خواب، محبت اور زندگی (15)
The rigged game of the rich, by the rich, for the rich
اشرافیہ کا دھاندلی زدہ کھیل
ہو سکتا ہے ابھی تک میں نے اپنے سوشلسٹ اور لیفٹسٹ بننے کے جو اسباب بیان کیے ہیں، وہ محض دانشورانہ فصاحت و بلاغت کا نمونہ ہوں اور اصل وجہ جذباتی، ذاتی اور سیدھی سادی سی ہو۔ میں یوسف سہگل کی سب سے چھوٹی بیٹی ناز سہگل کا ذکر کر چکی ہوں۔ بچپن میں وہ کبھی کبھار اپنی ملازمہ رسولاں کو بھیج کر کالونی کی ہم عمر بچیوں کو اپنے ساتھ کھیلنے کے لئے اپنی محل نما کوٹھی میں بلا لیا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ اس نے ہمیں بلایا تو اس روز اس نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر دوسری بچیوں کو پکڑنے کا کھیل سوچا ہوا تھا۔ ہم لڑکیوں کو ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے سے فاصلے پر بٹھا دیا گیا اور رسولاں نے ایک دوپٹہ ناز کی آنکھوں پر باندھ دیا۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ آنکھوں پر دوپٹہ بندھواتے وقت ناز نے رسولاں کے کان میں کچھ کہا تھا۔ کھیل شروع ہوتے ہی ناز نے میری طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ دوپٹہ اس طرح بندھا ہوا ہے کہ وہ مجھے کسی حد تک دیکھ سکتی تھی چنانچہ جیسے ہی وہ میرے قریب آ کر مجھے پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھاتی، میں پیچھے کھسک جاتی۔ جب تین چار مرتبہ ایسا ہوا اور وہ مجھے نہیں پکڑ سکی تو اس نے جھنجھلا کے دوپٹہ آنکھوں سے کھینچ کر اتار دیا اور مجھے اپنی کوٹھی سے نکل جانے کے لئے کہا۔ مجھے اپنی بے عزتی کا شدید احساس ہوا لیکن ظاہر ہے میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ کھیل میں دھاندلی ہوئی تھی مگر میں کچھ کہے بنا باہر آ گئی۔ اس کے بعد میری کبھی ناز سے ملاقات نہیں ہوئی۔
آج ناز پاکستان کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک میاں منشا کی بیوی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ بچپن میں ہم نے اپنا سفر کھیل کی مخالف سمتوں میں شروع کیا تھا اور جب سے ہم مخالف سمتوں میں ہی کھڑے ہیں۔ کھیل میں دھاندلی ہمیشہ اسی طرف سے ہوئی ہے خواہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر دوسرے کھلاڑی کو پکڑنے کے کھیل کی شکل میں ہو یا سرمایہ داری کی شکل میں ہو۔ شاید اسی لئے احفاظ جو ایک کھلاڑی بھی تھے، ہمیشہ کہا کرتے تھے : ”ہمیں لڑنا ہو گا۔ یہ بازی کھیلنا ہی ہو گی“۔ اس لئے شاید اس واقعہ نے یا ابھی تک بیان کردہ سارے واقعات نے آگے چل کر لیفٹسٹ اور سوشلسٹ بننے کی راہ ہموار کی ہو۔ بہرحال چند سال بعد یونیورسٹی کے زمانے میں یہ سب شعوری اور عملی طور پر سامنے آ گیا۔ ظاہر ہے اس کے پس پردہ ذاتی غم و غصہ کے اضافی اسباب بھی رہے ہوں گے۔ اس ذاتی غم و غصہ کے پیچھے ایک واقعہ تھا جس کا ذکر اگلے باب میں ہو گا۔ اس وقت میری عمر صرف دس سال تھی جب ابی نے امی سے بے وفائی کی۔ یعنی جس فلم سے ان کی محبت کا سفر شروع ہوا تھا، اس کا ایک گانا عملی شکل میں سامنے آ گیا:یہاں بدلہ وفا کا، بے وفائی کے سوا کیا ہے۔
باب سوم۔ ابی کی امی سے بے وفائی
اس عمر میں احساس ہوتا ہے کہ محبت پتھر کا صنم نہیں بلکہ ایک متحرک جذبہ ہے۔ محبت شکلیں بدلتی ہے، انحطاط کا شکار ہوتی ہے۔ مرتی بھی ہے اور دوبارہ زندہ بھی ہوتی ہے۔ آج جب احفاظ اس دنیا میں نہیں رہے اور میں ان کی اور اپنی طوفانی اور ہنگامہ خیز محبت کی کہانی کے بارے میں سوچتی ہوں تو اس حقیقت کا احساس اور بھی شدت سے ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں نے پاگلوں کی طرح ان سے محبت کی۔ پھر ایک دور آیا کہ میں نے ان سے مخالفین کا سا برتاؤ کیا، کبھی میں نے ذہنی طور پر اپنے باہمی تعلق سے ہاتھ اٹھا لیا اور کبھی پھر ان کی محبت کا شعلہ بھڑک اٹھا۔ لیکن یہاں میں یہ ضرور کہوں گی کہ اپنی نیک چلنی اور دیانت داری کی بدولت انہوں نے مجھے کبھی وہ تکلیف نہیں پہنچائی جو ابی نے امی کو پہنچائی جس کا تذکرہ آگے ہو گا۔
امی اور ابی کی کہانی بہت رومانوی انداز میں شروع ہوئی تھی اور آنے والے عشروں میں اس میں نشیب و فراز تو آنے ہی تھے۔ نشیب و فراز کہنا تو شاید ایک سطحی سی بات ہو گی کیونکہ ان کی زندگی میں ایک ایسا ’نشیب‘ آیا جس کا اس باب میں ذکر ہو گا جس نے ہمارے پورے خاندان کو پاتال کی گہرائیوں میں پہنچا دیا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکی ہوں کہ کالونی کے اسکول میں افسروں کے بچوں کے لئے مفت تعلیم اور ڈسپنسری میں افسروں اور ان کے اہل خانہ کے مفت علاج کے لئے وہاں ایک نرس اور کمپاؤنڈر رکھا گیا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ہی ڈاکٹر نعیم کا کل وقتی میڈیکل افسر کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ ہمارے سامنے والا بنگلہ انہیں رہائش کے لئے ملا۔ وہ ایک طویل قامت، خوش شکل نوجوان تھے جو جلد ہی کالونی کے مکینوں کی محبوب شخصیت بن گئے۔ امی کی ایک سہیلی کے شوہر میر عبدالمنان ان کے گہرے دوست بن گئے تھے۔ ایک مرتبہ وہ چند روز کی چھٹی پر لاہور گئے اور واپس آ کر دوستوں کو خوش خبری سنائی کہ لاہور میں آباد غیر منقسم ہندوستان کی ایک ریاست کی شہزادی سے ان کی منگنی ہو گئی ہے۔ جلد ہی کالونی میں یہ کہانی پھیل گئی کہ اس شہزادی سے منگنی کرنے والا ہر نوجوان موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے، اس لڑکی کی اس سے پہلے سات منگنیاں ہو چکی تھیں۔ مشہور تھا کہ ایک جن اس لڑکی پر عاشق ہے اور وہ اس کے کسی منگیتر کو زندہ نہیں چھوڑتا۔ ظاہر ہے ہمارے بڑوں میں سے کسی نے بھی اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
ایک نواب خاندان سے رشتہ جڑنے کے بعد ڈاکٹر نعیم کو اپنا معیار زندگی مزید بلند کرنے کی فکر ہوئی۔ جلد ہی انہیں ایک بہتر ملازمت مل گئی اور انہوں نے کوہ نور کو الوداع کہا۔ بچے بڑے سب ہی ان کے جانے سے اداس تھے۔ ان کے لئے شاندار الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ اور وہ اپنی گاڑی میں نئے شہر میں نئی ملازمت کے لئے روانہ ہو گئے۔ اگلے روز ہمیں خبر ملی کہ راستے میں ان کی کار کو ایک سنگین حادثہ پیش آیا اور انہوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ ان کی گاڑی دو اوور ٹیک کرتے ہوئے ٹرکوں کے درمیان آ کر کچلی گئی تھی۔ ہر کوئی سوگوار تھا۔ میں آج بھی آنکھیں بند کر کے میر منان انکل کو سفید قمیص کے کھلے بٹنوں اور رونے سے سرخ آنکھوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلتے دیکھ سکتی ہوں۔ وہ گورے چٹے کشمیری تھے اور رونے سے ان کی صرف آنکھیں ہی نہیں چہرہ بھی گلابی ہو گیا تھا۔
ہم بچے یہی سوچ رہے تھے کیا اس لڑکی کے بارے میں سنی ہوئی بات سچ تھی۔ کیا واقعی اس پر کوئی جن عاشق تھا۔ کیا وہ جن اسے کبھی کسی مرد سے شادی نہیں کرنے دے گا؟ حقیقت کچھ بھی رہی ہو، ڈاکٹر نعیم کی منگنی اور ان کی الم ناک موت ہمارے خاندان کی زندگی میں ایک نحوست بھرے تکلیف دہ باب کا آغاز ثابت ہوئی۔ (جاری ہے)
- خواب، محبت اور زندگی 22 - 20/05/2025
- خواب، محبت اور زندگی 21 - 15/05/2025
- خواب، محبت اور زندگی (20) - 12/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).