اِشپاتا: کیلاش لوگوں کے بارے میں اُستاد محمد عنایت اللہ سے ایک گفتگو (دوسری اور آخری قسط)
کتاب کا پہلا ایڈیشن کب آیا؟
” یہ 2010 میں آیا جو میری 22 سال کی محنت ہے“ ۔
” اپنی تحقیق کو کتابی شکل دینے کا خیال کب اور کیسے آیا؟“
” جب میں وادی بِیر یر سے تبدیل ہو کر بُونی آیا تو بریر میں جو کچھ کیلاش تہذیب و ثقافت کے بارے میں مشاہدات اور تحقیقی تحریری نوٹس لکھے تھے اُن کو پڑھ کر فیصلہ کیا کہ اب انشاء اللہ اس کو کتابی شکل دینا چاہیے“ ۔
” آپ نے یہ تحقیقی نوٹس کیوں لکھے؟“ ۔
” میں اپنی تحقیق اور تحریری ریکارڈ مشغلے کے طور پر لکھتا رہتا تھا۔ یوں ہی ایک دن میں نے اردو ڈائجسٹ سے رابطہ کیا۔ وہاں کی سلمیٰ اعوان صاحبہ اتفاق سے چِترال کے دورے پر آ رہی تھیں۔ ادارہ اُردو ڈائجسٹ نے اُنہیں کہا کہ وہ مجھ سے رابطہ کریں۔ جب وہ بونی آئیں تو میں نے ان کے سامنے اپنی تحقیق رکھ دی۔ اُنہوں نے کہا کہ کوشش اچھی ہے البتہ اس میں تکرار ہے اس کو کم کریں۔ میں نے 4500 صفحات لکھے تھے انہیں گھٹانا شروع کیا“ ۔
” وہ چیز جس نے مجھے کتاب لکھنے پر مجبور کیا یہ ہے کہ میں دیکھتا تھا کہ ان وادیوں میں جو پاکستانی آتے وہ اِن کیلاشیوں کو اپنے سے کم تر سمجھتے اور کیلاشی خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ یہ میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا میں نے کہا کہ چلو اِس قوم کی اصلی صورت پوری دنیا کے سامنے رکھ دوں“ ۔
” کیا آپ وہ ترمیم شدہ مسودہ لے کر اردو ڈائجسٹ کے دفتر لاہور گئے؟“
” میں خود تو نہیں گیا البتہ اس مسودے کے بیس صفحات وہاں بھیج دیے۔ ادارے سے مجھے کسی فرحت افزا نامی خاتون نے وصولی کا خط بھیجا اور کچھ مزید صفحات مانگے۔ جب وہ صفحات انہوں نے پڑھے تو ایک دوسرا خط بھیجا۔ اس خط نے تو مجھے اور میرے کام کو مہمیز لگا دی۔ اس میں لکھا تھا کہ بہت بہترین تحریر ہے اور آپ اس کو کتابی شکل میں لائیں! میں آج آپ کے توسط سے فرحت افزا صاحبہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو نائب مدیرہ تھیں“ ۔
” جب آپ یہ کتاب لکھ رہے تھے تو اس کی کوئی ڈھیلی ڈھالی شکل تھی کہ اس کا شروع یوں ہو گا یہ درمیان ہو گا اور اس طرح اختتام ہو گا؟“ میں نے سوال کیا۔
” میں پہلی مرتبہ کتاب لکھنے جا رہا تھا اس لئے کوئی واضح شکل میرے ذہن میں نہیں تھی۔ بس ایک ہی بات تھی کہ جو دیکھوں گا وہ لکھوں گا۔ جو نہیں دیکھوں گا وہ کبھی نہیں لکھوں گا! کیوں کہ میں چاہتا تھا کہ یہ کتاب حقائق پر مبنی ہو“ ۔
نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی سے مکالمہ
” کتاب شائع ہونے کے بعد میں یہ کتاب نیشنل بُک فاؤنڈیشن اسلام آباد کے ایم ڈی صاحب کے پاس لے کر گیا۔ انہوں نے مجھ سے چند سوالات کیے :
کسی سے بھی کوئی مشورہ کیوں نہیں کیا؟
اس موضوع پر لکھنے والے کسی بھی شخص کا میں نے حوالہ کیوں نہیں دیا؟
اس کتاب کی پروف ریڈنگ کیوں نہیں کروائی؟
ٹائٹل کے بارے میں کسی ماہر سے کیوں مشورہ نہیں لیا؟
یہ تمام کام کرنے ایک مصنف کے لئے لازمی ہیں آخر میں نے ایسا کیوں نہیں کیا! ”۔
” اس کے لئے میرا یہ جواب تھا: جناب میں لکھاری نہیں بلکہ ایک واجبی تعلیم یافتہ انسان ہوں۔ میں نے اس قوم کو جیسے دیکھا ویسے ہی بیان کیا۔ جو کتابیں اس سے پہلے چھَپ چکی ہیں وہ لوگوں نے پڑھ لی ہیں۔ اب پڑھی ہوئی چیزوں کو بار بار کتاب میں لانا میں نے موزوں نہیں سمجھا۔ پھر جو کوئی بھی کتاب لکھتا ہے اس میں ایک یا دو صفحات ایسے ہوتے ہیں کہ میں فُلاں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور فلاں نے میرے ساتھ تعاون کیا ہے۔ یہ کام مجھے پسند نہیں ہے۔ میں نے اُن صاحب سے کہا کہ کتاب میں اگر جان ہے تو یہ میری صلاحیت ہے۔ اگر جان نہیں ہے تو میری ناکامی ہے۔ کل کتاب شائع ہونے پر کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں جملے میں، میں نے راہنمائی کی تھی۔ فلاں چیز میرے مشورے سے کی گئی۔ اس لئے نہ میں نے کسی سے پوچھا نہ کسی کا حوالہ دیا“ ۔
” کتاب لکھنے کا میرا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ کتاب چھَپ گئی اور کیلاشی لوگ آج اُسے اپنی مذہبی کتاب کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ الحمدللہ یہ اللہ کی مہربانی ہے“ ۔
” کتاب شائع ہونے پر کیلاشیوں کے بڑوں، جیسے شہزادہ خان وغیرہ جن کا آپ نے اپنی کتاب میں حوالہ دیا ہے اُن کا کیا ردِ عمل تھا؟
” اُنہوں نے میرے ساتھ اس کتاب کی تحقیق کے لئے بہت تعاون کیا ہے۔ اپنی رسوم اور تہواروں میں جو راز کی باتیں تھیں وہ بھی مجھے بتا دیں اور سارے تہواروں میں جب تک میں حاضر نہیں ہوا انہوں نے اپنی رسم کا آغاز نہیں کیا۔ میں اُن کے مویشی گھروں میں بھی گیا، اُن کے دیوتاؤں کے پاس بھی گیا۔ میرے کسی بھی جگہ جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اُس وقت وہ لوگ زیادہ تر ان پڑھ تھے۔ میں نے اس کتاب میں تعلیم یافتہ کیلاشیوں سے ایک درخواست کی ہے کہ اس کتاب کو پڑھا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ مجھ سے کوئی رسم لکھنے سے رہ گئی ہو۔ کیوں کہ کیلاش کی کوئی اپنی کتاب نہیں ہے اس لئے میں نے دماغ سے سوالات تیار کیے اور جوابات کیلاشیوں سے لئے۔ یا پھر محفل میں کوئی ایسی بات ہو رہی ہوتی جو میرے کانوں میں پڑتی، میں اُس کی تفصیل پوچھتا کہ یہ کیا بات ہے وہ کیا بات ہے۔ کیلاشیوں سے میں نے اپنی کتاب میں غلطیوں کا پوچھا۔ لیکن آج تک کسی تعلیم یافتہ کیلاشی نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ آپ کی کتاب میں یہ خوبی ہے یا یہ خامی ہے! جو کیلاشی میری کتاب پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ ہمارے محسن ہیں تو اُن کے یہ الفاظ میرے لئے بہت قیمتی ہوتے ہیں“ ۔
” تو کیا وہ اس کتاب کو اپنی مذہبی کتاب مانتے ہیں؟“ میں نے سوال کیا۔
” جی ہاں وہ اِسے اپنی مذہبی کتاب مانتے ہیں“ ۔
” مجھے بتایا گیا ہے کہ اِن کے بڑوں نے اپنے گھروں میں یہ کتاب رکھی ہوئی ہے۔ میرے تین چار دوست وہاں سیاحت کے لئے گئے تھے۔ وہ کیلاشیوں کے گھر میں گئے۔ اور سوال کیا کہ کیا تمہاری کوئی مذہبی کتاب ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ جب کہا کہ ذرا اپنی کتاب دکھائیے تو انہوں نے رومال کے اندر سے بڑے احترام سے میری لکھی ہوئی کتاب نکال کر دکھائی کہ ہماری مذہبی کتاب ’اِشپاتا‘ ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے کیلاش قوم کی اصل تصویر پیش کی ہے“ ۔
” بے شک یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ اسی لئے تو میں یہاں آیا ہوں“ ۔ میں نے بے ساختہ کہا۔
” جس طرح یہاں پولو کا کھیل ہو تا ہے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر رواں تبصرہ کرتے ہیں بس میں نے بھی جو آنکھوں سے دیکھا وہی تبصرہ کی طرح لکھا۔ وہاں ہر طرح کی آزادی ہے۔ میری کتاب میں آپ پڑھیں گے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ عشاء کی نماز پڑھ کر میں وہاں وادی بریر میں دس دن مسلسل ’چامُوس‘ تہوار کے زمانے میں شامل ہوتا تھا۔ اس تہوار میں رات سے صبح تک ہر خاص و عام ناچتا۔ شراب کی اتنی بھرمار ہوتی کہ میں آپ کو کیا بتاؤں! اب دیکھئے کہ بد اخلاقی اور بدکرداری، عشق و معاشقہ کے لئے اس سے زیادہ موزوں اور کیا موقع ہو سکتا ہے۔ مزے کی بات کہ سَن 1988، 1989 اور 1990 میں یہاں روشنی کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔ اب تو یہاں خوب بجلی ہے۔ پہلے محض دو لکڑیوں کو جلا کر اُن کی روشنی میں تہوار منایا جاتا تھا۔ اب آپ دیکھیں 20 × 40 کمرے میں اِس روشنی کی بھلا کیا حیثیت! سچ کہتا ہوں کہ میں نے نشے میں مبتلا جوان لڑکیوں اور لڑکوں کو ایک ساتھ ناچتے ہوئے بڑی باریک بینی سے دیکھا لیکن انہیں اخلاقیات یا انسانیت سے گری ہوئی کوئی حرکت کرتے کبھی نہیں دیکھا! باقی ٹھیک ہے ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ناچتے ہیں مگر وہ اُن کا مذہب ہے“ ۔
” کتاب لکھنے کے دوران سب سے زیادہ مشکل مرحلہ کیا تھا؟“
”سب سے مشکل مرحلہ یہ تھا کہ میں ’باشالینی‘ (زچہ خانہ ) جانا چاہتا تھا اور کیلاشی مجھے نہیں جانے دیتے تھے۔ کیوں کہ اُن کا یہ عقیدہ ہے کہ باشالینی میں جو بھی مرد جائے گا وہ مر جائے گا۔ آخر کار اُن کے مذہبی پیشوا نے کہا کہ تم یہ بات لکھ کر دے دو کہ اگر تم مر گئے تو تم خود ذمہ دار ہو گے۔ لہٰذا وہ عبارت میں نے لکھ کر دے دی۔ پھر میں باشالینی میں اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھا۔ اُن کے انٹرویو کیے۔ بہت سی باتیں کیں۔ یہاں اندر کی زندگی دیکھی“ ۔
” اگر کسی تہوار کا آغاز ہو رہا ہو اور کوئی کیلاشی دنیا سے گزر جائے تو میت رکھ دی جاتی ہے۔ تہوار ختم ہونے کے بعد اُس کی آخری رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ باقی دنوں میں اگر کوئی موت واقع ہو جائے تو میت کو تین دن ایک مخصوص ہال میں رکھا جاتا ہے لیکن خواتین کو فوراً تابوت میں دفنا دیتے ہیں۔ مرد کی موت کی تینوں وادیوں میں اطلاع کر دی جاتی ہے۔ تمام لوگ تین دن تک اُس میت کے گرد ناچتے ہیں، فائرنگ کرتے ہیں پھر اُس کو تابوت میں رکھ کر دفن کیا جاتا ہے“ ۔
” کیا وہ لوگ اپنے مُردے کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی مخصوص مصالحے لگاتے ہیں؟“
” نہیں وہ صرف مرنے والے پر خوشبو لگاتے ہیں“ ۔
ایک دلچسپ واقعہ
اُستاد محمد عنایت اللہ صاحب نے ایک دلچسپ واقعہ سُنایا: ”میں اسکول میں بیٹھا تھا تو وہاں میرا ایک کیلاشی دوست آیا اور کہا کہ ہمارے بزرگ تمہیں بُلا رہے ہیں۔ میں وہاں اُن سے ملنے چل پڑا۔ سامنے گھاس پر کچھ بوڑھے کیلاشی بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے ایک مذہبی پیشوا ’شیر بیگ‘ آج کل آنجہانی ہو گیا ہے۔ وہ اچھا دوست تھا اور مجھ سے عجیب و غریب مذاق کرتا تھا۔ لیکن اُس وقت شیر بیگ سمیت تمام بزرگ سنجیدہ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی سنجیدہ صورت بنائے اُن میں جا کر بیٹھ گیا۔ شیر بیگ نے سنجیدگی سے کہا کہ ہم نے تمہارے بارے میں بہت غور و خوض کے بعد ایک فیصلہ کیا ہے اور تم نے اُس پر صرف ہاں کہنا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں تو ہمیشہ ہاں ہی کہتا ہوں! آخر بات کیا ہے؟ اس پر اُس نے مجھے کہا کہ تم جوان ہو، بیشک شادی نہ کرو، بیوی نہ بناؤ لیکن ہم تمہارے لئے ایک مقامی خاتون کا انتظام کر رہے ہیں۔ تم جب تک یہاں ہو اُس کے ساتھ رہو۔ ہم سب اس پر راضی ہیں۔ میں نے بے ساختہ قہقہہ لگایا اور کہا کہ ایسا کریں! اُس کی جگہ صبح شام چپاتیاں بھیج دیا کریں۔ پھر ہم سب خوب ہنسے“ ۔
کیلاشیوں نے لکھنے والوں کا کیا بگاڑا ہے؟
” اب کیلاشیوں پر لکھنے والے بمبوریت، بریر یا رمبور کی وادی میں جب گئے تو اس قسم کے مذاق کو بھی انہوں نے سنجیدگی سے لیا۔ اگر کسی سیاح سے کسی کیلاشی نے اس قسم کی ملتی جلتی بات کہہ دی تو اُس نے اس کو مصالحہ لگا کر آگے لکھ دیا۔ میرا سوال ہے کہ آخر ان کیلاشیوں نے اُن لکھنے والوں کا کیا بگاڑا ہے؟ میں بھی لکھ دیتا لیکن نہیں! میں نے تہیہ کیا تھا کہ کیلاشی قوم کی اصل صورت لوگوں کے سامنے لاؤں۔ آپ یہ دیکھیں کہ دسمبر کی لمبی رات ہو، روشنی کم ہو، عورتیں مرد نشے میں چور ناچ رہے ہوں تب بھی کیلاشیوں نے کوئی گری ہوئی یا معیوب حرکت نہیں کی۔ میں اس بات پر قسم اُٹھا سکتا ہوں۔ اُس قوم کی عزتِ نفس کو نقصان پہنچانا بہت بُری بات ہے۔ ایسے لوگوں سے کیلاشی نفرت کرتے ہیں لیکن لڑائی جھگڑوں میں نہیں اُلجھتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُن کی تعداد بہت کم ہے۔ معاشرے میں اُنہیں سُنا نہیں جاتا۔ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ ہی کیلاشی کبھی اس علاقے کے بادشاہ تھے۔ ٹھیک ہے زوال کس پر نہیں آیا۔ آج کیلاش بڑے مہذب لوگ ہیں۔ اُن کے ساتھ شائستگی سے پیش آنا چاہیے۔ ان کے ساتھ انسانیت کا احترام ہونا چاہیے۔ میں آپ کے ذریعے پاکستانی سیاحوں سے یہ کہتا ہوں کہ خدارا کیلاشیوں کے گھروں میں شور شرابا کرتے، اونچی آوازوں میں باتیں کرتے ہوئے عجیب و غریب حرکات کرتے داخل نہیں ہوں۔ شائستہ بنیں۔ البتہ کیلاشی غیر ملکیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستانیوں کو اچھا نہیں سمجھتے اس لئے کہ غیر ملکی بہت سنجیدگی اور ادب کے ساتھ کیلاشیوں سے ملتے ہیں لہٰذا یہ اُن کو آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ جب پاکستانی وہاں جاتے ہیں تو اُن کو اپنا چاکر سمجھتے ہیں۔ اور نوجوان یہ سمجھ کر وہاں جاتے ہیں کہ جیسے کیلاش مادر پدر آزاد ہیں۔ کیلاشی اِس بد تمیزی پر اس لئے خاموش رہتے ہیں کہ اگر وہ پولیس میں شکایت لے کر چلے بھی جائیں تو وہ اُن کی بات نہیں سُنتے! اور اگر وہ عدالت میں جائیں تو کئی سال وادی سے چترال آنا جانا گویا وقت اور پیسے کی بربادی ہے۔ کیلاشی سنجیدہ لوگ ہیں بس خون کے آنسو پی جاتے ہیں۔ آخر وہ کیا کریں! میں نے یہ سب اپنی کتاب میں لکھ کر لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے“ ۔
” اقلیتوں کے وزیر، جناب وزیرزادہ صاحب بھی تو کیلاشی ہیں! انہوں نے یہاں کے لئے کوئی کام کیا؟“
” میں نے دیکھا نہیں کہ و زیرِ موصوف نے اُن وادیوں میں کیا کام کیا ہے۔ وزیرزادہ بذاتِ خود بہت شریف لڑکا ہے۔ یقیناً اِن کے لئے کام کرے گا۔ وہ کچھ بھی نہ کرے اگر کیلاشیوں کے لئے اُن کی وادیوں میں جانے کی سڑک ہی بنا دے تو یہ بہت ہو گا کیوں کہ اس سے کیلاشیوں کی ترقی کا نیا باب کھل جائے گا“ ۔
” لیکشن بی بی کے بارے میں کچھ بتائیے! “ ۔
” لیکشن بی بی کیلاشی ہوا باز ہے۔ یہ بشارہ خان کی بیٹی ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں قیام پذیر ہے۔ لیکشن بی بی کیلاشیوں کی فلاح و بہبود کے لئے بہت کام کرتی ہے۔ مختلف بین الاقوامی فورم میں اُس نے کیلاش تہذیب و ثقافت کا تعارف کرایا ہے۔ کیلاشی خود بھی کہتے ہیں کہ وہ ان کی بہت خدمت کر رہی ہے۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ کیلاشی لڑکے لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلوا رہی ہے۔ وزیرزادہ بھی ایسا کر رہا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے“ ۔
کتاب کا نام ”اِشپاتا“ رکھنے کا مراقبہ
” آپ نے اپنی کتاب کا نام اِشپاتا کیوں رکھا؟“
” میں نے پہلے اس کتاب کا نام ’کلاشا‘ رکھا تھا۔ جب میں بمبوریت میں تھا تو یونان سے ایک آدمی ’اطاناسیو‘ وہاں کیلاشیوں کی معاشی اور علمی ترقی کے لئے آیا۔ میری اُس سے دوستی ہو گئی۔ بعد میں طالبان نے اُس کو اغوا کیا پھر حکومتِ پاکستان نے اُسے آزاد کروا کر واپس یونان بھیج دیا۔ میں اور اطاناسیو کیلاشیوں کی زبان میں یونانی الفاظ کے ہونے اور ملتے جلتے رسم و رواج پر اکثر بات کرتے تھے لہٰذا ہم دونوں نے باہمی مشاورت سے کتاب کا نام ’کلاشا‘ رکھا۔ مکمل ہونے پر میں مسودے کو پشاور کے چھاپا خانے میں دے کر اپنے بھائی کے پاس اسلام آباد چلا گیا۔ اتنے میں میرے دوست نے بونی سے مجھے فون کیا اور بتایا کہ ایک انگریز عورت نے کیلاشیوں پر کلاشا نام کی ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جو اس وقت ٹی وی پر چل رہی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ تم اپنی کتاب کے نام پر غور کرو! میں سخت پریشان ہوا کہ یا اللہ وقت کم ہے۔ اب کیا نام رکھوں؟ لاہور میں ایک عالِم میرا دوست تھا اُس نے مجھے مراقبہ سکھایا تھا کہ چلتے پھرتے بھی مراقبہ کیا جا سکتا ہے۔ اُس وقت میں اپنے ایک دوست کے ساتھ اسلام آباد میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ تم مجھ سے کچھ فاصلے پر پیچھے چلو، میں مراقبہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اللہ سے راہنمائی چاہی۔ کوئی چالیس قدم پر جا کر میرے دل نے آواز دی ’اشپاتا‘ پھر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ میرے دوست نے پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ کتاب کا نام پا لیا ہے۔ کلاشا کی جگہ اس کا نام اِشپاتا رکھ رہا ہوں۔ پھر کتاب میں جہاں جہاں پرانا نام تھا اُس کی جگہ اِشپاتا لکھا۔ کتاب کے آخر میں کٹاسنگ کا انٹرویو ہے اُس میں پرانا نام دو جگہ رہ گیا ہے“ ۔
اِشپاتا کیلاشیوں کا سلام ہے۔ آپ ان سے ملیں تو اِشپاتا کہیں! اس کا مطلب ہے تم پر سلامتی ہو! کتاب کے مصنف محمد عنایت اللہ صاحب کی کتاب کا نام ”اِشپاتا“ بہت پسند کیا گیا۔ میں دل کی گہرائیوں سے اُستاد محمد عنایت اللہ کی قدر کرتا ہوں۔ انہوں نے سالہا سال کی محنت کے بعد کیلاشیوں کے شب و روز کی اصل صورت تلاش کی۔ اور پھر اسے صحیح شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).