پاک بھارت تنازعہ اور ایک ناول کا منظر
پہلگام کا افسوس ناک واقعہ ہوا۔ کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جیسا کہ توقع تھی اس کے بعد نہ صرف سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا گیا بلکہ بیانات کی جنگ کا آغاز بھی ہو گیا۔ مودی صاحب کی سرکار تو ایک طرف رہی بھارتی میڈیا نے جنگ کی آگ بھڑکانے کی بھرپور کوششیں شروع کر دیں۔ یوٹیوب پر کوئی پروگرام سن لو بس یہی راگ الاپا جا رہا ہے کہ حملہ کر دو ان کو مزا چکھا دو۔ خالی بیانات کافی نہیں ذرا کچھ بم گراؤ تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ ابھی تک بھارت نے راکٹ کیوں نہیں چلائے۔ ہماری حکومت کیا کر رہی ہے؟ پاکستانی میڈیا پر بھی کچھ ایسے تبصرے سننے کو ملے۔ کہ بھول گئے کہ ہم نے تمہارا ایک جہاز گرایا تھا۔ ابی نندن یاد ہے کہ نہیں۔ ہم منہ توڑ جواب دیں گے۔ دھول چٹا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ بد قسمتی سے ہم اس دور میں جی رہے ہیں جب لیڈر بھی اپنے فیصلے سوشل میڈیا کے زیر اثر کرتے ہیں۔
اس ماحول میں جب کہ تلواریں میان میں تڑپ رہی ہیں، امن اور ہوش مندی کی بات کرنا اپنے آپ کو طرفین کی تیر اندازی کے سامنے رکھ دینے کے مترادف ہے۔ لیکن دونوں ملکوں میں کسی نے ہوش اور عقل کی بات بھی کرنی ہے۔ بندہ پرور پہلے یہ تو سمجھیں کہ جنگ کیا ہوتی ہے؟ اور اس دور میں جب کہ دونوں ملک ایٹم بم تیار کر کے بیٹھے ہیں جنگ کے کیا نتائج مرتب ہو سکتے ہیں؟ کیا محدود حملے محدود ہی رہے ہیں گے یا پھر بھرپور جنگ میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس بھرپور جنگ کا نتیجہ کیا ہو گا؟
دونوں ملک میں موجود نفسیات کو سمجھنے کے لئے ہم تاریخ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ آخر یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ تو نہیں کہ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ جوش میں ہوش کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جا رہا ہے۔ 1861 میں امریکہ کی جنوبی اور شمالی ریاستوں میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ غلام رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے کہ نہیں۔ جنوبی امریکہ والے بڑے بڑے زمیندار تھے۔ کپاس کی کاشت کے لئے انہیں غلاموں کی ایک فوج کی ضرورت رہتی تھی۔ شمالی امریکہ والے غلامی پر پابندی لگانا چاہتے تھے جو جنوب والوں کو گوارا نہیں تھی۔ مشہور ناول گون ود دی ونڈ (Gone with the wind) میں اس دور کے ماحول کا خوب نقشہ کھینچا گیا ہے۔
ناول کے شروع میں یہ منظر بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح جنوبی ریاستوں کے امرا اور ان کے بانکے نوجوان ایک دعوت میں خوش گپیوں میں مصروف ہیں کہ اب جنگ ہو گی اور ہم شمالی ریاستوں کو مزا چکھا دیں گے۔ پھر ہنستے ہوئے کہتے ہیں یہ نہ ہو شمالی ریاستیں ہم سے اتنا ڈر جائیں کہ جنگ ہی شروع نہ کر پائیں۔ سارا مزا ہی خراب ہو جائے۔ دو بھائی جنہیں تیسری مرتبہ کسی یونیورسٹی سے نکال باہر کیا گیا تھا ڈینگیں مار رہے ہیں کہ ہم کس طرح یونیورسٹی میں بیٹھے رہتے۔ اب تو جنگ شروع ہونے والی ہے ہم تو جنگ میں جا کر اپنا شوق پورا کریں گے۔ ایک اور بانکا کہتا ہے کہ میں تو جنگ شروع ہوتے ہی محاذ کی طرف چلا جاؤں گا یہ نہ ہو کہ میرے وہاں جانے سے پہلے ہی ہم جنگ جیت جائیں اور میں اس تفریح سے محروم رہ جاؤں۔
اس ہاہاکار میں ایک عقلمند جو کہ دلیری کی شہرت رکھتا ہے کہتا ہے ہمیں اتنا مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ جنگ نہ ہی ہو تو بہتر ہے۔ دنیا میں اکثر المیوں کی بنیاد جنگوں میں ہی پڑتی ہے۔ اور جب جنگ ختم ہو گی تو کسی کو یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ جنگ شروع کس مسئلہ پر ہوئی تھی۔ بس یہ کہنے کی دیر تھی ناراضگی کا ایک شور و غوغا بلند ہوتا ہے۔ یہ کیا بزدلی کی بات کر رہا ہے۔ ہم مزا چکھا دیں گے شمال والوں کو۔
اس دعوت میں ایک بوڑھا بھی بیٹھا ہوا تھا جس نے صرف ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر گپیں نہیں ماری تھیں بلکہ ایک سے زائد جنگوں میں خود شریک بھی ہوا تھا۔ اور اب اونچا سننے لگا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ کیا باتیں کر رہے ہو؟ ایک لڑکی اس کے کان میں بلند آواز سے کہتی ہے کہ یہ لوگ جنگ کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ لوگ شمالی امریکہ والوں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر یہ جہاں دیدہ بوڑھا کہتا ہے اے آگ اگلنے والے نوجوانوں تمہیں پتہ نہیں کہ جنگ کیا چیز ہوتی ہے۔ میں بعض جنگیں لڑ چکا ہوں۔ پہلے میں ایک جنگ میں شامل ہوا اور پھر میں اتنا بیوقوف تھا کہ میکسیکو کی جنگ میں بھی شامل ہونے کے لئے چلا گیا۔ تمہارا خیال ہے جنگ کا مطلب ہے کہ تم خوبصورت گھوڑوں پر سوار ہو کر جاؤ گے اور لڑکیاں تم پر پھول پھینک رہی ہوں گی اور تم ہیرو بن کر گھر واپس آؤ گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ جنگ کا مطلب ہے بھوکا رہنا۔ اس کا مطلب ہے گیلی زمین پر سونے سے خسرہ اور نمونیا کا مریض بننا۔ اور اگر تم خسرہ اور نمونیا سے بچ گئے تو اسہال کا شکار ہو جاؤ گے۔ جی جناب جنگ کا مطلب ہے کہ تم پیچش اور اس جیسے دوسری بیماریوں کے مریض بنو گے۔
یہ جملہ حقائق سننے کے بعد وہ خواتین جو کہ اب تک نام نہاد سورماؤں کی لاف و گزاف بڑی توجہ سے سن رہی تھیں ایک بے یقینی کا شکار ہو رہی تھیں۔ ان کے چہرے شرم سے تمتما رہے تھے۔ اب دوبارہ مرد اپنی زبانی کلامی شمشیر زنی شروع کر رہے تھے۔ ایک صاحب بولے کہ میرے خیال میں شمالی امریکہ والے ہم جیسے لوگوں سے زیادہ لڑ نہیں سکیں گے۔ اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں جنگ ختم ہو جائے گی۔
ناول میں لکھا ہے اس سارے ہنگامے میں بٹلر نامی مرد ایک طرف درخت کا سہارا لے کر کھڑا تھا۔ اس کی کالی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی حقارت اور چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نظر آ رہی تھی۔ اس نے مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر آپ برا نہ منائیں تو میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر تمام لوگ اس اجنبی کی بات سننے کے لئے اس کی طرف مڑ گئے۔ اس نے کہا کہ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے پاس توپیں بنانے والی ایک بھی فیکٹری نہیں ہے۔ یا یہ کہ ہمارے پاس کتنی کم لوہے کی فاؤنڈریاں موجود ہیں۔ یا یہ کہ ہمارے پاس ایک بھی بحری جنگی جہاز موجود نہیں ہے اور شمال والوں کے بحری جہاز ایک ہفتہ میں ہماری بندر گاہوں کا راستہ روک لیں گے۔ آپ نے یقینی طور پر اس بارے میں کچھ تو سوچا ہو گا۔
وہاں کھڑی لڑکیاں یہ سوچ رہی تھیں کہ کیا اس کے خیال میں ہم بیوقوف ہیں۔ بٹلر نے دوبارہ اپنی بات شروع کی اور کہا کہ ہم جنوبی امریکہ والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو ہم کبھی سفر نہیں کرتے یا پھر ان سفروں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ہم ریستوران اور ہوٹل دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ جنوبی امریکہ بہت خوبصورت ہے۔ میں نے وہ کچھ دیکھا ہے جو آپ نے نہیں دیکھا۔ شمال میں بحری جہاز بنانے کی سہولت ہے، ان کے پاس فیکٹریاں ہیں اور ان کے پاس فاؤنڈریاں ہیں۔ ان کے پاس لوہے اور کوئلے کی کانیں ہیں۔ ہمارے پاس سوائے کپاس، غلاموں اور غرور کے کچھ نہیں۔ وہ ہمیں ایک ماہ میں ختم کر دیں گے۔ کئی سال کے بعد جس طرح امریکہ کی جنوبی ریاستوں کی کنفیڈریشن کو سر جھکا کر شکست تسلیم کرنی پڑی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
بھارت اور پاکستان دونوں کی حکومتوں اور عوام کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر جنگ شروع ہو گئی تو کیا یہ امکان نہیں کہ دونوں طرف سے ایٹمی ہتھیار چلا دیے جائیں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے یہ حملے محدود رہیں گے۔ سرجیکل سٹرائک جیسی اصطلاحات استعمال کرنے والے یا تاریخ کا مطالعہ نہیں کرتے یا اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو خیال تھا کہ کہ چند ماہ میں یہ لڑائی ختم ہو جائے گی لیکن پھر کئی سال تک یورپ والوں کا خون بہتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم میں فرانس پر قبضہ کرنے کے بعد ہٹلر کا خیال تھا کہ جنگ تو میں جیت چکا ہوں انگلستان کے بیوقوفوں کو یہ سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے سے ایک دن پہلے جاپان کی حکومت ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار نہیں تھی۔
اب بھی موقع ہے کہ دونوں ملک کے عوام اور حکومتیں ہوش اور توازن سے کام لیں۔ کیا بھارت کے جوشیلے میڈیا نے کبھی سوچا ہے کہ اس شعلہ بیانی کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ یہی سب کچھ اہل پاکستان کو بھی سوچنا چاہیے۔ سوچیں اور بار بار سوچیں۔ ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی کہ ہم امن کے ساتھ اپنے مسائل حل نہ کر سکیں۔
- ششی تھرور صاحب، کشمیر اور میری لائبریری - 18/05/2025
- پاک بھارت تنازعہ اور ایک ناول کا منظر - 27/04/2025
- ایران امریکہ تنازعہ کا کاروبار - 03/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).