خادم اعلیٰ : مجھے میرا راحیل راؤ واپس چاہئے!


مورخہ تین اپریل 2017 کو پنجاب پولیس نے ہربنس پورہ میں ایک گھر پر چھاپہ مارا۔ یہ گھر منشیات فروشی کے حوالے سے محلے میں شہرت رکھتا ہے، گذشتہ 5 سال سے ہر سال تین چار چھاپے معمول بن چکے ہیں۔ محلے والے شدید تنگ ہیں لیکن یہ منشیات فروش پیسے دے دلا کر پھر واپس آ جاتے ہیں۔

3 اپریل کو رات آٹھ بجے پولیس نے حسب روایت اس گھر پر پھر چھاپہ مارا اور ہمیشہ کی طرح منشیات فروش جن میں مرد و خواتین شامل ہیں نے دوڑ کر چھتیں پھلانگنا شروع کیں۔ دو گھر چھوڑ کر راحیل راؤ اکا گھر ہے۔ راحیل راؤ بنک آف پنجاب میں اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ فلسفہ اور سماجی علوم کے طالبعلم ہیں ۔ سیاحت جنون ہے اور پاکستان سے محبت کے شدید پرچارک ہیں۔

راحیل راؤ دفتر سے تھکے ہوئے گھر آئے اور تھوڑی دیر کے لیے سو گئے۔ منشیات فروشوں میں سے ایک خاتون نے ان کی چھت پر چھلانگ لگائی ۔ ممٹی کا دروازہ کھلا ہوا تھا جس کے ذریعے وہ گھر نیچے پہنچ گئی۔ اسی اثنا میں گھر کا دروازہ پیٹا جانے لگا۔ راحیل راؤ ہڑ بڑا کر اٹھے ۔ ان کی بیوی اور بچے سہمے ہوئے اس خاتون کو دیکھ رہے تھے اور باہر دروازہ اس طرح پیٹا جا رہا تھا جیسے کوئی توڑ دے گا۔ سچویشن مکمل طور پر سمجھ سے باہر تھی۔

راحیل راؤ کے بقول کے اس طرح ڈر کر اٹھنے سے ان کے دل کی دھڑکن کنٹرول سے باہر تھی ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مفلوج ہو گیا ہوں اور اگر ایک قدم بھی اٹھایا تو دل کا دورہ پڑ جائے گا ۔ بچے الگ چیخ رہے تھے ۔ بیوی کمرے کے ایک نکڑ میں کھڑی کانپی جا رہی تھی۔

راحیل راؤ نے دروازہ کھولنے کے لیے قدم اٹھائے اور آواز دی کہ آ رہا ہوں کیوں دروازہ توڑ رہے ہو ۔ دروازے کو لاتیں اور لاٹھیاں ماری جا رہیں تھیں۔ راحیل راؤ نے ایک بنیان اور برمودہ پہناہوا تھا۔ کانپتے کانپتے دروازہ کھولا تو شلوار قمیض میں ملبوس دس غنڈے نما لوگ گھر میں گھس آئے۔ راحیل راؤ کو بری طرح دھکا دیا جس سے وہ لڑکھڑا کر گر پڑے۔ وہ سنبھل کر اٹھ ہی رہے تھے کہ انہوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ چھت سے نیچے کون اترا ہے۔

یہاں کہانی میں ایک انتہائی تکلیف دہ موڑ آتا ہے۔ وہ عورت جو چھلانگ لگا کر گھر میں داخل ہوئی تھی نے شور مچا یا کہ یہی بنیان پہنے جو شخص ہے یہی اوپر سے “ہمارے” گھر میں کودا ہے۔

پنجاب پولیس کی شہرت دنیا بھر میں بتائی جاتی ہے۔ بہت سے لطیفے گھڑے جاتے ہیں اور اس شہرت کے حوالے ایسے ہیں کہ اس محکمے
میں اس طرح کے افراد کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔لیکن بجائے ڈوب مرنے کے یہ انہی لطیفوں اور اسی شہرت پر فخر کرتے ہیں۔

پنجاب پولیس نے اپنی روایتی شہرت کی ساکھ برقرار رکھتے ہوئے راحیل راؤ کو مارنا شروع کر دیا۔ اس کے منہ پر تھپڑ مارے ۔ مکے مارے ۔ بنیان سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانے کی کوشش کرتے رہے لیکن راحیل راؤ جو کہ ایک انتہائی شریف آ دمی ہیں باہر نہ جانے کے لیے پورا زور لگاتے رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بنیان اور برمودہ پہن رکھا تھا۔ یہ مکان ان کا ذاتی تھا اور محلے داروں سے تعلق کو کئی دہائیاں بیت چکی تھیں۔ راحیل راؤ نے کہا کہ وہ قیامت خیز گھڑیا ں تھیں جب میرے بچے اور بیوی چیخ رہے تھے ۔ میرے بچے جن کی تربیت اس انداز میں ہوئی ہے کہ بلی اور کتے تو بہت دور کی بات حشرات الارض کا احترام کرنا بھی ان کو سکھایا تھا آج چند غنڈے نما انسانوں کو دیکھ رہے تھے جو ان کے باپ کو پیٹ رہے تھے۔ راحیل راؤ نے بتایا کہ مجھ پر مکے برس رہے تھے میرے گالوں پر تھپڑ مارے جا رہے تھے اور میں ان کی تکلیف محسوس نہیں کر رہا تھا۔ مجھے تکلیف اپنے بچوں کی تکلیف پر تھی ۔ میں مار پڑتے ہوئے کسی میسر قلیل وقفے میں کن اکھیوں سے بچوں کی جانب دیکھتا تھا۔جب نظر پڑتی اندر کلیجے پر ایک مکہ پڑتا۔

یہ وہ لمحے تھے کہ جس ملک کی محبت میرے خون میں ہمیشہ رواں رہی آج اسی دھرتی کے لیے میرے دل سے بدعا نکلی ۔ یہ میرے دل سے بد دعا نہیں نکلی بلکہ ایک بچوں کے سامنے پٹتے ایک باپ کے دل سے بد دعا نکلی۔

میں نے چیختے ہوئے پولیس والوں کو واسطے دیے کہ خدا کے لیے ایک منٹ صبر کر جاؤ میری بات سن لو۔ یہ میرا گھر ہے ۔ وہ میری بیوی ہے اور کمبختو وہ میرے بچے ہیں۔ میرا آ ئی ڈی کارڈ دیکھو ۔ اس پر ایڈریس دیکھو۔ خدا کے لیے میری بات سن لو۔

لیکن انہوں نے راحیل راؤ کو اٹھا لیا اور اٹھائے ہوئے گھر سے باہر لے آئے۔ راحیل راؤ تڑپ رہے تھے ۔ ہاتھ پاؤں مار رہے تھے لیکن پولیس والوں نے اٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا۔ اتنے میں سارا محلہ اکھٹا ہو گیا ۔ محلے کے لوگوں نے پولیس والوں کو گالیاں دینا شروع کیں اور کہا کہ تم کو شرم نہیں آتی یہ راحیل راؤ صاحب ہیں ۔ انتہائی شریف النفس انسان ہیں ۔ یہ ان کا گھر ہے اور وہ عورت جو چیخ رہی تھی وہ چھلانگ لگا کر ان کے گھر میں داخل ہوئی۔اس پر پولیس والوں کا ماتھا ٹھنکا۔ اور اس عورت کو پکڑ کر گاڑی میں بٹھا لیا جبکہ راحیل راؤ کو چھوڑ دیا گیا۔

راحیل راؤ کو محلے والے تھام کر گھر لے آئے۔ ان کو کافی دیر تک ہوش نہیں آیا۔ حواس بحال ہوئے تو ایک دفعہ پھر آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا۔ بچوں کو گلے لگا کر خوب روئے۔

رات گیارہ بجے مجھے فون کیا۔ روتے رہے ۔ ہچکیاں رکیں تو کچھ بولیں بھی۔ داستان سنائی۔ مجھے داستان سے زیادہ ان آخری فقروں نے جھنجوڑا جب انہوں نے کہا کہ بتاؤ ان بد بختو کو جو ہمارے حکمران ہیں ۔ بتاؤ اس خادم اعلیٰ کا ٹائٹل سجانے والے کو ۔۔۔میں تمھاری بجلی کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں۔ میں تمھاری پکی پکائی روٹیوں پر آسرا نہیں کرتا۔ مزدور آدمی ہوں کچھ نہ کچھ کر کے بچوں کا پیٹ پال لوں گا۔ مجھے صرف ایک عزت نفس عزیز تھی ۔ میرے بچے سمجھتے تھے کہ ان کا باپ بڑا افسر ہے اور پڑھا لکھا آدمی ہے صاحب عزت ہے اور ہر کوئی تکریم سے پیش آتا ہے ۔ میرا کل اثاثہ تو یہی تھا۔ وقار بھائی آج یہ بھی گیا۔ اب آپ کے ملک پر جو عذاب آئے سو آئے میرا کیا جاتا ہے۔ میرا جو جانا تھا چلا گیا۔

میں نے ادھر ادھر فون کیے ۔ ندیم بھٹی اوردوسرے دوستوں کا شکرگزار ہوں۔ بالخصوص اپنے دوست اوراینکر ایکسپریس نیوز کے عمران خان کا جنہوں نے یقین دلایا کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گے جب تک یہ پولیس والے معطل نہیں ہو جاتے اور راحیل راؤ کے گھر جا کر اس کے بچوں کے سامنے معافی نہیں مانگتے۔ میرے یہ کالم لکھنے تک تک عمران خان متحرک تھے اور ایکسپریس کے بیورو چیف محترم الیاس رانا کو اپنی مہم میں شامل کر چکے تھے۔ ایکسپریس نیوز پر ٹکر چلوا دیے تھے۔ راحیل راؤ کے گھر میڈیا ٹیم بھیج دی تھی۔

عمران خان کی نیک نیتی اپنی جگہ لیکن سوچ رہا ہوں کچھ ایسا ہو جائے کہ مجھے میرا وہ راحیل راؤ واپس مل جائے جو گلگت بلتستان میں ٹور کے دوران ہرآبشار کے پاس جا کر کہتا ہے ۔۔ دیکھو استاد جی یہ پاکستان کے پاس ہے ، ہے کوئی ایسی آبشار دنیا کے پاس۔۔۔وہ دیکھو استاد جی نانگا پربت ۔۔یہ دیکھو استاد جی درویش صفت سندھو دریا ۔۔وہ دیکھیں استاد جی راکا پوشی ۔۔۔ استاد جی مان لیں میری بات یہ سب پاکستان کے پاس ہی ہے ۔

میرے راحیل راؤ کو پاکستان پر بڑے مان تھے “خادم اعلیٰ”

مجھے میرا راحیل راؤ واپس چاہیے!

تازہ ترین اپ ڈیٹ

”شہباز شریف کا شکریہ جنہوں نے ہم سب کا یہ کالم پڑھا اور احکامات صادر کیے۔ آئی جی اور ڈی آئی جی سمیت تمام اعلی افسران کا شکریہ جو ان تمام اہلکاروں کو جنہوں نے راحیل راؤ سے زیادتی کی راحیل کے گھر لے کر گئے۔ تمام اہلکاروں کو کہا گیا راحیل صاحب اور ان کے بچوں سے فردا فردا ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں۔ تمام اہلکار معطل کر دیے گئے ہیں۔ اعلی افسران نے راحیل راؤ صاحب کو یقین دلایا کہ آئندہ پولیس کسی شریف شہری کے ساتھ ایسی گھٹیا حرکت نہیں کرے گی۔ راحیل راؤ نے اہلکاروں کو کہا کہ میرے بچے جہاں کوئی فوجی یا پولیس اہلکار نظر آتا اس کو سیلیوٹ کرتے ہیں آپ کی وردی کا احترام کرتے ہیں آپ کب اپنی پولیس وردی کا احترام کریں گے۔ عدنان کاکڑ اور ایکسپریس کے نیوز اینکر عمران خان کا خصوصی شکریہ جن کی کوششوں سے یہ سب کچھ ہوا“۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments