی چھنتی تھی، ان سے نجانے کیا کچھ سن رکھا ہے ) اور اس کی رائے میں اس کا اور اس کی بہن کا بچپن میرے بچپن سے بہتر گزرا ہے۔ اس کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں، ”کیا میں واقعی اپنے بچپن کو رومانوی بنائے بیٹھی ہوں؟ کیا میں نے اپنے گھرانے میں پیش آنے والے واقعات کی اذیت ناکی سے بچنے کے لئے اپنے ذہن میں ایک خوشگوار بچپن کا خاکہ تشکیل دے رکھا ہے۔

جوان اولاد کی باتیں سن کر مجھے احساس ہوا کہ زندگی کے ناخوشگوار یا تکلیف دہ واقعات سے نمٹنے کا ہر ایک کا اپنا دفاعی نظام ہوتا ہے اور شاید میرا دفاعی نظام یہ تھا کہ میں نے صرف خوشگوار باتوں کو یاد رکھا اور تکلیف دہ واقعات کو ذہن کے نہاں خانوں میں دفن کر دیا اور انہیں شعور کی سطح پر آنے ہی نہیں دیا۔ جیسے پروفیسر چومسکی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ’یادداشت ایک مضحکہ خیز چیز ہے‘ ۔ اب تو یہ حال ہے کہ دو منٹ پہلے کی بات بھول جاتی ہے لیکن ستر سال پہلے کے جو واقعات یاد ہیں، وہ بہت اچھی طرح یاد ہیں۔

انسان کا دماغ بھی اس کے ساتھ عجب کھیل کھیلتا ہے۔ یادوں کے سلسلے چلتے رہتے ہیں۔ بقول ساحر، ”تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں، کبھی یقیں کی صورت کبھی گماں کی طرح۔ ” میں پیدا تو کراچی میں ہوئی لیکن میری زندگی کی اولین یادیں لاہور کی ہیں جب میری عمر چار پانچ سال رہی ہوگی تو یہ ذکر ہے 1953.1954 کا۔ میری پیدائش کے فوراً َ بعد ابی کو واہ آرڈیننس فیکٹری بنانے والی ایک فرنچ فرم میں ملازمت مل گئی تھی۔ مجھ سے چھوٹا بھائی واہ میں ہی پیدا ہوا مگر پھر اس فرم کو اپنا بوریا بستر سمیٹ کے پاکستان سے جانا پڑا۔

میں اتنی چھوٹی تھی کہ واہ کی کوئی بات یاد نہیں۔ ہاں امی سے ذکر سنا، اور خاندانی البم میں تصاویر بھی دیکھیں۔ ابی کسی انگریز کی اس فیکٹری کا نقشہ چرانے کی کوشش کا ذکر بھی کرتے تھے جو انہوں نے ناکام بنا دی تھی۔ اس بارے میں ان کا ایک مضمون سالوں بعد ایک ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد امی، ابی ہم دو بچوں کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئے۔ اس لئے میری ابتدائی یادیں لاہور ہی کی ہیں۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments