انسانی سائیکی : روح یا ذہن؟


Loading

انسانی تاریخ کا ایک وہ دور تھا جب سائیکی کا ترجمہ روح کیا جاتا تھا۔ اس عقیدے کا آغاز ایران کے زرتشتوں سے ہوا اور پھر مشرق وسطیٰ کے یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں میں یہ عقیدہ مقبول ہو گیا۔

اس عقیدے کو ماننے والے یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی روح انسانی جسم سے علیحدہ اپنا وجود رکھتی ہے۔ وہ روح حمل کے دوران بچے کے جسم میں داخل ہوتی ہے ’ساری عمر اس کے ساتھ رہتی ہے اور موت کے وقت جسم سے جدا ہو کر عالم ارواح میں چلی جاتی ہے۔ پھر وہ روز قیامت کا انتظار کرتی ہے۔

مذہبی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ روز قیامت روحوں کا حساب کتاب ہو گا۔ جن روحوں کے نیک کام زیادہ ہوں گے وہ جنت میں اور جن روحوں کے برے اعمال زیادہ ہوں گے وہ جہنم میں چلی جائیں گی۔

اواگون کا عقیدہ

مشرق وسطیٰ کے انسانی روح اور قیامت کے عقیدے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں ہندووں اور بدھسٹوں میں ایک اور عقیدہ مقبول ہوا جو اواگون کا عقیدہ کہلاتا ہے۔ اس عقیدے کو ماننے والے بھی انسانی جسم سے علیحدہ انسانی روح کے وجود کو مانتے ہیں لیکن وہ روح بار بار اپنی جون بدل بدل کر دنیا میں آتی ہے۔ اواگون کو ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کو ایک جنم کے گناہوں کی سزا اگلے جنم میں سہنی پڑتی ہے۔ انسانوں کو بار بار موقع ملتا ہے کہ وہ تزکیہ نفس کریں اور اپنی روح کی آلائشوں کو کم کریں۔ جب کسی انسان کی روح تمام تر آلائشوں سے پاک ہو جاتی ہے اور اسے نروان حاصل ہو جاتا ہے تو پھر وہ روح واپس زمین پر نہیں آتی اور روح کل کا حصہ بن جاتی ہے۔

سیکولر اور سائنسی نظریہ

روح کے مذہبی اور روحانی عقیدوں کے ساتھ ساتھ پچھلی چند صدیوں میں ایک اور نظریہ مقبول ہوا ہے جو ایک سیکولر اور سائنسی نظریہ ہے۔ اس نظریے کو ماننے والے انسانی جسم سے علیحدہ کسی روح پر ایمان نہیں رکھتے۔ اسی لیے وہ سائیکی کا ترجمہ روح کی بجائے ذہن کرتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق انسانی ذہن کا تعلق انسانی جسم ’انسانی دماغ اور انسانی شخصیت سے ہے۔ انسانی ذہن اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک انسان زندہ رہتا ہے۔ جب انسان مرتا ہے تو انسانی ذہن بھی فوت ہو جاتا ہے۔ سیکولر اور سائنسی نظریہ رکھنے والوں میں حیات بعد الموت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔

جس طرح قیامت کے عقیدے کو زرتشت اور مشرق وسطیٰ کے پیغمبروں نے اور اواگون کے عقیدے کو بدھا کی تعلیمات نے مقبول بنایا اسی طرح انسانی ذہن کے سیکولر اور سائنسی نظریے کی مقبولیت میں

ماہر بشریات چارلز ڈارون
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ
ماہر سماجیات کارل مارکس
اور
وجودی فلسفی ژاں پال سارتر
کے خیالات نے اہم کردار ادا کیا۔

جو لوگ سائیکی کا ترجمہ انسانی ذہن کرتے ہیں ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ساری دنیا کے جدید سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے وہ طالب علم اور اساتذہ جو سائیکالوجی، سائیکاٹری
اور سائیکو تھراپی کے علوم پڑھتے اور پڑھاتے ہیں وہ سب انسانی سائیکی کا ترجمہ انسانی روح کی بجائے انسانی ذہن کرتے ہیں۔

بایو سائیکو سوشل ماڈل

انسانی ذہن کی صحت ’اسکی بیماری اور اس کے علاج کے لیے ماہرین نفسیات نے جو جدید ماڈل تیار کیا ہے وہ BIO۔ PSYCHO۔ SOCIAL MODEL کہلاتا ہے۔ اس ماڈل کے مطابق انسان کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی بیماریوں کا تعلق تین طرح کے مختلف عوامل سے ہوتا ہے

بایولوجیکل عوامل میں جینیاتی اور کیمیائی عوامل
سائیکولوجیکل عوامل میں نفسیاتی عوامل
اور
سوشل عوامل میں سماجی عوامل

جب ماہرین نفسیات کسی مریض کے نفسیاتی مسئلے یا ذہنی بیماری کی تشخیص کرتے ہیں تو وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مریض کے نفسیاتی مسئلے میں کون کون سے عوامل اہم کردار ادا کر رہے ہیں تا کہ وہ ان عوامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس مریض کا علاج کر سکیں

کیمیائی عوامل کا علاج ادویہ سے
نفسیاتی عوامل کا علاج انفرادی تھراپی سے اور
سماجی عوامل کا علاج فیمیلی اور گروپ تھراپی سے کیا جاتا ہے۔

جب مریض اپنے نفسیاتی مسائل کے بارے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ماہرین نفسیات سے علاج کرواتے ہیں تو وہ بہتر ہونے لگتے ہیں اور پھر وہ ایک صحتمند خوشحال اور کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

سائنس طب اور نفسیات کی تحقیقات اور علوم میں اضافے کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا جو علاج اکیسویں صدی میں ممکن ہے وہ آج سے دو سو سال پہلے ممکن نہ تھا۔ ایک وہ دور تھا جب ذہنی مریض جدید علاج کی غیر موجودگی یا غیر دستیابی کی وجہ سے ساری عمر کسی نفسیاتی ہسپتال یا پاگل خانے میں گزارتے تھے لیکن اب وہ طبی علاج اور نفسیاتی تعلیم سے اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ

اپنے گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ سکیں
کسی دفتر یا کاروبار میں کام کر سکیں
دوستوں کا حلقہ بنا سکیں
اور ایک بامقصد اور بامعنی زندگی گزار سکیں۔

پچھلی چند صدیوں میں انسانی نفسیات کے علم نے اتنی ترقی کی ہے کہ اس نے سینکڑوں ہزاروں لاکھوں انسانوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدل دیا ہے۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جدید علم اور علاج کے باوجود دنیا کے بعض ممالک اور معاشروں میں آج بھی کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ذہنی مرض کا تعلق جنوں اور بھوتوں سے ہے اور وہ نفسیاتی مسائل کا علاج کروانے ڈاکٹروں اور نرسوں کی بجائے پیروں اور فقیروں کے پاس جاتے ہیں جو مریضوں کا علاج گنڈے تعویز سے کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 790 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments