مسلمان کینیڈا کب اور کیوں آئے؟
کینیڈا میں مسلمانوں کی آمد اخیر انیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ شروع میں امیگرنٹس سلطنت عثمانیہ، لبنان اور ساؤتھ ایشیا سے آئے تھے۔ یہ امیگرنٹس اونٹاریو اور البرٹا کے صوبوں میں آ کر آباد ہوئے، اور کچھ لوگ بعد میں کیوبک میں۔ 1871 میں جو مردم شماری ہوئی تھی اس کے مطابق 13 مسلمان تھے جو 1931 میں بڑھ کر 645 ہو گئے۔ یہ لوگ لبنان، البانیہ، شام، یوگوسلاویہ اور ترکی سے آئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امیگریشن قوانین میں نرمی لائی گئی تو پھر زیادہ تر مسلمان مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ساؤتھ ایشیا سے کینیڈا آئے ہجرت کر کے آئے تھے۔
نارتھ امریکہ میں مسلمانوں کی آمد کا موضوع اکیڈیمک اعتبار سے نیا نیا ہے۔ یورپین اقوام یہاں 1492 میں آئیں تو انہوں نے یہاں کے مقامی لوگوں کو زیر کرنے کے بعد افریقہ سے غلاموں کو لانا شروع کر دیا۔ انہی سفید فام لوگوں نے یہاں کی تاریخ رقم کی۔ ان کے دل میں غلاموں کے لئے کوئی نرمی یا ہمدردی نہیں تھی۔ مگر اب رفتہ رفتہ ان غلاموں کی داستانیں صفحہ قرطاس پر آنی شروع ہو گئی ہیں۔ دس ملین کے قریب جو افریقن غلام بر اعظم امریکہ بھیجے گئے تھے ان میں 80 فی صد کیربین اور برازیل بھیجے گئے تھے۔ ان میں کافی غلام افریقی مسلمان تھے۔
عمر ابن سعید 1770۔ 1853 ایک ویسٹ افریقن مسلم سکالر تھا جو نارتھ کیرولائنا لایا گیا تھا۔ اس کی بایوگرافی کا عربی میں مسودہ مرقومہ 1831، اس وقت لائبریری آف کا نگریس میں محفوظ ہے۔ اس کا انگلش ترجمہ A North American Slave: The life of Omar ibn Said یونیورسٹی آف وسکانسن پریس نے 2011 میں شائع کیا تھا۔ نارتھ کیرو لائنا کی کمبر لینڈ کا ؤنٹی میں ہائی وے پر ایک ہائی وے مارکر اس کی یاد میں لگا ہوا ہے۔ رباط (مراکش) میں پیدا ہونے والی امیریکن مصنف پروفیسر لیلیٰ العلمی (پیدائش 1968 ) کا انعام یافتہ فکشن ناول The Moor ’s Account ( 2014 ) سیاہ فام مراکشی غلام، مصطفی عبد السلام الزموری کی زندگی پر ہے جو چار ہسپانویوں میں سے ایک تھا جس نے 1529 کی ایکس پیڈیشن میں حصہ لیا تھا جو فلوریڈا سے شروع ہوئی اور نیو میکسیکو میں ختم ہوئی تھی۔
ایک اور کتاب The Muslims and the Making of America ( 2016 ) کے مصنف کا نام ڈاکٹر عامر حسین ہے جس میں امریکہ میں مسلمانوں کی تاریخ کو مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد ان کی سپورٹس، میوزک، اور کلچر میں کنٹری بیوشنز کو بیان کیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کولمبس کے ہمراہ امریکہ کی دریافت مسلمان ملاح بھی شامل تھے۔ کینیڈا میں سب سے پہلا مسلمان امیگرنٹ جو وین کوور 1912 میں پہنچا اس کا نام امانت علی خاں تھا۔ پاکستان اور کینیڈا کے درمیان ایک سرکاری معاہدے کے مطابق 100 پاکستانیوں کو ہر سال یہاں آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ جب 1967 میں یہ کو ٹا سسٹم ختم ہو گیا تو پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد کینیڈا آئی۔ 1971 میں صادق اعوان نے پاکستانی کمیونٹی کا کینیڈا میں سروے کیا جو کتاب کی صورت میں ”دی پیپل آف پاکستانی آریجن ان کینیڈا“ 1976 میں شائع ہوا تھا۔
مصنف ڈاکٹر مر ی ہاگ بین کی ریسرچ کے مطابق کینیڈا میں جن کوانیسویں صدی کے وسط میں سرکاری طور پر مسلمان سمجھا گیا وہ اپر کینیڈا (اونٹاریو) کے جیمز اینڈ ایگنس لو تھے James & Agnes Love۔ ان کو سرکاری ریکارڈ میں Mohematans لکھا گیا۔ وہ سکاٹ لینڈ سے 1851 میں کینیڈا آئے تھے۔ کینیڈا کی 1871 کی مردم شماری میں ملک میں 13 مسلمان گنتی کیے گئے تھے۔
(M. Hogben – Minarets on the Horizon page 15, 2023)
کینیڈا ہجرت کر کے آنے والے زیادہ تر مسلمان شام یا لبنان (لبنان 1920 میں بنا) کے تھے۔ اس کے علاوہ البانین اور بوزنیہ کے بھی تھے جو عثمانی حکومت سے فرار ہو کر یہاں آئے تھے تا ان کو جبری طور پر فوج میں بھرتی نہ کر لیا جائے، یا پھر مذہبی ایذا رسانی سے بچنے کے لئے۔ عرب مہاجر بہت کم تھے۔ ہر سال 150 کرسچن اور مسلمان عربوں کو 1946۔ 1955 یہاں آنے کی اجازت تھی۔ یہ لوگ نیویارک، ہیلی فیکس اور مانٹریال آیا کرتے تھے۔ کینیڈا کے ویسٹ کوسٹ پر برطانوی ہندوستان سے سب سے پہلے پنجاب کے سکھ اور 24 مسلمان آئے تھے۔ انہوں نے وینکوور 1903 میں آنا شروع کیا۔ ایک جا پانی سٹیم شپ ”کاماگا ٹامارو 1914“ میں ہانگ کانگ سے وینکوور پہنچا جس میں 376 پنجابی ہندوستانی سوارتھے۔ ان کو سرزمین کینیڈا پر اترنے کی اجازت نہیں دی گئی اور دو مہینے بعد وہ واپس انڈیا بھیج دیے گئے۔ اس اندوہ ناک واقعہ کی یاد میں کینیڈا پوسٹ نے ٹکٹ 2014 میں جاری کیا تھا۔
کینیڈا میں 1854 میں تین مسلمان آباد تھے۔
1871 میں 13/، 1901 میں / 74، 1911 میں / 797، 1921 میں / 478، 1981 میں / 5,800،
1991 میں / 253,260، 2001 میں / 579,640، 2011 میں / 1,053,945،
2021 میں 1,775,710۔ یعنی قریب دو ملین۔
مسلمانوں کی 1921 میں تعداد کم ہو گئی تھی اس کی وجہ شاید یہ تھی چو نکہ ان مسلمانوں کی اکثریت عثمانی سلطنت سے آئی تھی جس نے برطانیہ کے خلاف پہلی جنگ عظیم لڑی تھی اس لئے ممکن ہے کئی ایک کو ڈیپورٹ کر دیا گیا تھا۔ امریکہ میں 1952 میں جو مسلم کانفرنس IOWAمنعقد ہوئی تھی اس میں کینیڈا سے چار سو مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ شروع شروع میں جو مسلمان یہاں آتے تھے ان کے عربی نام مقامی لوگ جب بلا نہیں سکتے تھے تو ان کے نام کینیڈین نام رکھ دیے جاتے تھے جیسے برائن، ہنری، مائیک، رابرٹ، محمد کا مخفف Mo۔ راقم مضمون ٹورنٹو 1973 میں آیا تھا مگر آفس میں میرا نام زکریا سے Zak کر دیا گیا۔
کینیڈا کا پہلا افریقی مسلمان
بنین میں پیدا ہونے والا پہلا تعلیم یافتہ سیاہ فام مسلمان Mahommah Baquaqua برازیل سے 1845 میں لا یا گیا، وہاں سے 1847 میں نیویارک۔ وہاں سے وہ فرار ہو کر انڈر گراؤنڈ ریل کے ذریعہ 1850 میں اونٹاریو (اَپر کینیڈا) آیا تھا۔ کہتے ہیں کہ 1854 میں وہ اونٹاریو کے شہر چے ٹم Chatham میں رہائش پذیر تھا۔ یہ شہر مفرورافریقی غلاموں کے پناہ گاہ کے طور پر مشہور تھا۔ یہاں اس نے اپنی بیو گرافی The Biography of Mohammah Baquaquaقلم بند کی تھی۔ یہ بیوگرافی یو نیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا نے اس سال شائع کی ہے۔
کینیڈا کی پہلی مسجد
کینیڈا میں پہلی مسجد ایڈمنٹن میں دسمبر 1938 کو تعمیر ہوئی تھی جس کا نام الرشید مسجد تھا۔ اس وقت یہاں 700 (البانین اور بوزنین ) یورپین مسلمان آباد تھے۔ اس کی تعمیر میں لبنان کی خاتون ہلوی ہمڈون Hilwie Hamdon نے جانفشانی سے اہم کر دار ادا کیا تھا۔ اس نے البرٹا کے ہر مذہب اور قوم سے تعلق رکھنے والے افراد سے چندہ لیا اور یوں کینیڈا میں اسلام کی تاریخ میں سنہری باب رقم کیا۔ اس کو اس ضمن کیا پاپڑ بیلنے پڑے اس کی تفصیل مری ہاگبن کی کتاب میں درج ہے۔ اس مسجد کا افتتاح مشہورانگلش مترجم و مفسر قرآن سر عبد اللہ یوسف علی ( ( 1872۔ 1953 نے کیا تھا جو یو نیورسٹی آف البرٹا میں لیکچر دینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔
ایڈ منٹن میں 1980 کے شروع میں سولہ ہزار مسلمان یہاں مقیم تھے۔ اس لئے بڑھتی آبادی کے پیش نظر جب مسلمانوں کے لئے پہلی مسجد چھوٹی ہو گئی تو پرانی عمارت کو کسی اور جگہہ پر لے جا کر محفوظ کر نے کے لئے فنڈ ریزنگ شروع کی گئی اور جلد ہی $ 75,000 ڈالر جمع ہو گیا۔ اوریجنل مسجد کو ڈس مینٹل کر کے اس کو دوبارہ احتیاط سے جوڑا گیا اور فورٹ ایڈ منٹن پارک میں اس کو ہسٹارک سائٹ کے طور پر محفوظ کر لیا گیا۔ نئی مسجد کا افتتاح مئی 1992 کو ہوا تھا۔ اس وقت اینڈمنٹن میں ایک لاکھ مسلمان رہتے ہیں جن کا تعلق 62 کلچرزسے ہے۔
اس کے بعد کینیڈا کی دوسری مسجد لندن (اونٹاریوکی پہلی) میں 1957 میں تعمیر ہوئی تھی۔ لنڈن مسلم ماسک اس وقت آکسفورڈ سٹریٹ ویسٹ پر واقع ہے۔
ٹورنٹو میں پہلی مسجد
ساٹھ کی دہائی میں ٹورنٹو میں مسلمانوں کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی۔ نوے کی دہائی میں یہ تعداد قریب دولاکھ سے اوپرتک پہنچ گئی۔ ٹورنٹو میں اسلامک سینٹر یا پہلی مسجد ڈانڈاس سٹریٹ ویسٹ پر (اس علاقے کو جنکشن ایریا بھی کہا جاتا ہے ) 1961 میں کھلی تھی۔ اس ورک شاپ عمارت کو خریدنے میں البانین مسلمانوں (البانین مسلم سوسائٹی) نے خطیر رقم دی تھی۔ دراصل یہ عمارت سٹور فرنٹ بلڈنگ تھی جو کسی وقت چمڑے کی دکان تھی۔ اس کا نام اسلامک سینٹر تھا اور کئی سال تک اس کو Mosque one بھی کہا جاتا رہا۔ عمارت کے اندر دیوار پر مینار اور گنبد پینٹ کیے گئے تھے۔ سنڈے میٹنگز ہر اتوار کو ہوتی تھیں۔ جمعہ اس وقت نہیں ہوتا تھا کیونکہ جو بھی مسلمان یہاں مقیم تھے ان کی اکثر یت طالبعلم یا ملازمت کرتی تھی۔ اتوار کے روز تمام حاضرین با جماعت نماز ادا کرتے تھے۔ بچوں کی کلاس عالیہ رؤف لیتی تھیں۔ دونوں عیدین بھی یہاں منائی گئیں جس میں احباب گھروں سے کھانا لاتے تھے۔
اس وقت مسلم سوسائٹی آف ٹورنٹوکے سیکرٹری نو مسلم مسٹر مری ہاگ بینMurray Hogben تھے جو سی بی سی ریڈیو میں ملازم تھے۔ اس دور کا مشہور واقعہ امریکہ سے عالمی شہرت یافتہ مسلمان میلکم ایکس کی ٹورنٹومیں آمد ہے جو سی بی سی ریڈیوکے پروگرام فرنٹ پیج چیلنج میں شرکت کے لئے آیا تھا۔ 1964 میں میلکم ایکس دوبارہ ٹورنٹو آیا اور مسلم سینٹر میں پاکستانی، باسنین، انڈین، عرب مسلمانوں سے ملاقات کی۔ اگلے سال اس کو کسی سفاک نے قتل کر دیا۔
مسلم سوسائٹی آف ٹورنٹو نے 1969 میں کنگ فیصل اور البانین مسلمانوں کی مالی مدد سے ہائی پارک محلہ میں Boustead Ave 56 پر ایک چرچ خرید لیا اور اس کو جامع مسجد کا نام دیا گیا۔ یوں یہ صحیح معنوں میں ٹورنٹو کی پہلی مسجد تھی۔ تبلیغی جماعت کے داعی اکثر یہاں آ کر قیام کرتے اور کھانے پکاتے تھے۔ غیر ممالک سے آئے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور تنظیموں سے وابستہ اختلافات کے پیش نظر مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن نے یہ عمارت خرید لی۔ مسٹرراجب عاصم ( افندی) جو 1912 میں کینیڈا آئے تھے اور کامیاب بزنس مین تھے انہوں نے مسلمانوں کی ہر رنگ میں ہر قدم پر مدد کی۔ وہ اس وقت یہاں البانین مسلم سوسائٹی کے امام تھے، مسجد کی سب سے اونچی کھڑکی سے کبوتروں سے نجات پانے کے لئے سیڑھی پر کھڑے تھے ِگرگئے اور 1972 میں موت کی آغوش میں چلے گئے۔
کروایشن کمیونٹی (نیا نام بوسنین اسلامک سینٹر) نے 1973 میں ٹورنٹو کے علاقہ ایتھوبی کوک میں مسجد تعمیر کی۔ یہ پہلی مسجد تھی جس کے ساتھ مینارہ بھی بنا یا گیا تھا۔ یوگنڈا سے 1972 میں مسلمانوں کے انخلاء کے بعد اسماعیلی کمیونٹی 600 سے بڑھ کر 6,600 ہو گئی۔ انہوں نے جما عت خانہ 1968 میں تعمیر کیا۔ شاندار عمارت والے آغا خاں میوزیم کو اس وقت ہز اروں لوگ وزٹ کرتے ہیں۔ ستر کی دہائی کے آخر میں اثنا ء عشری شیعہ جماعت نے تھارن ہل میں مسجد اور جعفری کمیو نٹی سینٹر تعمیر کیا۔ وان مسجد بیت الاسلام کا افتتاح 1992 میں ہوا تھا۔
کینیڈا میں مسلمان، نئی کتاب
چار سال قبل ٹورنٹو سے ڈاکٹر مری ہاگبین (پیدائش 1935 ) کی کتاب ”منا ریٹس آن دی ہورایزین، مسلم پائینیرز اِن کینیڈا“ شائع ہوئی تھی۔ تصاویر سے مزین تین سو صفحے کی اس کتاب میں کینیڈا کے مختلف شہروں وین کوور، ایڈمنٹن، لا لا بیچ، سیس کچوان، ونی پیگ، ونڈسر، لندن، ہملٹن، نیاگر ا ریجن، ٹورنٹو، کنگسٹن، اٹاوہ، مانٹریال، ٹرورو (نووا سکوشیا) ، سینٹ جانز (نیو فاؤنڈ لینڈ) میں اسلامک سو سائٹیزکے
قیام، مساجد کی تعمیر اور ان کے حالات پر جامع رنگ میں نہایت محنت اور ریاضت سے تاریخ رقم کی گئی ہے۔ ہر شہر میں پہلا مسلمان کو ن آیا، وہاں اسلامک سوسائٹی کیسے قائم ہوئی اور کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس کے حالات اس کی زبانی ہی فرسٹ پرسن میں بیان کیے گئے ہیں۔ مصنف نے بڑی مشقت سے تمام لوگوں کے انٹرویوز ٹیپ ریکارڈ کیے تھے اور اس کے لئے لمبے سفر کر کے ہر شہر میں خود گئے۔ ٹورنٹو میں وہ 1958 میں آئے تھے اس کے لئے کئی تاریخی واقعات کے وہ عینی شاہد ہیں۔ بہ حیثیت جر نلسٹ وہ ریڈیو اور اخباروں سے منسلک رہے۔ راقم مضمون کو ان سے ملنے اور ان کے گھر جانے کا بھی موقعہ ملا جہاں ان کی وسیع لائبریری انسان کو متاثر کرتی تھی۔ کئی سال تک وہ اپنے کنگسٹن سے مشرق میں واقع فارم ہاؤس پر گرمیوں میں پر شوکت پکنک کا انتظام کر تے رہے۔ ایک نو مسلم کی حیثیت سے کینیڈا میں جس بے لوث رنگ میں انہوں نے اسلام اورمسلمانوں کی پچھلے 65 سالوں میں خدمت اور نمائندگی کی ہے وہ فقید المثال ہے۔
ٹورنٹو میں اسلامک سینٹرز اور مساجد
دسمبر 2024 میں کینیڈا میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 458 مسجدیں اور اسلامک سینٹرز پائے جاتے ہیں۔ ان میں وہ عمارتیں بھی شامل ہیں جہاں صرف نمازیں ادا کی جا تی ہیں۔ وکی پیڈیا پر ان کی فہرست دیکھی جا سکتی ہے۔ اونٹاریو میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد 581,950 ہے۔ ٹورنٹو جہاں سب سے زیادہ مسلمان قریب چا ر لاکھ پائے جاتے ہیں اس میں 100 مساجد (جیسے مسجد عمر ابن الخطاب، جامع مسجد، ابو ہر یرہ سینٹر، جنت الفردوس مسجد، البا نین مسلم سو سائٹی، صلاح الدین اسلامک سینٹر، خالدبن الولید مسجد، مدینہ مسجد، مسجد بیت لاسلام) پائی جاتی ہیں۔ مسز ساگا شہر میں 2021 مردم شماری کے مطابق 41,025 یعنی 17 %آبادی مسلمان تھی۔ وہ لوگ جنہوں نے خود کو ہندوستانی ظاہر کیا ان کی تعداد 180,295 تھی۔ وہ لوگ جنہوں نے خود کو پنجابی لکھا ان کی تعداد 57,075 تھی۔ ٹورنٹو میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد پرانی ہائی رائز اپارٹمنٹ ٹاورز میں تھارن کلف پارک ڈرائیو اور سکار برو میں رہتی ہے۔ مسز ساگا میں بھی بڑی تعدادمیں پاکستانی آباد ہیں جس کی بناء پربعض لوگوں نے اس کا نام پیار سے مسز آغا رکھا ہوا ہے۔ برامپٹن میں 2011 میں 36,960 مسلمان آباد تھے۔ اس شہر میں 25 مساجد اور مصلی ٰ پائے جاتے ہیں۔
ٹورنٹو، مسز ساگا، برامپٹن، سکار برو میں پرائیویٹ اسلامک سکولز ( جیسے الا یمان سکول، ہادی ایلی مینٹری سکول، مسلم گرلز سکول )
بھی قائم ہیں جہاں طلباء کودینی تعلیم کے ساتھ سرکاری سکولوں کا نصاب بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اسلامک سکولز میں ڈانس اور میوزک کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ان دینی سکولوں میں عربی لازمی مضمون ہے۔ طلباء مسجد میں یا سکولوں میں ہی نمازیں ادا کرتے ہیں۔
کیوبک میں مسلمان
کینیڈا کے فرنچ سپیکنگ صوبے کیوبک میں پردے اور لباس پر سخت قوانین کے باوجود صوبے میں 243,430 مسلمان آباد ہیں۔
یہاں 1901 میں صرف دس مسلمان تھے مگر 70 سال بعد یہ تعداد 8,380 ہو گئی۔ ما نٹریال میں پہلی مسجد 2520 Laval Road کا افتتاح 1967 میں ہوا تھا۔ امیگریشن میں نرمی کے بعد انڈیا پاکستان سے مسلمان یہاں آنے شروع ہوئے تو مسجد کی توسیع کا منصوبہ بنایا گیا۔ جنوری 1973 میں تو سیع شدہ مسجد میں نمازیں ادا کی جانے لگیں۔ اس وقت مانٹریال میں 20 کے قریب مساجد پائی جاتی ہیں۔ کیو بک سٹی میں جنوری 1997 میں ایک درد ناک واقعہ رونما ہوا جب ایک سفید فام شدت پسند نے چھ نمازیوں کو مسجد کے اندر گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔
مانٹریال کی مشہور یو نیورسٹی میگل کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ ( 1952 ) میں عیدین کی نمازیں کسی زمانے میں ہوا کرتی تھیں۔ مسلمان اپنے شادیاں اور ولادتیں چرچ میں رجسٹر کروایا کرتے تھے۔ انسٹی ٹیوٹ میں 1950 کی دہائی کے آخر میں یہاں دو مشہور زمانہ مسلمان سکالرپروفیسر تھے یعنی اسلامی محقق و مصنف پروفیسر فضل الرحمن ( 1919۔ 88 ) اور ڈاکٹر اسماعیل فاروقی۔ دونوں اپنے وقت میں اسلامک سینٹر آف ما نٹریال (بعد میں یہ نام اسلامک سینٹرآف کیوبک ہو گیا) کے صدر رہے تھے۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر 1958۔ 59 فاضل مصنف ڈاکٹر ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ تھے۔
کیوبک میں 2019 میں سکیو لر ازم لاء Bill 21 لاگو ہوا تھا جس کے مطابق ٹیچرز، ججز، پو لیس افسران کوریلجس سمبلز (بر قعہ، حجاب اور جیوایش کپا، سکھ پگڑی، کرپان) پہننے پر پابند ی ہے۔ اس کا مقصد صوبے میں سکو لزازم کو مضبوط کرنا ہے اس لئے پبلک سکولوں میں ریلجین کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
کینیڈا میں مسلمانوں کا مستقبل خوش آئند ہے۔ جو سیکنڈ یا تھرڈ جنریشن کے بچے اپنے والدین کے مذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔ مسجدیں آباد ہیں، اسلامک سکولز (مدرسے ) بھی سرعت سے کام کر رہے ہیں۔
() () ()
کتابیات
Murray Hogben, Minarets on the Horizon, Muslim pioneers in Canada, Toronto 2021
Amir Hussain, The Canadian Face of Islam, Ph.D thesis, University of Toronto 2001
- مسلمان کینیڈا کب اور کیوں آئے؟ - 03/05/2025
- ڈاکٹر عبدالسلام کا ادبی ذوق - 03/03/2025
- ڈاکٹر عبدالسلام کی وجد آفریں زندگی کے 29 خرد افروز واقعات - 05/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).