ایران کے دارالحکومت سے
باقر العلوم یونیورسٹی ایران کی دعوت پر ایران روانہ ہو چکا ہوں کہ جہاں پر انسانی حقوق پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہونا ہے اور مجھے ”مشرق میں انسانی حقوق کے تصور“ کے موضوع پر اپنا مقالہ پڑھنا ہے۔ مگر اس سے قبل لاہور میں چین کی جانب سے منعقدہ پہلے فلم فیسٹیول میں شرکت کی جو کہ چینی قونصلیٹ لاہور، انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ، جس کا میں چیئرمین ہوں، اور پنجاب انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر کیا گیا تھا۔
لاہور آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے برصغیر میں فنون لطیفہ کا مرکز رہا ہے اور اس ہی سبب سے اہالیان لاہور نے اس فلم فیسٹیول میں بھرپور شرکت کیں۔ معروف ادا کار غلام محی الدین سمیت پاکستانی شوبز انڈسٹری کے ستارے بھی موجود تھے۔ چینی فلموں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا کہ جس میں کلچر سے لے کر مختلف موضوعات کو پیش کیا گیا۔ چینی قونصل جنرل لاہور زاؤ شیرین بہت متحرک ہے اور انہوں نے اس فیسٹیول کا انعقاد دونوں برادر ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کی مضبوطی کے لئے کیا۔ اگر پاکستانی فلم انڈسٹری کو چینی سنیما گھروں میں صرف ایک فیصد بھی حصہ مل جائے تو ہماری فلم انڈسٹری دوبارہ پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔
بہرحال اب ایران میں موجود ہوں اور رات گئے پرواز کی روانگی تک ڈی جی خانہ فرہنگ ایران مسعودی رابطے میں رہے، بہت متحرک شخصیت ہے ویسے ایران کی فلم انڈسٹری سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایران کی سرزمین پر اترا تو وہاں پر بھی پاکستان انڈیا کشیدگی موضوع بحث بنی دیکھی۔ ایک ایرانی دوست نے سوال کیا کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ جواب دیا کہ بر صغیر عشروں تک برطانوی نوآبادیات رہا اور جہاں پر نو آبادیاتی نظام کے بہت سارے زخم برصغیر کی سوسائٹی کو لگے وہی پر جاتے جاتے وہ کشمیر جیسے معاملہ کو بھی بغیر کسی حتمی فیصلے کے چھوڑ گئے۔ جب دونوں نوزائیدہ ممالک آپس میں الجھ پڑے تو انڈیا اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا اور وہاں پر دونوں ممالک کی رضا مندی سے یہ فیصلہ ہوا کہ کشمیری عوام کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا انڈیا ان کو قبول ہیں۔ بد قسمتی سے سلامتی کونسل کی اس قرار داد پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا اور یہ آج بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ اس عمل درآمد نہ ہونے کے سبب سے پاکستان اور انڈیا کے مابین جنگیں ہوئی اور یہ تو طے شدہ حقیقت ہے کہ جنگیں خود مسئلہ ہوتی ہیں، مسئلہ کا حل نہیں ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں کشمیر میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی چلی گئی۔ سیاست سے مایوسی ہوئی تو ایک کشمیری طبقے نے ہتھیار اٹھا لئے۔ جس پر انڈیا نے موقف اختیار کیا کہ ان مسلح افراد کو پاکستان بھیجتا ہیں اور یہ پاکستانی لوگ ہیں۔
جبکہ پاکستان کا یہ موقف ہے کہ انڈیا گزشتہ کوئی چار عشروں سے کشمیر میں فوجی آپریشن کر رہا ہے مگر آج تک انڈیا اپنے دعووں کے مطابق پاکستانیوں کو کشمیر میں کسی جھڑپ میں مار کر یا گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش نہیں کر سکا ہے اور جو کوئی بھی کشمیر میں انڈین فوج سے لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں ان تمام کی قبروں سے لے کر لواحقین تک سب کشمیر میں ہیں۔ اگر یہ لوگ پاکستانی ہوتے تو ان کی قبروں سے لے کر لواحقین تک کوئی تو پاکستان میں ہوتا۔
اس سارے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی پہلگام میں ہوئے انتہائی افسوس ناک دہشت گردی کے واقعہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے اور پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے تمام مستقل اور غیر مستقل اراکین نے اس کی مذمت کی ہیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کا اس اندوہناک سانحہ کے وقوع پذیر ہونے والے دن سے یہ موقف رہا ہے کہ انڈیا کے پاس اگر پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود ہے تو وہ اس کو پاکستان سے شیئر کرے یا عالمی برادری کے ساتھ شیئر کرے۔ پاکستان کی جانب سے کسی بھی غیر جانبدارانہ بین الاقوامی کمیشن کے تحت تحقیقات میں مکمل طور پر تعاون کی پیش کش بھی کی جا چکی ہے جو کہ کسی کمزوری پر محمول نہیں بلکہ انڈیا کے دعووں کی حقیقت عالمی برادری کے سامنے لانے کی مناسب حکمت عملی ہے۔
اس واقعہ کے بعد انڈیا کی جانب سے سندھ طاس پانی کے معاہدے کو معطل کرنے کا اقدام سامنے آیا جس پر پاکستان نے یہ رد عمل دیا کہ اگر پانی کے سمجھوتے کو یک طرفہ طور پر ختم کیا گیا اور پانی روکا گیا تو اس کو اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کو روکنا ممکن ہی نہیں ہے کیوں کہ اس وقت پانی کو کیسے روکا جائے گا؟ پانی کو کہاں ذخیرہ کیا جائے گا؟ ذخیرہ شدہ پانی کو استعمال کرنے کے لئے کون سا نہری نظام موجود ہیں؟
ان تمام کا جواب نفی میں آتا ہے اور اس سبب سے پانی کو روکنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح سے دونوں ممالک کسی بڑے فوجی تصادم کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا کے پاس افرادی عسکری طاقت پاکستان سے زیادہ ضرور ہے مگر اس کو اس میں سے ایک معقول حصہ چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر رکھنا پڑتا ہے اور انڈیا کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر سے فوج ہٹا لے جبکہ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک ایران اور چین کی سرحد پر ایک بھی فوجی کی ضرورت نہیں ہے اور افغانستان اس قابل نہیں ہے کہ اس کی جانب سے پاکستان کو کوئی فوجی حملے کا خطرہ ہو۔ موجودہ صورتحال میں مکالمہ ہی واحد راستہ ہے۔
- ایران کی دو یونیورسٹیوں میں تقاریر - 08/05/2025
- ایران کے دارالحکومت سے - 04/05/2025
- ترکی اور سعودی عرب سے تجارت نہ بڑھنے کی وجہ - 30/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).