سچ کی عدالت میں دانشوروں کا مقدمہ


یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں نہ صرف آئین و قانون کو روندنے کی رسم عام ہو چکی ہے بلکہ آزادیٔ اظہار، اختلافِ رائے اور سوال اٹھانے کی ہر کوشش کو غداری، فتنہ، سازش یا ایجنڈا قرار دے کر کچلا جا رہا ہے۔ یہاں سچ بولنے پر زبان کاٹ دی جاتی ہے لکھنے پر سیاہی خون سے بدل جاتی ہے اور سوچنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے دانشور، ادیب اور شاعر کہاں ہیں؟

جب لاپتہ افراد کی مائیں دہائی دیتی ہوں، جب صحافی مارے جاتے ہوں، جب اپنا حق مانگنے والے نوجوان ریاستی جبر کا شکار ہوتے ہوں، جب مزدور کا خون نچوڑا جاتا ہے، جب کسان زمین سے بے دخل ہوتا ہے، جب عورت کی آواز کو غیرت کے نام پر دفنا دیا جاتا ہے، جب ٹینکر اور ڈمپر زندہ انسانوں کو کچل رہے ہوں، جب سندھو دریا کے پانی پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہو تب ادب کیوں خاموش ہوتا ہے؟

کیا یہ وہی سرزمین نہیں جہاں فیض نے ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے“ لکھا؟
کیا یہ وہی ملک نہیں جہاں حبیب جالب نے ”میں نہیں مانتا“ کہہ کر آمریت کے سینے پر پاؤں رکھا؟
کیا یہ وہی دیس نہیں جہاں کبھی فراز نے کہا تھا

مرگ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آ گئے

لیکن آج پاکستان میں سانحات اور المیوں پر صرف خاموشی نہیں بلکہ ایک منظم بے حسی طاری کی جا چکی ہے۔ آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹ کر ظلم کو معمول اور سچ کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب جبر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، جب سچ بولنے والا، حقوق مانگنے والا غدار اور سوال اٹھانے والا مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے تو اُس وقت پاکستان کے ادیب، دانشور، اور شاعر یا تو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا پھر اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں گم ہیں۔

یہ وہی طبقہ ہے جو ماضی میں آمریت کے خلاف قلم کو تلوار بناتا تھا جو سچ کہنے کی قیمت جانتا تھا۔ مگر آج وہی قلم بکاؤ اشتہار بن گیا ہے وہی زبان محافظِ ظلم بن گئی ہے۔ کیا ادب صرف ریاستی ایوارڈز، حکومتی سیمیناروں اور لٹریچر فیسٹیولوں کے لیے رہ گیا ہے؟ کیا دانش اب صرف سرکاری درباری تقریروں اور نصابی حوالوں تک محدود ہو چکی ہے؟ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کا تخلیقی شعور ایک بحران کا شکار ہے۔ اور یہ بحران صرف سیلف سنسرشپ کا نہیں بلکہ ضمیر کے مرنے کا بھی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ سوال اٹھائیں جب ہر طرف آگ لگی ہوئی ہو تو فنکار کا کلام کیوں ٹھنڈا ہے؟ جب عوام کے جسم جل رہے ہوں تو شاعر کا تخیل کیوں گل و بلبل میں پناہ لے؟ اگر قلم سچ نہ لکھے تو وہ صرف ایک سازشی آلہ بن کر رہ جاتا ہے۔

ادب کو یا تو اب سماجی سچائیوں اور ضمیر کا آئینہ بننا ہو گا یا اسے پھر ہمیشہ کے لیے اقتدار کا غلام رہنا ہو گا۔ آج جب ظلم کا بازار گرم ہے تو ہمارے قلم کیوں سرد ہو گئے ہیں؟ آج کا ”دانشور“ محض ریاستی این جی اوز اور تمغوں کا درباری بن چکا ہے جس کی تحریریں مقتدرہ کے بیانیے کو خوشنما الفاظ میں پیش کرتی ہیں۔

یہی وہ فکری غداری ہے کہ جب دانشور سرکاری اعزازات، تمغوں اور حکومتی سیمیناروں کے طلسم میں کھو جائے جب اس کا قلم حق گوئی کے بجائے اقتدار کی قصیدہ گوئی میں مشغول ہو جائے جب اس کی دانش کا محور مظلوم نہیں بلکہ ظالم کے مفادات بن جائیں تو سمجھ لیجیے کہ فکری دیوالیہ پن اپنے عروج پر ہے۔

ایسے دانشور صرف تقریروں میں آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کا راگ الاپتے ہیں لیکن جب زمین پر ظلم ہوتا ہے تو ان کی زبان گونگی، قلم بے جان، اور ضمیر مردہ ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ وہی لکھتے ہیں جو طاقت سننا چاہتی ہے اور وہی بولتے ہیں جو ان کے مالی سرپرستوں کے مفاد میں ہو۔

ایسے وقت میں خاموشی جرم اور فکری غداری ہے۔ اور جو قلم اس غداری کا حصہ بن جائے وہ نہ ادب کا نمائندہ ہوتا ہے نہ قوم کا بلکہ صرف استحصالی نظام کا ایک کل پرزہ ہوتا ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم تمغہ یافتہ، ایوارڈ یافتہ دانشوروں سے سوال کریں ”جب سچ مر رہا تھا تم کہاں تھے؟“ ”جب مظلوم چیخ رہے تھے تم کیوں خاموش تھے؟“

پاکستان میں آج کل انقلابی و مزاحمتی شاعری کے برعکس سفارشی شرکت کنندگان کے وہ مشاعرے سجائے جاتے ہیں جہاں ظلم پر چپ سادھ لی جاتی ہے اور محض بے جان قافیے، خوشامدی بحر، بے مقصد استعاروں، پھیکی تشبیہات اور تھکی ہوئی تلمیحات کے ذریعے سامعین کو لفظوں کی ایسی فنکارانہ لوری سنائی جاتی ہے کہ نیند میں بھی سچ نہ جاگ جائے۔

یہ تمام سوالات ہماری تاریخ کے سینے پر نقش ہو رہے ہیں اور کل یہی سوالات ہمارے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ جب ظلم کے وقت خاموشی اختیار کی جائے جب سچ کو ”سافٹ لینگویج“ یا نرم زبان میں لپیٹ کر جابروں کی ترجمانی کی جائے جب تلخ حقیقتوں کی نمائندگی کرنے والی شاعری کی جگہ بیانیاتی غلامی لے لے جب تخلیق صرف فنکارانہ مظاہرہ ہو مزاحمت نہ ہو تو یہ ادب نہیں ضمیر کی شکست ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی جبر، استحصال اور ظلم کی تاریکیاں گہری ہوئی ہیں کچھ ایسے دانشور، ادیب، شاعر، محقق، پروفیسرز اور اسکالرز سامنے آئے جنہوں نے صرف علم نہیں پھیلایا بلکہ اپنے ضمیر کی آواز کو بلند کیا۔ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے یونیورسٹیوں کی دیواروں کو سچ کی گونج سے لرزا دیا جنہوں نے اپنے لیکچرز، تحریروں، اور تقریروں اور شاعری کے ذریعے سامراجی نظام، سرمایہ دارانہ لوٹ مار، نسل پرستی، فوجی آمریت اور سیاسی جبر کے خلاف صفِ اول کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف عوام کو نظریاتی بصیرت دی بلکہ عملی سطح پر بھی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ ان کا قلم ان کا درس ان کی تحریر اور ان کا وجود خود ایک انقلابی بیانیہ بن گیا۔ ان میں ترکی کے شاعر اور انقلابی ناظم حکمت اور شاعر و صحافی نازیف شمسی، بھارت کی ناول نگار اور انسانی حقوق کی کارکن اروندھتی رائے، مؤرخ اور ماہر سیاسیات پروفیسر رنجیت گوہا، ادیبہ اور قبائلی حقوق کی علمبردار مہا شویتا دیوی، فلسطین کے ادبی نقاد پروفیسر ایڈورڈ سعید، امریکہ کے ماہر لسانیات اور فلسفی پروفیسر نوم چومسکی، فلسفی و انسانی حقوق کی علمبردار پروفیسر انجیلا ڈیوس، ماہر الہیات اور فلسفی پروفیسر کارنیل ویسٹ، مؤرخ و مصنف ہاورڈ زن، فرانس کے فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر، چلی کے انقلابی شاعر اور سیاستدان پابلو نرودا، سوڈان کے افسانہ نگار و ادیب طیب صالح اور کینیڈا کی صحافی اور ماحولیاتی نقاد ناؤمی کلین جیسے افراد اس عالمی فکری مزاحمت کی روشن علامتیں ہیں۔

ادب کا کام صرف خواب دکھانا نہیں بلکہ حقیقت سے ٹکرانا بھی ہے۔ اگر ہم فکری غلامی کو ہی دانش سمجھنے لگیں تو ہم صرف سامراجی بیانیوں کے مقامی ترجمان بن جائیں گے۔ اگر زبان اور قلم صرف واہ واہ سمیٹنے اور حکومتی تعریفوں کے لیے استعمال ہو تو پھر وہ زبان اور قلم نہیں صرف ایک خوشنما زنجیر ہے جو مزاحمت کو قید رکھنے کا کام کرتی ہے۔ ان حالات میں وہ تخلیقی مزاحمت دوبارہ زندہ کرنی ہوگی جو بغاوت سے پیدا ہوتی ہے جو ضمیر کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے اور جو کسی تمغے یا اعزاز کی محتاج نہیں۔ ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments