تعصب کی عینک
انسانی معاشروں میں پھیلی ہوئی ایک بڑی بیماری تعصب بھی ہے، یہ صرف افراد کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی بلکہ گروہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہتے۔ اس بیماری کی آفات اتنی زیادہ ہیں کہ ہر کوئی ان کی زد میں آ جاتا ہے۔ تعصب بالکل عینک کی طرح کام کرتا ہے، یعنی جیسے آپ جیسی عینک پہنیں ویسا ہی دکھتا ہے ایسے ہی تعصب بھی آپ کو وہی کچھ دکھاتا ہے جو حقائق کے منافی ہو۔ تعصب لفظ کے کئی معنی بیان کیے جاتے ہیں جیسے کہ آنکھ پر پٹی بندھ جانا، کسی کی بے جا حمایت یا مخالفت کرنا وغیرہ۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب کسی نا کسی درجے میں تعصب میں مبتلا بھی ہوتے ہیں اور اس کا شکار بھی بنتے ہیں۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ تعصب زندگی کے ہر دائرے میں موجود ہوتا ہے۔ ویسے تو تعصب کی ہر شکل ہی بری ہے لیکن یہ زہر قاتل اس وقت ثابت ہوتا ہے جب کوئی صاحب اقتدار و قوت اس میں مبتلا ہوتا ہے۔
کل ہم استاد کی مجلس میں حاضر تھے، بہت دنوں سے یہ سوال ذہن میں بار بار اٹھ رہا تھا کہ اس نِگوڑے تعصب کے اسباب کیا ہوتے ہیں اور اس سے نجات کیسے ممکن ہے، جی ہاں وہی تعصب جس سے ہم متاثر بھی ہوتے ہیں اور جس میں ہم مبتلا بھی ہو جاتے ہیں۔ میں نے بالآخر استاد سے پوچھ ہی لیا۔ کہنے لگے تعصب کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے اور وہ یہ کہ جذبات اور خواہشات کو جب بھی علم و حقائق پر ترجیح دی جائے گی تو تعصب پیدا ہو گا۔ اگر اصول بنا لیا جائے کہ اپنے اور بیگانے، جانے اور انجانے کے متعلق رائے قائم کرنے یا فیصلہ کرنے کے لیے صرف اور صرف علم و حقائق کو بنیاد بنایا جائے تو تعصب سے نجات ممکن ہے۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ اس میں اب مشکل کیا ہے، اور دیر تک جواب آتا رہا کہ اپنی خواہشات و جذبات پر قابو پانا اصل مشکل ہے۔
یہ اقربا پروری، یہ نفرت، یہ حسد، یہ پسندیدگی و نا پسندیدگی سب ہی تعصب کی پیداوار ہیں اور ہماری زندگی میں ستم ڈھاتی رہتی ہیں۔ ایک درجہ میں یہ تعصب بدعنوانی کی وجہ بھی بن جاتا ہے۔ ہماری زندگیاں تلخ و شیریں تجربات سے بھری ہوتی ہیں۔ بندہ حال ہی میں تعصب کے پیدا کردہ ایک تلخ تجربہ سے گزرا ہے۔ بے شک ایسے تجربے صبر و شکر کی طرف بھی راغب کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ اشخاص کی ہستی بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔
ہمارے ادارہ کے ایک سربراہ تھے وہ دونوں طرح کے تعصب میں آخری درجہ میں مبتلا تھے۔ صاحب اقتدار ہونے کی وجہ سے ان کے تعصب نے ستم بھی بہت ڈھائے۔ جن صاحبان سے ان کا تعلق تھا اور جن کے لیے ان کے ہاں پسندیدگی پائی جاتی تھی ان پر ہر طرح کی عنایت تھی۔ اس معاملے میں ان کو میرٹ سے نفرت تھی، اپنے پیارے اہل تھے یا نہیں انہیں بے تحاشا مالی فائدے، عہدے، ملکی و غیر ملکی دوروں جیسے فائدے پہنچانا وہ فرض سمجھتے رہے۔ اور وہ جن کے خلاف وہ تعصب رکھتے تھے ان کو اہلیت کے باوجود مواقعوں سے محروم رکھنا ان کا راستہ روکنا بھی وہ فرض عین سمجھتے تھے۔ وہ صاحب اپنی بے جا خواہشوں کی وجہ سے تعصب کے غلام تھے۔
بندہ ناچیز سے انہیں خدا واسطے کا بیر تھا، وہ اتنے سخت تعصب میں مبتلا تھے کہ نفرت ان کی آنکھوں میں ہی ظاہر نہیں ہوتی تھی بلکہ ہر عمل و فعل سے جھلکتی تھی۔ میں ان کی نفرت و تعصب کی وجہ کبھی نہ سمجھ پایا مگر لمبے عرصے تک اس کا شکار رہا۔ وہ تعصب میں ایسے مبتلا تھے کہ ناچیز کا راستہ کئی بار ایسے بھونڈے طریقہ سے روکا کہ گھن آنے لگی۔ خیر وہ رخصت ہوئے مگر نا جانے کب تک ان کے تعصب کی بنیاد پر اٹھائے ہوئے اقدامات کے اثرات باقی رہیں گے، اور یہ ان کے لیے گناہ جاریہ ہے۔
استاد نے جو ایک روز گرتے ہوئے معیار کی وجہ بیان کی تو ان کا معاملہ سمجھ آیا۔ مجلس اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی تھی، استاد نے جوش ملیح آبادی کی شاعری پر پر مغز گفتگو کی تھی۔ اختتام سے تھوڑا پہلے صوتی رابطے سے جڑے شہر اقتدار میں بیٹھے ایک صاحب نے استاد سے سوال پوچھا کہ ادب میں ہمارے گرتے ہوئے معیار کی کیا وجوہات ہیں؟ استاد ایک لمحہ کے توقف کے بعد گویا ہوئے، کہنے لگے اقوام پر زوال کے دنوں میں پستی کی ایک سطح ایسی بھی آتی ہے کہ انھیں بد صورتی سے محبت ہو جاتی ہے، بدذوقی ان کا ذوق اور بدزبانی ان کی زبان ہوجاتی ہے۔ ان کو بے ڈھنگے لوگ اور بے ڈھنگی چیزوں میں ڈھنگ نظر آنے لگتا ہے۔ یعنی ان کے ہاں معیار بدل جاتے ہیں، وہ جو ایک فقرہ ڈھنگ کا بول سکتا ہے اور نہ لکھ سکتا ہے وہ لوگوں کو فصیح و بلیغ لگتا ہے۔ استاد نے اپنی بات یہ کہتے ہوئے ختم کی کہ اس بیماری سے نجات نظام تعلیم بدلے بغیر ممکن نہیں۔ میں آخری صف میں بیٹھا سوچتا رہا کہ ہمارے معاشرے کے گرے ہوئے معیار کی اس سے بہتر اور درست وجہ بیان نہیں ہو سکتی، لگتا ہے ہم جمالیاتی بے حسی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
میں نے اس روز استاد سے پوچھا کہ کیا دلوں کے حال صرف خدا جانتا ہے؟ وہ میری طرف مڑے، غور سے دیکھا، ان کی ذہین آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور وہ کہنے لگے اس میں کیا شک ہے کہ خدا دلوں کے حال ایسے جانتا ہے جیسے کوئی اور نہیں جان سکتا، مگر برخوردار کبھی نہ بھولو کہ دلوں کے حال اعمال و افعال سے بھی جان لیے جاتے ہیں۔ میں نے وضاحت چاہی تو وہ کہنے لگے فاعل جس طرح فعل انجام دیتا ہے اس سے محبت، چاہت، قربت، مہربانی، فاصلہ، بغض، حسد، عداوت، تعصب، نفرت سب جھلکتا ہے، سب ظاہر ہوجاتا ہے۔ سوچنے لگا کہ ہم اس غلط فہمی میں ہی مبتلا رہتے ہیں کہ دوسرے شاید ہماری نیت نہیں جان سکتے، ہم کیسے کوتاہ اندیش ہیں۔
- مطلب پرستوں کی دوستی - 03/05/2025
- تعصب کی عینک - 17/04/2025
- معصوم شاہ کا دربار؛ میرا پہلا سکول - 06/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).