ایک کالم مذہبی اقلیتوں کے نام


Loading

ایسٹر کی آمد آمد ہے۔ ایسٹر مسیحیوں کا ایک اہم اور مقدس تہوار ہے۔ مجھے بھی ایسٹر کی چند تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ اپنے دفتر کے مسیحی سٹاف کے لئے بھی ایک تقریب کا اہتمام میں نے کیا۔ اگرچہ اقلیتی برادری کے خلاف مختلف واقعات کی خبریں ہماری نگاہ سے گزرتی ہیں، تاہم یہ ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں جو مسلمان شہریوں کے ساتھ بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ عمومی طور پر ہمارے سماج میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی برابر کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان سے نفرت کرتے ہوں یا ان کے خلاف ہونے والی ظلم و زیادتی پر خوش ہوتے ہوں۔ جب بھی کسی اقلیتی برادری کے شہریوں کے خلاف تشدد یا ظلم و ستم کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے۔ اعلیٰ ترین حکومتی اور عوامی سطح سے بھرپور مذمت ہوتی ہے۔ ہم اپنے ان بہن بھائیوں کے لئے دکھی ہو جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر تو ہمارا رویہ یہی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں مٹھی بھر شدت پسند یقیناً موجود ہیں جو مذہب، مسلک، عقیدے، ذات برادری کی تفریق کے بغیر تشدد کی کارروائیوں کو پسند کرتے ہیں اور ان میں ملوث بھی ہوتے ہیں۔ یہ مٹھی بھر شدت پسند ہی ہیں جو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر ہماری بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

اس ضمن میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا مذہب اسلام ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں تک کے حقوق کے بارے میں تلقین کرتا ہے۔ جہاں تک اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ ہے تو اقلیتوں سے اچھے سلوک کا درس ہمیں چودہ سو سال پہلے دے دیا گیا تھا۔ صرف درس نہیں، بلکہ باقاعدہ حکم۔ ہمارے دین۔ ہمارے مذہب۔ ہمارے نبیﷺ کا حکم ہے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ عدل و انصاف کا برتاؤ کریں۔ ہماری احادیث میں اس بات کا تذکرہ ہے۔ ہمارے نبی حضور اقدس ﷺ کی حیات طیبہ کے کئی واقعات ہیں جن سے غیرمسلموں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین ملتی ہے۔ نبی اقدس ﷺ کے حسن سلوک نے ہی غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی ترغیب دی تھی۔

یہ بھی دیکھئے کہ بانی پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے داعی اور علمبردار تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا اقلیتوں کے بارے میں جو ویژن تھا اس کے لئے ان کی 11 اگست 1947 کی تقریر کا حوالہ کافی ہے۔ 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ”آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے۔ اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، کسی بھی ذات، کسی بھی عقیدے سے ہو۔ ریاست پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہی۔“ ۔ اسی ویژن کے تحت قائداعظم کے پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل تھے۔ جو ایک ہندو تھے۔ اور تحریک پاکستان کے سرگرم رکن بھی۔

دستور پاکستان بھی قائداعظم کے اس ویژن کے تحت اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے۔ آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، تبلیغ کرنے اور اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے برابر کے شہری اور حصہ دار ہیں۔ بلکہ بعض معاملات میں انہیں مسلمان اکثریت پر فوقیت اور امتیاز حاصل ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذہبی اقلیتیں الیکشن لڑے بغیر اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ دوسری طرف آپ کو اوپن میرٹ پر الیکشن لڑنے کی بھی آزادی ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اقلیتی طالب علموں کا کوٹہ مقرر ہوتا ہے۔ ہماری سرکاری نوکریوں میں بھی ان کا کوٹہ مقرر ہے۔ یہ بات ہم سکول کے زمانے سے پڑھتے چلے آ رہے ہیں کہ ہمارے قومی پرچم کا سفید حصہ اقلیتوں کی علامت ہے۔ یہ سفید رنگ اس امر کا مظہر ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوں کا، ہمارے غیر مسلم بہن بھائیوں کا بھی ایک نمایاں حق اور حصہ ہے۔

آپ مختلف شعبوں پر نگاہ ڈالیں۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہری ہمیں ہر شعبے میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس قصے کا نہایت مثبت پہلو یہ ہے کہ ہمارے مختلف شعبوں میں ایسے روشن نام موجود ہیں، جن کا تذکرہ نہایت فخر سے کیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ کی مثال لے لیجیے۔ پاکستان کی عدلیہ میں ایک نیک نام مسیحی جج جسٹس کارنیلیئس ہوا کرتے تھے۔ آپ پاکستان کے چیف جسٹس بنے۔ ماضی قریب کا قصہ ہے کہ ایک ہندو جج جسٹس بھگوان داس سپریم کورٹ کے جج بنے اور ( ایکٹنگ) چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر بھی متمکن رہے۔ جسٹس دراب پٹیل سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی جج رہے۔ ہماری فضائیہ کی تاریخ میں بھی ہمارے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کا روشن تذکرہ ہے۔ ایک غیر مسلم ائر مارشل ظفر چوہدری ہماری ائر فورس کے سربراہ تھے۔ بالکل اسی طرح 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران ہماری ائر فورس کے ہیرو گروپ کیپٹن سیسل چوہدری کی خدمات پر اور ان کے کردار پر ساری قوم کو فخر ہے۔

یہ صرف چند نام ہیں جو کالم لکھتے ہوئے میرے ذہن میں آ رہے ہیں۔ اگر ہم باقاعدہ تحقیق کریں تو یقیناً ہمارے ہر شعبے میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں، ہزاروں قابل فخر نام موجود ہیں۔ ہماری سیاست۔ ہمارا شعبہ صحت اور تعلیم۔ سماجی خدمات۔ ہر جگہ پر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے بہن بھائی موجود ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ، افواج، ہمارے کھیل کے میدا ن، ہماری شوبز انڈسٹر ی، آرٹ اور ادب ہر جگہ اقلیتی برادری کے نقوش موجود ہیں۔ لہذا ہمارے ملک کی اقلیتی آبادی کے بغیر، ان کی خدمات کے تذکرے کے بغیر، ان کے مثبت کردار کے اعتراف کے بغیر، ہماری قومی تاریخ ادھوری رہتی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے لے کر ایک عام سینیٹری ورکر تک ہر جگہ، ہر مقام پر اقلیتوں کی خدمات ہیں اور ہم ان خدمات کے معترف ہیں۔

اس سب کے باوجود لازم ہے کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو جو مشکلات درپیش ہیں، ان کا خاتمہ کیا جائے۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں، میڈیا میں ان کی نمائندگی کو بڑھایا جائے۔ انہیں اس طرح کا ماحول فراہم کیا جائے کہ انہیں احساس تحفظ حاصل ہو۔ وہ اپنے آپ کو اس ملک کے محفوظ اور با عزت شہری سمجھیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ریاستی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے اور اقلیتوں کی شراکت داری کو بڑھانے کی پالیسی وضع کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments