قبیلہ کیا سوچے گا! مکمل کالم


Loading

میرے حلقہ احباب میں ایک صاحب ہیں جن کی شرعی داڑھی ہے، ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنتے ہیں، پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں۔ گویا اپنے چہرے مہرے، حلیے اور اعمال سے کٹر مسلمان لگتے ہیں اور اسی وجہ سے اہل علاقہ انہیں مولوی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں حالانکہ نہ انہوں نے کبھی مدرسے کی شکل دیکھی اور نہ کسی مسجد میں امامت کی۔ اُن کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ حسب توقع بیٹا نالائق اور ناخلف ہے جبکہ بیٹیاں بہت سلجھی ہوئیں اور با ادب ہیں، دونوں یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں جہاں مخلوط تعلیم ہے، وہ نہ حجاب لیتی ہیں اور نہ عبایہ پہنتی ہیں، بس سادہ شلوار قمیض دوپٹے میں ہوتی ہیں۔

مولوی صاحب کی خواہش ہے کہ وہ سول سروس کا امتحان پاس کر کے اعلیٰ افسر بنیں۔ اِس ضمن میں مجھ سے بھی انہوں نے ایک دو مرتبہ بات کی ہے۔ مولوی صاحب سے میری خاصی بے تکلفی ہے، مذہبی معاملات پر اکثر اُن سے رہنمائی لیتا رہتا ہوں، ایسے ہی ایک دن پردے پر بحث چھِڑ گئی تو میں نے اُن سے پوچھ لیا کہ آپ نے اپنی بیٹیوں کو پردہ کیوں نہیں کروایا، انہوں نے جواب دیا کہ میں نے بیٹیوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم دلوائی ہے، وہ ماشا اللہ عاقل و بالغ اور سمجھدار ہیں، اپنا بھلا برا جانتی ہیں، اپنے لیے لباس کا انتخاب کرنے میں وہ اسی طرح آزاد ہیں جس طرح میرا بیٹا، آپ نے اُس کے بارے میں تو نہیں پوچھا کہ وہ گھٹنوں سے اوپر سوئمنگ کاسٹیوم پہن کر سب کے سامنے کیوں گھومتا ہے۔ اِس جواب نے مجھے چکرا کر رکھ دیا، اِس لیے نہیں کہ یہ بہت فلسفیانہ جواب تھا بلکہ اِس لیے کہ مجھے کسی مولوی ٹائپ بندے سے اِس جواب کی توقع نہیں تھی۔ اور یہی میری غلط فہمی تھی۔

جدید فلاسفی میں ایک تصور ہے جسے Cluster Thinking کہتے ہیں، اردو میں اِس کی متبادل ترکیب ’قبائلی سوچ‘ ہو سکتی ہے۔ اِس طرزِ فکر میں ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی ایک نظریے یا موقف کا علمبردار ہے تو وہ لازمی طور پر کچھ دیگر مخصوص خیالات بھی رکھتا ہو گا جو اُس نظریے سے میل کھاتے ہوں گے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سائنس اور ٹیکنالوجی کا حامی ہو تو عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مذہب بیزار ہو گا جبکہ یہ مفروضہ درست نہیں کیونکہ بندہ سائنس پر یقین رکھتے ہوئے بھی مذہبی ہو سکتا ہے۔

قبائلی سوچ کا مطلب یہ ہے کہ ایک مخصوص نظریے کے لوگ جب کسی خاص فکر کو اپنا لیتے ہیں تو ایک طرح سے وہ اُس نظریے کا پورا بنڈل ہی خرید لیتے ہیں جس میں اُس سے ہم آہنگ نظریات مفت میں مِل جاتے ہیں اور وہ لوگ اُن نظریات کو بھی اپنی فکر کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ مثلاً، ہم جنس پرستوں کے حقوق کی حمایت کرنے والوں کے بنڈل میں آپ کو عموماً لبرل فکر کے حامل لوگ ملیں گے جو سیکولر سوچ رکھتے ہوں گے اور سماج کی جانب اُن کا رجحان غیر مذہبی ہو گا۔

دوسری طرف اگر کوئی شخص ذہنی طور پر مذہبی ہو گا تو غالب امکان یہی ہے کہ اُس کے نظریات کا بنڈل قدامت پرستانہ خیالات پر مشتمل ہو گا اور اُس بنڈل میں ایسے افکار ہوں گے جنہیں ہم عموماً دائیں بازو سے جوڑتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اِس طرزِ عمل میں غلطی کیا ہے؟ کیونکہ اگر کوئی شخص مذہبی ہے اور ہم جنس پرستی کی حمایت بھی کرتا ہے تو کیا وہ منافق نہیں کہلائے گا؟ اور اگر لوگ ایک ہی برینڈ کے نظریات اپناتے ہیں تو کیا یہ بات منطقی اعتبار سے زیادہ درست نہیں؟ کیا اسے قبائلی سوچ کہہ کر رد کر دینا چاہیے؟

ہماری سوچ اُس صورت میں قبائلی سوچ کہلائے گی اگر ہم نظریات کی گٹھڑی کو کھول کر نہیں دیکھیں گے اور اُسے محض اِس لیے سر پر اٹھا لیں کہ وہ گٹھڑی سفید رنگ کی ہے اور سفید رنگ ہمیں پسند ہے۔ جبکہ گٹھڑی کو نہ صرف کھول کر دیکھنا ضروری ہے بلکہ اُس کی پڑتال بھی لازمی ہے۔ گٹھڑی میں سے جو چیز کام کی ہو وہ رکھ لیں اور جو بیکار ہو اسے پھینک دیں۔

اکثر لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ تحریروں سے اچھے خاصے لبرل لگتے ہیں، سیکولر ٹچ بھی ہے، آزاد خیالی کی حمایت بھی کرتے ہیں مگر اِس کے ساتھ ساتھ آپ مذہبی معاملات پر بھی رائے دیتے رہتے ہیں، قرآن کی آیتوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں اور احادیث کا بھی، واقعہ معراج پر بھی لکھتے ہیں اور کربلا کا نوحہ بھی پڑھتے ہیں، تو کیا آپ متضاد خیالات کے حامل نہیں؟

میرا جواب ہوتا ہے کہ نہیں، کیونکہ میں نے نظریات کی کوئی ایک گٹھڑی سر پر نہیں لاد رکھی، نہ میں نے کسی مذہبی عالم کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے کہ میں ہر حال میں اُسی کے مسلک کی حمایت میں لکھوں گا اور نہ ہی میں نے لبرل ازم کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ آندھی اور طوفان میں بھی اُس کا عَلَم تھامے رکھوں گا۔ اصول بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ ہر معاملے کو اُس کے میرٹ پر جانچنا چاہیے، لبرل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مغرب کے ہر نظریے کو بنا سوچے سمجھے جپھی ڈال لو اور مذہبی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جو بات کوئی عالم دین کہے اُس پر بنا تحقیق کے ایمان لے آؤ۔

دراصل یہ ایک باریک سا فرق ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے، لوگ قبائلی سوچ کا شکار اِس لیے ہو جاتے ہیں کہ اُن کی سوچ ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھتی ہے جہاں اُن کا پالا زیادہ تر ہم خیال لوگوں سے ہی پڑتا رہتا ہے اور وہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات کی تائید و تصدیق کرتے کرتے اپنے نظریات میں اِس قدر جامد ہو جاتے ہیں کہ پھر وہ ایک گروہ اور قبیلے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، ایسا قبیلہ جو کوئی بھی مخالف نقطہ نظر سننا پسند نہیں کرتا۔

آج کل انڈیا پاکستان میں جنگی جنون عروج پر ہے اور اِس جنون کی وجہ یہی قبائلی سوچ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دونوں ملکوں میں دانشمندانہ سوچ رکھنے والے نہیں پائے جاتے، مدلل بات کرنے والے، سُلجھے ہوئے لوگ دونوں ممالک میں موجود ہیں، مگر وہ اقلیت میں ہیں جبکہ قبائلی سوچ حاوی ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی کی اکثریت ہے، بی جے پی کی حکومت ہے، آر ایس ایس کی سوچ ہے، ہندو انتہا پسندانہ رنگ غالب ہے، اِن تمام عوامل نے مل کر ایک مشترکہ فکر کو جنم دیا ہے، ایسے میں یہ ممکن نہیں کہ یہ پورا ’قبیلہ‘ کسی مخالف نقطہ نظر کو قبول کرے کیونکہ قبیلہ یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ اُس کی سوچ غلط ہو سکتی ہے۔

بات کو مزید سادہ کرتے ہیں۔ بہت سال پہلے پی ٹی وی کراچی سے ایک ڈرامہ نشر ہوا تھا جس میں امام مسجد کا کردار دکھایا گیا تھا، ایک ایسا شخص جو صالح بھی تھا مگر اپنی زندگی کو ’نارمل‘ طریقے سے بھی گزارتا تھا۔ ایک دن وہ امام مسجد ساحلِ سمندر پر سیر کرنے جاتا ہے، وہاں اسے محلے کا ایک نوجوان ملتا ہے جو حیرت سے امام صاحب کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے ”مولوی صاحب، آپ یہاں!“ جواب میں امام مسجد قدرے ناراضی سے کہتا ہے ”کیوں، کیا میں سمندر کی سیر نہیں کر سکتا؟“ یہ سن پر وہ نوجوان لا جواب سا ہو کر چلا جاتا ہے۔

اُس نوجوان نے قبائلی سوچ کا مظاہرہ کیا اور دل میں یہ فرض کر لیا کہ چونکہ یہ شخص امام مسجد ہے سو یقیناً قدامت پسند ہو گا اور ہر قسم کی تفریح کو نا جائز سمجھتا ہو گا، جبکہ مولوی صاحب کا تعلق اُس مکتب فکر سے تھا جو ہر معاملے کو اُس کے میرٹ پر جج کرتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ اُن کا قبیلہ کیا سوچے گا۔ کام ہے تو ذرا مشکل مگر کرنے کا یہی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 597 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments