رخصتی


Loading

مجھے یہاں دربار کے باہر بیٹھے ہوئے کئی ماہ ہو گئے ہیں۔ اگر کسی کے ہوش و حواس چلے جائیں تو کوئی بات نہیں پر میرے تو ہوش بھی ٹھکانے ہیں۔ میں بس چپ کر کے بیٹھی ہی رہتی ہوں۔ مجھے کسی سے کچھ نہیں مانگنا۔ ہاتھ پھیلاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ ساری زندگی بس یہی کام تو کبھی نہیں کیا۔ روکھی سوکھی، دال روٹی یا سبزی گوشت جو میسر ہوتا تو خوش ہو کر خود بھی کھاتے اور بچوں کو بھی کھلاتے۔ اللہ بخشے جواد کے ابا کہتے تھے۔

”ہمارے بچے پڑھ جائیں۔ بس یہی ہمارا زندگی کا نفع ہے“

ہاہ ہا۔ کیا بھلی زندگی تھی۔ جو گزر گئی۔ تین بیٹے جنے مبارک بادیں سمیٹیں۔ سوچتی ہوں۔ کاش ایک بیٹی بھی جن لیتی۔ جو آج میرے ساتھ دکھ سکھ بھی کرتی۔ اکیلا بندا ناں ہنسنے جوگا۔ نہ رونے جوگا۔

یہ سوچتے ہوئے میں اٹھی اور کچھ دور۔ جہاں چھاؤں زیادہ تھی، وہاں جا کر بیٹھ گئی اور انگلیوں پر تسبیح کرنے لگی۔ سوا لاکھ کیسے کروں۔ کیا کروں۔ مجھے گنتی تو یاد ہی نہیں رہتی۔

پہلے پہل میں یہاں آئی تو سب میرے پیچھے ہی پڑ گئے تھے۔ مانگنے والی عورتیں تو کاٹ کھانے کو دوڑتیں اور مرد ایسے دیکھتے جیسے مجھے قتل ہی کر دیں گے۔

جہاں وہ لوگ مجھے بٹھا کر گئے میں تو وہیں پڑی رہی۔ پھر اٹھی۔ ادھر ادھر دیکھتی رہی اور پھر وہیں ڈھے گئی۔ کچھ کھایا نہ پیا بس پڑی رہی۔

ایک عورت پتا نہیں کون تھی۔ کہاں سے آئی۔ ضرور کوئی فرشتہ ہی ہوگی۔ وہ میرے پاس آئی اور مجھے پانی پلا دیا۔ میرا نام پوچھا۔ میں بتانے لگی تھی

جواد کی اماں۔ پھر جیسے مجھے کچھ یاد آیا تو جھرجھری سی آ گئی۔ اور میں نے جیسے سوچتے ہوئے کہا
”میرا نام ہے۔ اماں۔“
”اماں۔“
اس نے دہرایا۔
”کس کی اماں۔ ؟“
پھر ہنس دی۔
میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
اس نے بھی اصرار نہ کیا اور چلی گئی۔
ایسے ہی مزار پر آئی ایک عورت نے پانی کی بوتل میرے پاس رکھ دی۔ تو میں اٹھا کر گھونٹ گھونٹ پیتی رہی۔

شام تک مزار پر مانگنے والے قدرے مطمئن ہو گئے۔ بلکہ رات کو کھانا کھانے لگے تو تھوڑا سا مجھے بھی ایک بچے کے ہاتھ بھجوا دیا۔ میں نے جھجکتے ہوئے پکڑ لیا۔ صبح سے بھوکی تھی اس لیے شاپر میں رکھی روٹی اور سالن بیٹھ کر رغبت سے کھانے لگی۔ یہ پیٹ بھی بڑا ظالم ہے گھر والا مر جائے تو بھی روٹی مانگتا ہے۔ گھر سے بے گھر ہو جاؤ تو بھی اسے روٹی چاہیے۔ جینا نہ چاہو۔ تو بھی اسے روٹی کی ضرورت ہے۔

رات آ گئی۔ تو جہاں وہ سب جا کر لیٹے۔ میں بھی وہیں جا کر ایک طرف لیٹ گئی۔ میں نے دیکھا سب نے کچھ نہ کچھ نیچے بچھایا ہوا تھا۔ لیکن میرے پاس نیچے بچھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ میں اس سخت اور ننگی زمین پر لیٹ گئی۔ پھر پتا نہیں کب مجھے نیند آ گئی۔

صبح کی اذان نے مجھے جگا دیا۔ شروع سے ہی تڑکے اٹھنے کی عادت جو ہے۔ میں اٹھی سامنے لگی ٹونٹی کی طرف گئی۔ کپڑے جھاڑے۔ وضو کیا نماز پڑھی۔ اور ایک طرف بیٹھ کر مزار کا رونق میلہ دیکھتی رہی۔

دوسرے دن بھی وہاں مانگنے والے مجھے کڑی نظروں سے دیکھتے رہے۔ جانے انھیں مجھ سے کیسا ڈر تھا۔ میں سوچتی رہی لیکن کچھ سمجھ نہ پائی۔ میں سایہ ڈھونڈ کر جگہ بدل بدل کر بیٹھتی رہی۔ کوئی کھانے کے لیے کچھ پکڑا جاتا تو وہ لے کر صبر شکر سے کھا لیتی اور کیا کرتی اور بھوکی بھی تو نہیں رہ سکتی تھی ناں۔ بوتل پکڑ کر جاتی ٹونٹی سے پانی بھر کر پاس رکھ لیتی اور گھونٹ گھونٹ پیتی رہتی۔

ایک دن ایک پولیس والا اور ایک اور آدمی جو شلوار قمیض میں تھا۔ میرے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور مجھے کڑی نظروں سے دیکھنے لگے۔

”کھڑی ہو جا بڑھیا۔“
یا اللہ۔ یہ اتنا سخت کیوں بول رہے ہیں۔ میرے بیٹوں جیسے لوگ۔
”نام کیا ہے“
”اماں“
”گھر کہاں ہے“
”معلوم نہیں“
”بچے“
”نہیں پتا“

وہ میرے قریب آئے اور میری تلاشی لینے لگے۔ پتا نہیں مجھے کیا سمجھ رہے تھے۔ میرا دوپٹہ کھینچ کر اتارا اور نیچے پھینک دیا۔ میرے جسم پر ہر جگہ ہاتھ مارا۔ بازؤں کے نیچے۔ ٹانگیں۔ میرے سر کے بالوں کو ہاتھ مار کر نوچ ڈالا۔ جانے کیا ڈھونڈ رہے تھے۔ جب کچھ نہ ملا۔ پھر مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میں کتنی ہی دیر پڑی سسک سسک کر روتی رہی۔ میری اوڑھنی مٹی اور آنسوؤں سے بھر گئی۔

کچھ دنوں میں ہی مانگنے والے مجھ سے مانوس ہو گئے اور میرے کھانے پینے کا خیال رکھنے لگے۔
”کھا لے۔ اماں۔ روٹی کھا لے“

ان میں سے کوئی آ کر کہتا تو مجھے عجیب سا لگتا۔ کہ وہ خود مانگنے والے تھے اور میں ان پر بوجھ بن گئی تھی۔

ہائے اللہ۔ ہائے مقدر۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ کہیں ٹونٹی کے پاس کوئی صابن کا ٹکڑا پڑا مل جاتا تو بدن پر مل کر وہی پہنے ہوئے کپڑے دھو لیتی۔ وہی سر پر مار لیتی۔ کپڑے چلتے پھرتے خود ہی سوکھ جاتے۔ کچھ عرصے بعد مانگنے والوں نے مجھے خود ہی کہہ دیا۔

”اماں مانگ لیا کر تیرا صابن تیل کا خرچہ نکل آئے گا۔“

آخر وہ بھی انسان ہی تھے انہیں مجھ پر ترس آ گیا۔ لیکن میرا ہاتھ نہ پھیلا اور میں اپنی پھٹی اوڑھنی میں ہاتھ چھپائے ایک کونے میں ہی بیٹھی رہتی۔ کبھی لنگر چلتا تو اس میں سے کچھ کھا لیتی ورنہ جو دے جاتا وہی کھا کر پڑ رہتی۔ وہ مانگنے والے تو بڑے ہی دیالو تھے۔ میں لیتے ہوئے جھجکتی تو کہتے۔

”کھا لے اماں ہم رب کے نام کا ہی تجھے دیتے ہیں۔ “
اور یوں ہی کئی ماہ گزر گئے۔

وہ بھی کیا بھلے دن تھے جب جواد کے ابا تھے۔ ان کے اس دنیا سے جاتے ہی مجھے لگا میں اکیلی رہ گئی ہوں۔ جو جنمے تھے وہ بچے کہاں کہاں اڑ گئے۔ پتا ہی نہیں۔ تب جواد مجھے اپنے گھر لے آیا تھا۔ ویسے بھی میں ”جواد کی اماں“ تھی اور وہ ”جواد کے ابا“ تھے۔ بس میرے لیے تو جواد ہی رہ گیا تھا۔

جواد کے بچے سکول آتے جاتے، پڑھتے اور کھیل میں مگن رہتے۔ مجھے لگتا جیسے جواد بھی مجھے گھر میں رکھ کر بھول گیا ہے۔ اس کی بیگم بھلی مانس تھی گھر میں چلتے پھرتے آتے جاتے مجھ سے بات کرتی رہتی۔ نوکر میرا خیال رکھتے کسی چیز کی طلب ہوتی تو دوسرے دن میرے کمرے میں پڑی ہوتی۔ میں کمرے میں چپکی بیٹھی رہتی۔

کبھی باغیچے میں جا کر پودوں کی دیکھ بھال کرنے لگتی۔ ایک دن جواد کی نظر پڑ گئی تو اس نے مجھے روک دیا۔
”اماں ان پودوں کو مالی دیکھتا ہے۔ تمہیں نہیں پتا چلتا۔ انہیں نہ چھیڑا کر۔“

اور میں نے فوراً ہاتھ پیچھے ہٹا لیا۔ ہاں واقعی مجھے کیا پتا۔ ان فیشنی پودوں کا۔ ہمارا تو گھر ہی چھوٹا سا تھا۔ جہاں میں گملے میں پودینہ اگا لیتی تھی۔ ہائے میرا پودینہ جو میں نے اگایا تھا۔ اب تو ناں سونگھنے کو اس کی خوشبو رہی نہ ذائقہ۔ سب کچھ اتنی جلدی بدل کیوں جاتا ہے۔

میں نے باغیچے میں جانا ہی چھوڑ دیا کہ جواد کو برا نہ لگے۔
جواد کی اپنی بیگم سے نہیں بنتی تھی

ایک دن اسے گھر سے چلتا کر دیا۔ مجھے لگتا تھا وہ اس گھر میں میری ایک ہی رشتہ دار ہے۔ میں اس کے جانے سے کمرے میں چھپ چھپ کر روتی رہی۔

کچھ ہی دنوں بعد جواد ایک انگریزن کو لے آیا۔ کچن میں باورچی پہلے سیدھے سادے کھانے بناتا تھا۔ پھر انگریزی کھانے بننے لگے۔ ایک دن میرے کمرے میں وہ کھانا ٹرے میں سج کر آیا تو مجھے ابکائی آ گئی۔ مجھے اس کا ذائقہ تو کیا اس کی بو ہی اچھی نہ لگی۔ پھر میرے لیے دال روٹی یا سبزی الگ سے بننے لگی۔ یا جو ملازموں کے لئے بنتا مجھے بھی وہی دے دیتے۔

وہ انگریزن شکل کی اچھی تھی۔ میں اسے شوق سے دیکھتی تو وہ عجیب سا منہ بنا لیتی۔ میں نے کبھی انگریزن دیکھی ہی نہ تھی۔ اس لیے اسے چھپ چھپ کر دیکھتی رہتی۔

عجیب عورت تھی وہ بھی کبھی تو کدو ابال ابال کر کھاتی، کبھی وہ لال لال کیا کہتے ہیں اسے۔ ہاں سٹرابری۔ وہ دہی میں ڈال کر کھاتی رہتی۔ پتا نہیں۔ اور پتا نہیں کون کون سی چیزوں کا ملغوبہ بنا کر، ان کا شوربہ چمچ سے پیتی رہتی۔

پھر جانے اسے یا جواد کو میری کیا بات بری لگ گئی۔ کہ نوکر مجھے گاڑی میں لے کر گئے اور ایسے گھر میں چھوڑ آئے جہاں بہت ساری عورتیں رہتی تھیں۔

پہلے پہل تو مجھے برا لگا پتا نہیں کس کے گھر مجھے چھوڑ گئے ہیں۔ پرایا گھر تو پرایا ہی ہوتا ہے ناں۔ بیٹے کا گھر تو پھر بھی اپنا کہہ ہی سکتے ہیں۔ پھر اگر بیٹے کا گھر بھی اپنا نہیں۔ تو یہ غیروں کا گھر کیسے میرا ہوا۔

میں ڈر سی گئی پر وہاں بہت ساری عورتیں تھیں۔ ہم سب مل بیٹھتیں۔

اپنے بچوں کی باتیں کرتیں۔ اپنے گھروں کو یاد کرتیں۔ وہ ہمارے چھوٹے چھوٹے گھر جو اب ہمارے نہ رہے تھے۔ ہماری راجدھانی جو خواب ہو گئی۔ آہستہ آہستہ وہاں میرا دل لگ گیا۔ مجھے وہ سب اچھا لگنے لگا۔ جواد کے گھر تو نوکروں سے بھی بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کبھی مجھے ڈر لگتا تھا میری آواز ہی نہ سوکھ جائے۔ میں کمرے میں زور زور سے خود سے باتیں کرنے لگتی کہ اپنی آواز ہی سن لوں۔ تو بھی نوکر آ کر روک دیتے۔

”اماں۔ بی بی کہتی ہیں شور نہ کریں۔ “

یہاں ہم سب کھل کر ایک دوسرے سے بات کرتیں۔ یہاں کوئی کسی کو روکتا ٹوکتا ہی نہ تھا۔ کبھی ہنسی مذاق کرتیں۔ ہم ایک دوسرے کی باتوں پر کھل کر بے خوف ہنستے۔ کبھی ہم اپنے بچوں کو یاد کر کے رو دیتیں۔ تو دل کی بھڑاس نکل جاتی۔ کھانا پینا بھی مل جاتا تھا۔ پہننے اوڑھنے کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پتا نہیں یہ سب کیسے ہوتا تھا اور کون کرتا تھا۔

بس ایک دن کچھ اخبار والے آ گئے۔ وہ سب سے باتیں کرتے رہے ایک لڑکی میرے پاس آ بیٹھی اور مجھ سے باتیں کرنے لگی۔ بڑا کرید رہی تھی۔ ادھر ادھر کی باتیں۔ یہاں وہاں کا ذکر کر کے۔ پھر میرے بچوں کی باتیں کرنے لگتی۔

”اماں تمہارا خاوند مر گیا ہے۔ کیا بیٹا بھی مر گیا ہے۔“
اس نے منہ بھر کر کہا تو میرا دل پھٹنے لگا۔

”ہائے۔ ہائے اللہ۔ ایسے نہ کہو بچی۔ میرا جواد ابھی زندہ ہے فواد اور ذیشان بھی زندہ سلامت ہیں۔ اللہ انہیں لمبی عمر دے۔ شاد آباد رکھے۔“

”تو کیا وہ غریب ہیں۔ اماں“
اس نے پھر پوچھا

”ناں۔ ناں۔ بچی میرے جواد کا تو۔ یہ اتنا بڑا گھر ہے۔ بڑا افسر ہے محکمے کا۔ نوکر چاکر۔ انگریزن بیوی بچے اللہ سلامت رکھے۔“

میں اس لڑکی سے بے دھڑک باتیں کرنے لگی۔

پھر پتا نہیں کیا ہوا۔ اگلے دن ہی جواد کے گھر کے ملازم آئے اور مجھے اس مزار پر چھوڑ کر چلے گئے۔ تب سے یہ مزار ہی میرا گھر ہے۔ یہیں جو مل جائے کھا لیتی ہوں اور سو جاتی ہوں۔

یونہی دن گزر رہے تھے۔ جب وہ اخبار والی لڑکی یہاں بھی آ پہنچی۔ اور مجھے دیکھ لیا۔ میں نے بہتیرا منہ چھپایا۔ پر وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ پھر جا کر میرے لیے کپڑے لے آئی۔ کھانا لے آئی صابن بھی دے گئی۔ میں تو اسے دیکھ کر ہی اندر ہی اندر لرز کر رہ گئی۔ اور خود سے کہہ دیا

”بڑھیا پھر وقت آ گیا۔ سمجھ لے کہ یہ ٹھکانہ بس بدلنے ہی والا ہے۔“
اور ایسا ہی ہوا پھر جواد کے گھر کے نوکر آ گئے اور مجھے گاڑی میں اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
میں گاڑی میں بیٹھی ورد کرتی رہی۔ ”یا رب۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ بس اب تو ہی میری مدد کر۔“

گاڑی جواد کے گھر میں آ کر رکی۔ تو میں ڈرتے ڈرتے خوش ہوئی۔ پھر میں نے آہستہ سے قدم باہر نکالا۔ تو شرفو کی بیوی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کوارٹر میں لے گئی۔

پھر میں ان لوگوں کے ساتھ وہیں رہنے لگی۔ کبھی چھپ چھپا کر جواد اور بچوں کی شکل بھی دیکھ لیتی۔ کوئی تکلیف ہوتی تو انہیں نہ بتاتی۔ کہ مجھے کہیں اور نہ چھوڑ آئیں۔ بدن میں درد ہوتا تو آئے۔ ہائے منہ کے اندر ہی دبا لیتی۔ جب جواد کبھی بیوی بچوں کے ساتھ باہر جاتا۔ تو دل کرتا کہ اس کے گھر جا کر ان کی خوشبو ہی سونگھ لوں۔ لیکن ڈر کے مارے کبھی ہمت ہی نہ ہوئی۔ اتنا بڑا گھر تھا۔ پر میری چارپائی کی وہاں جگہ نہ تھی۔ اور کمروں کے درمیان جو بڑا سا کمرہ تھا وہ تو خالی ہی پڑا رہتا۔ سامان سے بھرا ہوا۔

آج اسی خالی کمرے میں اماں کی چارپائی پڑی تھی۔ اماں اپنے بیٹے کے گھر کے عین درمیان میں بہت سکون سے چادر اوپر لیے لیٹی تھی۔

” جواد صاحب کی اماں فوت ہو گئی ہیں۔ “
ایک عورت کہہ رہی تھی۔

چارپائی کے ارد گرد بہت سے لوگ جمع تھے۔ بیٹے بہویں۔ پوتے پوتیاں۔ ان کے ملنے ملانے والے۔ آج اماں تنہا نہ تھی۔

وہاں آنے والی خواتین کو پانی پلاتے ہوئے ایک ملازمہ کہہ رہی تھی۔
”اماں بہت ہی عبادت گزار اور تنہائی پسند تھی۔ اپنے کمرے سے باہر نکلتی نہ تھی۔“
شرفو کی بیوی نے کئی بار اماں کو اس کمرے کے اندر جھانکتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا۔
” اماں کاش۔ تو دیکھ سکتی کہ تیری رخصتی پر آج کتنی رونق ہے۔ “

کلثوم رفیق
Latest posts by کلثوم رفیق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments