پہلگام کا خونیں ناٹک!


Loading

حقیقت احوال جو بھی ہو، کبھی پنڈت جواہر لعل نہرو کا بھارت، سیکولرازم کو اپنے سَر کی کَلغی قرار دینے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا تمغہ سینے پر سجائے پھرتا تھا۔ نریندر مُودی نامی تہی مغز اور رعونت شعار شخص نے، گلی محلے کے اوباش کی طرح بھارت کے چہرے کا یہ نقاب بھی تار تار کر دیا۔ بچپن سے ہی راشٹریہ سیوک سنگھ (راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ) کی آغوشِ دہشت میں پرورش پانے کے بعد گجرات کے وزیراعلی کے طور پر، نفرت و کدُورت میں گُندھی اُس کی سرشت نے بال و پر نکالے۔ 2002 کی مُسلم کُش مہم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہوئے اُس نے انتہا پسندوں کے جتھے تیار کیے۔ تین ہزار کے لگ بھگ مسلمان قتل کر دیے گئے۔ ہزاروں کے گھر اور کاروبار تباہ ہو گئے۔ خونِ مسلم کی اس اَرزانی نے، مُودی کو ”گجرات کے قصاب“ کا خطاب دیا۔ آج اُس کی بلائیں لینے والے امریکہ نے اُسے ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مُودی نے اِس قتل و غارت گری کو اپنی عروسِ سیاست کے عارض و رُخسار کا غازہ بناتے ہوئے اپنی سیاسی حکمتِ عملی کا بنیادی نکتہ بنالیا۔ اُس نے جان لیا کہ آگے بڑھنے، کانگرس کو پیچھے دھکیلنے، مذہب کے نام پر سستی جذباتیت اُبھارنے اور نفرت کی دراڑیں ڈالنے سے ہی وہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچ سکتا ہے۔ سو اُس نے یہی راہ اختیار کی اور کامران ٹھہرا۔ آج مُودی کا بھارت اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کی قتل گاہ بن چکا ہے۔ بائیس کروڑ مسلم آبادی خوف و ہراس کے عالم میں شب و روز گزار رہی ہے جس کی جوان نسل کے لئے، کسی بھی شعبہِ زندگی میں ہنر آزمانے کے تمام راستے بند ہیں۔ نریندر مُودی بڑی محنت اور لگن کے ساتھ نفرتوں کی فصل پروان چڑھا رہا ہے۔ بھارتی معاشرہ، تحمل، برداشت، ہمدردی، مذہبی رواداری اور پُرامن بقائے باہمی جیسی اُجلی انسانی اقدار کا مَرگھٹ بن چکا ہے۔ مُودی کی سیاسی حکمتِ عملی کا دوسرا اہم جزو پاکستان دُشمنی ہے۔ وقفے وقفے سے پاکستان پر وار کرنا، بے سروپا الزام عاید کرنا، جھوٹ پر مبنی داستانیں گھڑ کر دنیا کو گمراہ کرنا، پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے والے ملک دشمن عناصر کو ہر نوع کے وسائل فراہم کرنا، خوارج اور انتشاری قوتوں کی پرورش و نمو، اس کی بڑی ترجیحات بن چکی ہیں۔ یہی اُس کی سیاسی کامیابی کی کلید ہے جس کے ذریعے وہ گیارہ برس سے ’پردھان منتری‘ کی کرسی پر بیٹھا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال، غزہ سے کم سنگین نہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں 90 ہزار سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ پچیس ہزار خواتین بیوگی کی سیاہ چادریں اوڑھے بیٹھی ہیں۔ دس ہزار سے زائد دُخترانِ کشمیر کی عصمتیں لٹ چکی ہیں۔ ہزاروں جیلوں میں گَل سڑ رہے ہیں۔ اُن کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں نہ کاروبار، گھر نہ جائیدادیں۔ 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 پر بھی کلہاڑا چلا دیا گیا جو مقبوضہ جموں وکشمیر کو خصوصی تحفظات دیتا تھا۔ اب وہاں تیزی سے اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا رہا ہے۔ زور زبردستی سے بھارت میں ضم کر دیا جانے والا خطہِ جنت نظیر، آہستہ آہستہ تحلیل ہو کر نفرتوں کی چتا کا رزق بن رہا ہے۔

ماضی کی متعدد دہشت گردانہ وارداتوں کی طرح، پہلگام بھی، ہر پہلو سے بھارتی خفیہ کاروں کی ٹیکسال میں ڈھلا منصوبہ دکھائی دیتا ہے۔ سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج، بستی بستی، گلی گلی مورچے سنبھالے بیٹھی ہے۔ قدم قدم پر چوکیاں ہیں۔ ہر آٹھ کشمیریوں پر ایک بندوق بردار کھڑا ہے۔ پہلگام کے معروف سیاحتی مقام پر ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ بھارتی فوج اور اُس کی ایجنسیاں کہاں تھیں؟ غیرملکی یا مُلکی سیاحوں کو بھیڑ بکریوں کے لاوارث گَلّے کی طرح کیوں چھوڑ دیا گیا؟ بھارتی کہانی کے مطابق صرف چار دہشت گردوں کو اتنا وقت کیسے ملا کہ وہ سرِبازار، ایک ایک سیاح کا انٹرویو لیتے، شناخت کرتے اور بصد اطمینان اُن کے سینوں میں گولیاں داغتے رہیں؟ ابھی کسی زخمی کو ہسپتال بھی نہیں پہنچایا گیا تھا کہ دس منٹ کے اندر اندر پاکستان کے خلاف ایف۔ آئی۔ آر کٹ گئی اور اُسے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ کشمیر کو تقسیم کرنے والی 740 کلو میٹر طویل لائن آف کنٹرول پر بلند قامت فولادی باڑ لگی ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر، تیز روشنی میں چار سُو نگاہ رکھنے والی چوکیاں ہیں۔ اس باڑ سے پہلگام کا فاصلہ دو سو کلومیٹر سے زائد ہے۔ ”پاکستانی دہشت گرد“ کون سی طلسماتی اڑن طشتری میں بیٹھ کر آئے اور دو درجن سے زائد سیاحوں کو ہلاک کر کے سہولت کے ساتھ واپس چلے گئے؟ اگر آس پاس کوئی جنگل بھی ہے تو کس قدر گھنا ہے کہ دہشت گرد وہاں خیمے گاڑے بیٹھے رہے، تربیت لی، منصوبہ تیار کیا، ریہرسل کی اور پھر ہتھیاروں سے مسلح ہو کر سیاحت گاہ میں آئے اور بہ سہولت واردات کر کے ٹہلتے ہوئے جنگل میں واپس چلے گئے۔ بار بار تقاضا کرنے کے باوجود بھارت ایک بھی ثبوت سامنے نہیں لا سکا جو اِس خوں ریزی کا تعلق پاکستان سے جوڑتا ہو۔ پھر بھی بھارتی توپوں کا رُخ مسلسل پاکستان کی طرف ہے۔ زہر اُگلا جا رہا ہے۔ جنگی جنون کو ہوا دی جا رہی ہے۔ بلوغت سے عاری طفلانہ اعلانات اور اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ 65 سالہ پرانے سندھ طاس منصوبے کو معطل کر کے آبی جارحیت کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت سندھ، چناب اور جہلم کے بہاؤ کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ ایسا کرنے کے لئے اُسے آٹھ دس سال کا وقت چاہیے۔ کیا پاکستان اتنا عرصہ ’دَشتِ کربلا‘ بننے کے انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے گا؟ اور اگر بھارت تمام عالمی قوانین، باہمی معاہدوں اور مسلّمہ اخلاقیات کو پاؤں تلے روند کر ہمارے حصے کے دریاؤں کا گلا گھونٹنے کی روایت ڈالے گا تو براہما پُترا، سندھ اور ستلج کا کیا بنے گا جن کے دہانے چین میں ہیں؟

بھارت ایک بڑی عسکری قوت سہی، اُس کا دفاعی بجٹ ہم سے دَس گُنا زیادہ سہی، اُس کا اسلحہ خانہ ہلاکت آفریں ہتھیاروں سے لبریز سہی، لیکن بھارت کو اتنی خبر تو ہونی چاہیے کہ بندوقوں، مشین گنوں، توپوں، ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں والا زمانہ لَد گیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں کی ٹوکریوں میں ناقابلِ تصوّر تباہ کاری پھیلانے والے تابکاری انڈے دھرے ہیں۔

عالم یہ ہے کہ پہلگام دہشت گردی کے مبیّنہ چار ملزموں میں سے ابھی تک کوئی ایک بھی گرفت میں نہیں آیا۔ تحقیق و تفتیش کے لئے اب یہ معاملہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ آج ایک ہفتہ ہو گیا۔ اپنے اور دنیا بھر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ٹامک ٹوئیاں جاری ہیں۔ بات بن نہیں پا رہی اور جھنجھلاہٹ بڑھ رہی ہے۔ اچھا ہوتا کہ ”فالس فلیگ آپریشن“ کے سکرپٹ رائٹرز، پاکستان کے ملوث ہونے کے ”شواہد“ کو بھی جعلی تمثیل میں سمو دیتے۔ جب بھی امریکہ سے کوئی بڑا، بھارت کے دورے پہ آتا ہے، بھارت صرف پاکستان پر الزام دھرنے کے لئے آگ اور بارود کا ایسا تماشا ضرور رچاتا ہے۔ 2000 میں صدر کلنٹن کے دورے کو چالیس کے لگ بھگ سکھوں کے لہو کا نذرانہ پیش کیا گیا اور اب گرم جوش میزبانی کے لئے امریکی نائب صدر کے حضور دو درجن سے زائد سیاحوں کے سر طشت میں سجا کر نذر کر دیے گئے۔ میزبانی کا حق تو ادا ہو گیا لیکن دنیا کے بازارِ سیاست میں، بھارتی بیانیے کا خریدار کوئی نہیں۔ یہ صورتِ حال مُودی کا فشارِ خون بڑھا رہی ہے۔ وہ اثرات و نتائج سے بے نیاز ہو کر کوئی بھی احمقانہ قدم اٹھا سکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اُسے جواب میں وہی کچھ ملے گا جو کسی بھی احمقانہ قدم کے ردّعمل میں ملا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments