پنجاب پولیس کے ہاتھوں سپر مین کی موت


کہیں ایک واقعہ سنا تھا کہ ایک موٹرسائیکل پر ایک جوان اپنا تین برس کا بیٹا بٹھائے جا رہا تھا کہ اس کی موٹر سائیکل آگے جانے والی گاڑی سے ٹچ ہو گئی۔ جوان نے گاڑی رکوائی اور مار پیٹ پر آمادہ ہوا حالانکہ وہ خود پیچھے سے آ رہا تھا اور غلطی اس کی تھی۔ گاڑی والا بھی اچھا صحت مند شخص تھا۔ وہ گاڑی سے نکلا اور اس نے اس دشنام طرازی کے طوفان کے جواب میں بس ایک بات کہی۔ کہنے لگا کہ ’آپ کے ساتھ آپ کا تین برس کا بیٹا ہے۔ اس کی نظر میں آپ ہیرو ہیں جو سپر مین اور بیٹ مین سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔ آپ مجھے چار لگائیں گے تو دو میں بھی لگا دوں گا۔ مجھے مار کھاتے دیکھنے والا کون ہے؟ آپ کے ساتھ آپ کا بچہ ہے جو اپنے باپ کو مار کھاتے دیکھے گا۔ اس کے بعد اس بچے کی نظر میں اس کے ہیرو کی کیا ویلیو باقی رہے گی؟ کیا وہ دوبارہ اس نظر سے اپنے ہیرو کو دیکھ پائے گا‘؟ موٹر سائیکل والا وہیں تھم گیا اور اس نے ایک نگاہ اپنے بچے پر ڈالی۔ آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ اس نے گاڑی والے سے معافی مانگی۔ جھگڑا ختم ہوا۔ زندگی کا ایک سبق مل گیا۔

کل رات وقار ملک صاحب نے اپنی تحریر میں ظلم کی ایک داستان بیان کی ہے جس میں ایک ایسا ہی سپر مین باپ اپنے بچوں کی نگاہوں میں دو کوڑی کا کر دیا گیا ہے۔ یہ مذموم کام کرنے والا بدمعاش کوئی دوسرا نہیں بلکہ خادم اعلٰی کی پنجاب پولیس ہے۔

وقار ملک صاحب کی معتبر گواہی کے مطابق بینک آف پنجاب کے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ راحیل راؤ صاحب کے محلے میں ایک گھر ہے جو کہ منشیات فروشی کے لئے بدنام ہے۔ اس پر سال میں تین چار چھاپے پڑتے ہیں۔ کل رات ایسا ہی ایک چھاپہ پڑا تو اس مکان سے ’شرفا‘ نکل کر بھاگے۔ ان میں سے ایک خاتون چھت سے نکلی اور راحیل راؤ صاحب کے گھر کی چھت سے ہو کر ان کے لاؤنج میں آ گئی۔ اسی اثنا میں شلوار قمیض میں ملبوس آٹھ دس افراد نے ان کے گھر کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی تو راحیل صاحب نے دروازہ کھولا۔ اس مفرور خاتون نے شور مچایا کہ بنیان پہنے جو شخص ہے یہی اوپر سے ہمارے گھر میں کودا ہے۔ پولیس کے ان بدمعاشوں نے کچھ کہے سنے بغیر ہی راحیل صاحب کو ان کے ننھے بچوں کے سامنے ہی شدید تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

سپر مین مر گیا۔

راحیل صاحب ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ ان کو پولیس کی گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تو محلے والوں نے ان کو بچایا۔ اس وقت پنجاب کی احمق ترین بدمعاش پولیس کو علم ہوا کہ وہ خاتون مفرور ملزمہ ہے جس کے اشارے پر وہ ایک شریف آدمی کو اس کے بچوں کے سامنے شدید ذلت آمیز تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ یہ المناک واقعہ کسی دور دراز قصبے کا نہیں بلکہ لاہور شہر کا ہے۔

چلیں مان لیا کہ یہ پولیس والے احمق ہیں، بدمعاش ہیں، عقل سے عاری ہیں، مگر ان کو بھرتی کس نے کیا ہے؟ ان کی تعیناتی کس نے کی ہے؟ مسلم لیگ نے 1985 سے پنجاب پر کم و بیش 19 برس حکومت کی ہے۔ بیشتر پولیس اہلکار ان کے بھرتی کیے ہوئے یا ترقی دیے ہوئے ہیں۔ کیا یہ شہباز شریف کی حکومت کی نااہلی نہیں ہے؟ کیا ان پر ذمہ داری نہیں آتی ہے؟

سوال یہ ہے کہ کیا یہ بدمعاشی شہباز شریف صاحب کی منشا سے کی جا رہی ہے یا یہ ان کی نااہلی ہے کہ ان کے صوبے کی پولیس ایک بے قابو بدمعاش بن چکی ہے؟

جب سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے پولیس افسران تعینات کیے جائیں گے، جب بھرتیاں میرٹ کی بجائے سیاسی سفارش پر ہوں گی، جب پولیس کو ووٹ حاصل کرنے والے ادارے کے طور پر دیکھا جائے گا، جب سیاسی مخالفین سے نمٹنے کے لئے پولیس کو استعمال کیا جائے گا، تو پھر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پولیس کی یہ بدمعاشی حکومت کی منشا ہے۔ اس بات کو تقویت اس امر سے ملتی ہے کہ اب چوبیس گھنٹے ہونے کو ہیں مگر ان بدمعاش پولیس والوں کے خلاف کوئی ایسا ایکشن نہیں لیا گیا جو کہ عوام کی تسلی کا باعث ہو۔ ایک شریف شہری کے گھر گھس کر اسے بلاوجہ تشدد کا نشانہ بنانا کیا ایک معمولی جرم ہے؟

کیا ان پولیس والوں کو معطل یا برخواست نہیں کیا جانا چاہیے؟ کیا پنجاب حکومت کے کسی اعلی نمائندے کو جا کر اس شریف آدمی سے معافی نہیں مانگنی چاہیے؟ کیا ان ننھے بچوں کے سامنے ان کے باپ کے امیج کو ہمیشہ کے لئے پاش پاش کر دینے کے بعد ان پولیس والوں کو لاک اپ میں نہیں ہونا چاہیے تاکہ بچوں کا اعتماد بحال ہو کہ ان کا باپ کمزور نہیں ہے بلکہ ملکی قانون اسے طاقتور بنا رہا ہے؟ کیا اس ملک میں ایک عام شہری کی عزت کی جائے گی اور اسے قانون کا تحفظ ملے گا؟

پنجاب پولیس کے چند اچھے افسران سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ شہباز شریف صاحب کے علاوہ ان سے بھی سوال ہے کہ آئی جی پنجاب سے لے کر بے شمار ڈی آئی جی اور ایس پی یہاں لاہور میں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا ان کا اپنی فورس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے؟

ایسے ہی شرمناک واقعات ہیں جن کی وجہ سے ایک لاہوری یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ عمران خان کی تمام تر سیاسی غلطیوں کے باوجود تحریک انصاف کو ووٹ دیا جائے۔ جب ایسی غنڈہ گردی دکھائی دیتی ہے اور شہری عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں، تو ہم لاہوریوں کو یہ دکھائی نہیں دیتا ہے کہ صوبے کا بیشتر ترقیاتی بجٹ لاہور میں خرچ ہو رہا ہے، یہاں میٹرو بن رہی ہے، اورنج لائن بن رہی ہے، ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ یہاں حکومت کی وردی پہنے لوگ بدمعاشی کر رہے ہیں۔

تازہ ترین اپ ڈیٹ

وقار ملک صاحب نے شہباز شریف صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مندرجہ ذیل پیغام بھیجا ہے

”شہباز شریف کا شکریہ جنہوں نے ہم سب کا یہ کالم پڑھا اور احکامات صادر کیے۔ آئی جی اور ڈی آئی جی سمیت تمام اعلی افسران کا شکریہ جو ان تمام اہلکاروں کو جنہوں نے راحیل راؤ سے زیادتی کی راحیل کے گھر لے کر گئے۔ تمام اہلکاروں کو کہا گیا راحیل صاحب اور ان کے بچوں سے فردا فردا ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں۔ تمام اہلکار معطل کر دیے گئے ہیں۔ اعلی افسران نے راحیل راؤ صاحب کو یقین دلایا کہ آئندہ پولیس کسی شریف شہری کے ساتھ ایسی گھٹیا حرکت نہیں کرے گی۔ راحیل راؤ نے اہلکاروں کو کہا کہ میرے بچے جہاں کوئی فوجی یا پولیس اہلکار نظر آتا اس کو سیلیوٹ کرتے ہیں آپ کی وردی کا احترام کرتے ہیں آپ کب اپنی پولیس وردی کا احترام کریں گے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1535 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments