کار واش اسٹیشن پر پابندی کا قانون
گزشتہ سال میرا کالم ”پانی بچاؤ! زندگی بچاؤ! ملک بچاؤ!“ شائع ہوا تو بے شمار قارئین نے نہ صرف پسند کیا بلکہ کئی ٹی وی چینلز اور مختلف فورمز پر اس کی بازگشت سنائی دی تھیں۔ اس کالم میں میری ایک اہم تجویز کار واش پر ضائع ہونے والے پانی کے بارے میں تھی جسے بہت سراہا گیا۔ آج کل جب سوشل میڈیا اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر پانی کی قلت اور چولستان کی نئی نہروں کی تعمیر کی باتیں بڑے زور شور سے ہو رہی ہیں ایسے میں حکومت پنجاب نے پانی کی قلت کے پیش نظر، پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں نئی کار واش اسٹیشنز کے قیام پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس فیصلے کا مقصد پانی کے غیر ضروری استعمال کو روکنا اور موجودہ وسائل کو محفوظ بنانا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی ای پی اے کے مطابق ایک گاڑی کی دھلائی میں چالیس لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے جو پانی کی قلت کے دوران ایک بڑا ضیاع ہے۔ اس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق گھروں میں گاڑیاں دھونے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر دس ہزار روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ کار واش اسٹیشنز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ واٹر ری سائیکلنگ سسٹم نصب کریں بصورت دیگر انہیں بھی ایک لاکھ تک کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ اقدامات پانی کے بحران سے نمٹنے اور مستقبل میں ممکنہ خشک سالی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پانی کے استعمال میں احتیاط برتیں اور حکومتی احکامات کی پابندی کریں تاکہ پانی کی قلت کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ اس سال پنجاب خصوصی جنوبی پنجاب میں بارشوں کی کمی کی باعث خشک سالی کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر ایک حقیقت پسندانہ فیصلہ ہے۔
بے شک پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ قابل تعریف ضرور ہے لیکن سوال یہ ہے کہ صرف یہ ایک اقدام پانی کے مسائل کا ممکنہ حل ہو سکتا ہے؟ اور اس قانون پر عملدرآمد کیسے اور کیونکر ممکن ہو گا؟ میرے خیال میں یہ پانی کی کمی کے اس موجودہ بحران کو حل کرنے کے لیے یہ ایک بنیادی اور چھوٹا سا قدم تو ہو سکتا ہے لیکن ابھی اس سلسلے میں ہر سطح پر بہت کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ملکی سطح کا چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے اس طرح کے فیصلے صوبائی سطح پر ہی نہیں بلکہ وفاقی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خشک سالی سے بچنے کے لیے پانی کا ایک ایک قطرہ بچانا ملک و قوم کے لیے ضروری ہو چکا ہے۔
ہمارے بہاولپور جیسے علاقوں میں جہاں دریاؤں کی بندش کی وجہ سے پینے کا پانی بڑی مشکل سے ملتا ہے بلکہ چولستان کے صحرا ”روہی“ میں تو انسان اور جانور ایک ہی جگہ یا ٹوبے سے پانی پینے پر مجبور ہیں اور بڑھتی ہوئی خشک سالی جنگلی حیات تک کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ شہروں اور قصبوں میں منرل واٹر کے نام پر بکنے والا پانی اس قدر مہنگا دستیاب ہوتا ہے کہ عام آدمی اس کے بارے میں سوچنے سے بھی قاصر ہے۔ اچھی منرل واٹر کی بوتل ڈیڑھ سو روپے تک دستیاب ہوتی ہے۔
ریلوے اسٹیشن اور موٹر وے ریسٹ ایرا میں یہی بوتل دو سو روپے تک میں ملتی ہے۔ ہمارے علاقے میں فلٹر پلانٹس پر طویل قطاریں اور چند نہر کنارے میٹھے پانی کے نلوں پر بوڑھوں، خواتین اور بچوں کا بے ہنگم رش اور گلیوں محلوں میں پانی سپلائی کرنے والی ان گنت گاڑیاں یہاں کی پیاس کی شدت کو ظاہر کر رہی ہیں۔ بارش کی کمی اور دریاؤں بندش سے زیر زمین پانی بھی لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ ہماری شہری آبادی میں تیزی سے بڑھتا ہوا اضافہ اس مسئلے کی سنگینی میں مزید اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔
پانی کو زندگی کی بقا کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ سانس لینے کے لیے اوکسیجن کے بعد زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت سب سے اہم ہوتی ہے۔ لیکن آج یہ بیش قیمت نعمت دنیا کے کئی خطوں میں نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس صورتحال کو اور بھی خطرناک بنا دیا اور خدشہ ہے کہ اگر یہی روش برقرار رہی تو آئندہ چند دہائیوں میں دنیا بھر میں ”پانی کی جنگیں“ حقیقت بن سکتی ہیں۔
ہمارا ملک پاکستان جو کبھی آبی وسائل سے مالا مال سمجھا جاتا تھا اب بتدریج پانی کی قلت کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک جانب ہمارے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ کم ہوتا جا رہا ہے اور دوسری جانب زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ آبپاشی اور گھریلو استعمال میں پانی کا ضیاع عام ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، برفانی تودوں کے پگھلنے میں بے ترتیبی اور بارشوں کے نظام میں پیدا ہونے والا بگاڑ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔
ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی باعث پوری دنیا اس بارے میں سوچنے پر مجبور ہو چکی ہے کہ پانی اور ہوا جیسی انسانی ضروریات کو کیسے پورا کیا جاسکتا ہے؟ آلودگی سے کیسے نمٹا جائے؟ کیونکہ انسانی صحت میں پانی کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات بھی لمحہ فکریہ بن چکی ہیں۔ دنیا بھر میں نئے ڈیم توانائی کے بحران کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ میٹھے پانی کی ترسیل کا فرض بھی ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت اپنے پانی کو سمندر میں ضائع ہونے سے بچاؤ کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیموں کی ازحد ضرورت ہے جہاں اضافی پانی جمع کر کے بوقت ضرورت فراہم کیا جا سکے۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مصنوعی جھیلوں کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
درحقیقت ڈیم بنانا ایک طویل اور مشکل کام ہے لیکن اس صورتحال کے فوری حل کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر فوری اقدامات کریں۔ پانی کے محفوظ استعمال کی شعوری بیداری، جدید آبپاشی نظام، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کی ٹیکنالوجی اور آبی ذخائر کی تعمیر و بحالی پر سنجیدگی سے توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔ موجودہ پانی کو محفوظ بنانے کے لیے انفرادی، اجتماعی، سماجی اور حکومتی سطح پر مختلف اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
پانی کی ری سائیکلنگ یعنی استعمال شدہ پانی کو فلٹر کر کے باغبانی یا صفائی کے لیے دوبارہ استعمال کو فروغ دیا جائے۔ صنعتی اور کار واش اسٹیشنز میں واٹر ری سائیکلنگ پلانٹس کی تنصیب کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے بھی پانی کی حفاظت ممکن ہو سکتی ہے۔ گھروں اور عمارتوں کی چھتوں پر ”رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹم لگایا جائے جس سے بارش کا پانی ضائع ہونے کی بجائے زیر زمین ذخیرہ ہو سکے یا پھر استعمال میں لایا جا سکے۔
زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتی ہے جہاں پانی کے بغیر کامیابی ممکن ہی نہیں ہوتی اس کے لیے جدید طریقہ آبپاشی استعمال کیے جائیں۔ روایتی نہری آبپاشی کی بجائے جدید طریقے اپنائے جائیں اور فصلوں کو ضرورت کے مطابق پانی دیا جائے جس کے لیے واٹر مینجمنٹ سسٹم کا استعمال کیا جائے۔ پانی کے ضیاع سے ہر ممکن اجتناب کرنے کے لیے گھروں کے نلکوں اور موٹروں کو درست حالت میں رکھا جائے تاکہ رساؤ یعنی لیکیج نہ ہونے پائے۔
برتن دھوتے وقت یا دانت برش کرتے وقت نل کا پانی بند رکھا جائے۔ گھریلو سطح پر پانی کے ضیاع پر نظر رکھی جائے اور بچوں کو پانی کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بتایا جائے۔ زیر زمیں پانی کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اور دھیان یہ بھی رہے کہ ہماری غفلت کی باعث یہ قدرت کی نعمت ضائع نہ ہو جائے۔ ضرورت سے زیادہ ٹیوب ویل یا پمپس کا استعمال نہ کریں۔ زیر زمیں پانی بڑھانے کے لیے جنگلات لگائے جائیں کیونکہ درخت بارشوں کے نظام کو بہتر بنانے اور پانی کو زمین میں جذب کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
درختوں کی کٹائی پر پابندی لگائی جائے اور سب سے بڑھ کر اس بارے میں عوامی آگاہی اور تعلیم ازحد ضروری ہے۔ عوام میں پانی کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے تعلیمی اداروں، مسجد و منبر، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور کمیونٹی پروگرامز کے ذریعے لوگوں کو پانی بچانے اور اس کی حفاظت کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ہماری این جی اوز کو ایک واک“ پانی بچاؤ! زندگی بچاؤ اور ملک بچاؤ! کا شعور اجاگر کرنے کے لیے بھی کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔ پنجاب حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ درخواست ضرور کروں گا کہ مسئلے کی سنگین نوعیت کے پیش نظر یہ قانون سخت ترین عملداری کا متقاضی ہے۔
- کار واش اسٹیشن پر پابندی کا قانون - 10/04/2025
- تیکھے اور طنزیہ رویے - 22/03/2025
- ”ا وبنٹو ا وبنٹو“ میں اس لیے ہوں کہ ہم سب ہیں! - 06/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).