پرانے زمانے کے بابے اور معصوم عاشق
پرانے زمانے کی باتیں سن کر کبھی کبھار ایسا لگتا ہے جیسے اس وقت ہر طرف محبت ہی محبت تھی، لوگ دودھ اور شہد کی نہریں بہا رہے تھے، اور سب کے سب اتنے سادہ اور ایماندار تھے کہ اگر کسی نے رستے میں گرا ہوا سونا بھی دیکھا تو اٹھانے کی بجائے جاکر اعلان کرواتا تھا، ”بھائیو! ، یہ کسی کی امانت پڑی ہے، اللہ کے واسطے کوئی ایماندار بندہ اسے اس کے مالک تک پہنچا دے۔“
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ پرانا زمانہ صرف گانوں میں ہی اچھا تھا! مثلاً یہ گانا دیکھیں :
”نہ سونا، نہ چاندی، نہ کوئی محل“
ارے بھائی، کچھ تو ہو! بس محبت کے سہارے زندگی گزارنے چلے ہو؟ آج اگر کوئی عاشق کہے، ”نہ سونا، نہ چاندی، نہ کوئی محل، میں تم کو دے سکوں گا، مگر میری محبت سچی ہے!“ تو لڑکی کہے گی، ”چلو بھائی، محبت اپنی جگہ مگر پہلے کم از کم کوئی کریانہ کی دکان ہی کھول لو، کھانا پینا بھی تو ہے بعد میں رومینٹک باتیں کرنا۔“
اب آتے ہیں ان پرانے زمانے کے بابوں کی طرف، جن کا بس چلے تو نوجوان نسل کو صرف پرانی یادیں کھلا کر زندہ رکھیں۔ مہنگائی کا ذکر چھیڑتے ہی ایک بابا جی فوراً اپنے دور کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں :
”ارے بیٹا، تم کیا جانو، ہمارے وقت میں تو آٹھ آنے کا سگریٹ کا پیکٹ آتا تھا۔“
اب کچھ ناسمجھ نوجوان فوراً متاثر ہو جاتے ہیں، مگر ایک سیانا بندہ ان سے پوچھ لیتا ہے،
”بابا جی، اُس وقت آپ کی تنخواہ کتنی تھی؟“
بس پھر بابا جی گڑبڑا جاتے ہیں، کھانسی آنے لگتی ہے، اور آہستہ سے جواب دیتے ہیں، ”بیٹا، پورے دس روپے ماہانہ۔“
یعنی اگر وہی حساب آج لگائیں، تو اس وقت کا سگریٹ آج کے حساب سے بھی مہنگا نکلے گا مگر یہ بابے پھر بھی اپنی بے تحاشا عقلمندی ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں، جیسے کہ
”ہمارے زمانے میں محبت سچی ہوتی تھی، آج کل تو پیسہ دیکھ کر محبت کی جاتی ہے۔“
ارے بھائی، اگر محبت سچی تھی، تو پھر ”ایک بنگلہ بنے نیارا، رہے کوئی اس میں پیارا“ جیسے گانے کون لکھ رہا تھا؟ کس کے لیے بنگلے بن رہے تھے؟ آپ کے سچے عاشق تو ”نہ سونا، نہ چاندی“ کا راگ الاپ رہے تھے نا؟
پرانے وقتوں میں جو عاشق ہوتے تھے، وہ ایسے معصوم تھے کہ محبوبہ کہتی تھی،
”تارے توڑ کر لاؤ گے؟“ تو یہ ہاں کر دیتے تھے۔ حقیقت میں چاند کو دیکھ کر آہیں بھرتے تھے، سائنس کا کچھ علم نہیں تھا، ورنہ کہتے، ”بی بی، چاند تک پہنچنے کے لیے ناسا کا بجٹ بھی کم پڑتا ہے، اور تمہیں اپنے شوق کے لئے تارے توڑ کر دینا ہیں؟“
پرانے وقتوں میں رئیلٹی چیک کا فقدان تھا۔ دل دے بیٹھتے تھے، پھر محبوبہ کے والد آ کر جوتا چلاتے تھے اور یہ ”یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں“ گاتے ہوئے گلی کے نکڑ پر سگریٹ پھونکتے تھے۔
مگر بابا جی کی دنیا اب بھی وہیں اٹکی ہوئی ہے۔ وہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ پرانے زمانے کے عاشق سب سے زیادہ وفادار اور بے غرض ہوتے تھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت لوگوں کے پاس کوئی اور آپشن ہی نہیں تھا۔
آج اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو بولے، ”تم نے ہاں نہ کی تو میں تمہارے بغیر مر جاؤں گا“ تو آگے سے لڑکی کہے گی ”بھائی جی، میڈیکل سائنس بہت آگے جا چکی ہے، نفسیاتی ڈاکٹر سے بات کر لو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
تو جناب، پرانا زمانہ واقعی ایک سہانا خواب تھا، مگر حقیقت میں ایسا بھی کوئی دودھ اور شہد کا دریا نہیں بہہ رہا تھا۔ ہاں، جذبات کی بہتات تھی، ریئلزم کی کمی تھی، اور آج کل کے نوجوان اتنے برے نہیں، بس ریئلسٹک ہیں۔
پرانے زمانے کے بارے میں ہر بابا جی اپنی کہانی ایسے سناتے ہیں جیسے وہ وقت جنت تھا اور ہم سب کسی غلطی سے اس وقت میں دنیا میں آ گئے ہیں۔ بس اگر کبھی نوجوانوں کو واقعی پرانا زمانہ دکھانے کا موقع ملے، تو وہ پانچ منٹ میں واپس بھاگ آئیں، کیونکہ نہ موبائل ہو گا، نہ وائی فائی، اور نہ ہی نیٹ فلکس، پھر مزہ آئے گا، جب بابا جی کہیں گے،
”بیٹا، چٹھی لکھ کر بھیج دو!“
اور ہم کہیں گے،
”بابا جی، وٹس ایپ ویڈیو کال نہیں کر سکتے؟“
اور بابا جی سر پکڑ کے بیٹھے ہوں گے۔
- مونی کے جنگی کارنامے - 10/05/2025
- پرانے زمانے کے بابے اور معصوم عاشق - 02/05/2025
- مصری کا ڈبہ۔ ایک پراسرار داستان - 23/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).