آٹزم کی آگاہی کا عالمی دن
گزشتہ دنوں مجھے آٹزم آگاہی کے عالمی دن کے سلسلے میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کا اہتمام آٹزم سپیکٹرم ڈیس آرڈر ویلفیرٹرسٹ کی طرف سے کیا گیا تھا۔ میرے لیے سب سے زیادہ خوش آیند بات یہ تھی کہ بہت سے سرکاری، پرائیویٹ اور فلاحی اداروں کے ساتھ ساتھ والدین کی ایک کثیر تعداد نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ بات اس چیز کی غمازی کرتی ہے کہ آٹزم کے بارے میں ناصرف آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ بحیثیت مجموعی ان افراد کے حقوق کے حوالے سے بھی لوگ زیادہ سوچنے اور عمل کرنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
مجھے اس کانفرنس میں کی نوٹ سپیکر کے طور پر مدعو کیا گیا تھا اور میں نے اس موقع پر آٹزم اور نیورو ڈائیورسٹی والے بچوں کی تربیت اور ملازمت کے حوالے سے گفتگو کی۔ کانفرنس میں بہت اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی اور اہم تجاویز پیش کی گیں۔ میرے خیال میں کانفرنس میں ہونے والی گفتگو اور پیش کی گئی تجاویز کو مندرجہ ذیل نقاط میں سمیٹا جاسکتا ہے جو یقیناً پڑھنے والوں کے لیے معلومات اور آگاہی کا باعث ہو گا۔
٭ بچوں کے ساتھ جتنی جلدی کام شروع کیا جائے اتنے اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
٭بچے کی انفرادی ضروریات کے مطابق مختلف ماہرین اگر ایک ٹیم کی صورت میں پلان تشکیل دیں اور تھیراپی و تعلیم پر کام کریں تو بچے کی نشوونما زیادہ اچھے طریقے سے ہو سکتی ہے۔
٭ کسی بھی خصوصی بچے کے ساتھ کام کرنے اور اس کی بہترین تربیت کے لیے سب سے اہم کردار ان کے والدین اور خاندان کا ہوتا ہے۔ جب تک فیملی بھرپور طریقے سے بچے کے تعلیمی اور تربیتی پروگرام میں شامل نہ ہوں، کامیابی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔
٭نیورو ڈائیورسٹی اور آٹزم کے لیے مختلف تھیراپیز کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ ماہرین کا فرض بنتا ہے کہ وہ والدین کو اس قابل بنائیں کہ وہ اپنے بچے کی ضروریات کے مطابق اس کی بنیادی تھیراپی کو سمجھ سکیں اور بچے کے ساتھ گھر میں کام کر سکیں۔
٭ ہنر کی تربیت بہت سے عوامل کو سامنے رکھ کر پلان کرنی چاہیے۔ بچے کی قابلیت، اس کا شوق، والدین کی توقعات، ان کے معاشی اور معاشرتی وسائل، مارکیٹ میں میسر نوکری کے مواقع اور تربیت دینے کے لیے افرادی قوت اور سہولیات کی موجودگی، یہ تمام ایسے اہم عوامل ہیں جو ہنر کی تربیت اور نوکری کے حصول سے براہ راست وابستہ ہیں۔
٭ حکومتی سطح پر موجود فنی تربیت کے اداروں اور محکمہ خصوصی تعلیم میں آٹسٹک بچوں کو فنی تربیت دینے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، ان کو اس سلسلے میں جلد اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ ملازمت کا حصول ایک آسان عمل نہیں ہے۔ ہمارے ادارے اور آجر انسانی تفاوت و تفریق سے نہ تو آگاہ ہیں نہ ہی انہیں ایسی کوئی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ وہ خصوصی افراد کے لیے ماحول میں کوئی تبدیلیاں کر سکیں۔ اس امر پر تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنے اور آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
٭ ملازمتوں کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے کام گھر میں رہتے ہوئے کرنے کے قابل بنانا چاہیے۔ والدین اور گھر کے دیگر افراد اپنا کام شروع کرنے میں ان بچوں کا ساتھ دے کر ان کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔
٭ آٹزم اور نیوروڈائیورسٹی والے بچوں کے والدین کے لیے آج بھی ایک بہت بڑی فکر یہ ہے کہ ان کے بعد ان کے بچوں کا کیا ہو گا۔ رائزنگ سن، روشنی، فاونٹین ہاؤس ایسے چند گنے چنے فلاحی ادارے ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت ایسی کوششوں میں مصروف ہیں۔ نہ صرف حکومت کو ان کی ہمت افزائی اور مدد کرنی چاہیے بلکہ سرکاری سطح پر بھی ایسے ادارے بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں والدین کے جانے کے بعد یہ بچے ایک گھر کے ماحول میں رہ سکیں۔
آخر میں میں یہ کہوں گی کہ بہت سے ادارے اپنے اپنے دائروں میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں لیکن کیونکہ تجربات کو شیئر کرنے کا کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں اس لیے یہ چھوٹی کوششیں مل کر ایک بڑی آواز نہیں بن پاتیں۔ اس سلسلے میں ہم خیال اداروں کے اشتراک سے ایسے تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے جہاں سے حقوق اور آگاہی کے لیے آواز بلند کی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی حقائق کو جاننے کے لیے تحقیق کی بھی شدید ضرورت ہے تاکہ حقائق کی روشنی میں حقیقت پسند فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کی جا سکے۔
- آٹزم کی آگاہی کا عالمی دن - 29/04/2025
- آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر Autism Spectrum Disorder - 11/03/2025
- ہمدردی یا ہم گدازی - 13/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).