چند پرانی یادیں : ڈاکٹر عبدالسلام سے ملاقات


Loading

suhail zubairy

ایک دن، دسمبر 1984 میں، جب مجھے قائداعظم یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر شامل ہوئے بمشکل تین ماہ ہوئے تھے، مجھے اٹلی کے شہر Trieste میں International Center for Theoretical Physics (ICTP) کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا۔ یہ دعوت نامہ Winter College in Optics میں فری الیکٹرون لیزر (Free Electron Laser) کی کوانٹم خصوصیات پر لیکچرز کی ایک سیریز دینے کے لیے تھا جو فروری 1985 میں منعقد ہونا تھا۔

قائداعظم یونیورسٹی جوائن کرنے سے پہلے، میں نے پچھلے چند سال فری الیکٹرون لیزر کے نظریاتی پہلوؤں پر تحقیق کرنے کے لیے وقف کیے تھے۔ یہ دعوت نامہ اس غیر معمولی قسم کے لیزر پر میرے تحقیقی کام کی ایک طرح کی پہچان تھی۔ یہاں میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے لیزر کے ساتھ ساتھ فری الیکٹران لیزر کے کام کو بھی مختصراً بیان کرتا ہوں۔

لیزر روشنی کا ایک نیا ذریعہ ہے جو روشنی کے ان روایتی ذرائع سے بہت مختلف ہے جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں جیسے کہ چراغ یا روشنی کا بلب۔ ان روشنی کے ذرائع میں ایٹموں کو کچھ بیرونی ذرائع جیسے بجلی سے توانائی فراہم کی جاتی ہے۔ جب بجلی کا کرنٹ روشنی کے بلب کے اندر ایک پتلی ٹنگسٹن تار سے گزرتا ہے، تو کچھ ایٹم زیادہ توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اعلی توانائی کی حالت میں یہ ایٹم پھر نچلی توانائی کی حالت میں کود سکتے ہیں۔

اس عمل میں روشنی خارج ہوتی ہے اور ہم بلب کے ارد گرد تمام سمتوں میں روشنی کی شعائیں دیکھتے ہیں۔ اس عمل میں برقی رو سے توانائی حاصل کر کے پرجوش ایٹم اپنے طور پر نچلی سطح پر چھلانگ لگاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر ایٹم دوسروں سے آزادانہ طور پر شعاع خارج کرتا ہے اور ہر شعاع کا رنگ مختلف ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بلب سے نکلنے والی روشنی میں قوس و قزح کے سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں اور یہ تمام رنگ مل کر سفید روشنی بناتے ہیں۔ چونکہ تمام ایٹموں سے نکلنے والی روشنی ایک دوسرے سے مکمل آزاد ہوتی ہے اس لیے ان شعاؤں کی کوئی ترجیحی سمت نہیں ہوتی ہے۔ خارج ہونے والی روشنی تمام سمتوں میں پھیل جاتی ہے۔ اس طرح ایک لائٹ بلب پورے کمرے کو روشن کر دیتا ہے۔

ایک روایتی لیزر میں، توانائی کے ذرائع بھی ایٹم اور مالیکیول ہوتے ہیں۔ جب ایٹم اعلی توانائی کی حالت سے کم توانائی کی حالت میں چھلانگ لگاتے ہیں تو روشنی خارج ہوتی ہے۔ ایک لیزر میں، ایک خصوصی ڈیزائن کے ذریعے اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ، ہر ایٹم سے نکلنے والی روشنی دوسرے ایٹموں کو ایک ہی رنگ اور ایک ہی سمت کے ساتھ شعاع پیدا کرنے کے لیے متحرک کر سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لیزر لائٹ انتہائی یک سمت اور واحد رنگ کی ہوتی ہے۔ چونکہ تمام روشنی صرف ایک سمت میں بھیجی جاتی ہے، لیزر روشنی کی شعاع کافی طاقتور ہوتی ہے۔

فری الیکٹرون لیزر بہت مختلف اصول پر کام کرتا ہے۔ سائنسدان تقریباً دو سو سالوں سے جانتے ہیں کہ جب الیکٹرون کی رفتار تیز تر کی جائے تو وہ تابکاری کو جذب کرتے ہیں اور جب اس رفتار کو کم کیا جائے تو وہ تابکاری خارج کرتے ہیں۔ الیکٹرون کو مناسب شکل والے مقناطیس سے گزار کر تیز یا سست کیا جا سکتا ہے۔ ایک فری الیکٹران لیزر میں، الیکٹرون کی ایک بیم کو مقناطیس کی ایک مخصوص ترتیب میں اس طرح بھیجا جاتا ہے کہ خارج ہونے والی روشنی صرف ایک سمت میں پیدا ہوتی ہے اور اس کا صرف ایک رنگ ہوتا ہے۔ اس طرح، خارج ہونے والی روشنی میں بظاہر وہی خصوصیات ہوتی ہیں جو ایک عام لیزر کی ہوتی ہیں۔

ابتدائی طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ فری الیکٹران لیزرز کی تمام خصوصیات کو فزکس کے ان قوانین کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے جو کوانٹم تھیوری سے پہلے وضع کیے گئے تھے۔ تاہم، 1982 سے 1984 کے عرصے میں شائع ہونے والے ریسرچ مقالوں کی ایک سیریز میں، میں اور میرے ساتھیوں نے دکھایا کہ اگر فری الیکٹرون لیزر کا کوانٹم میکانکس کے فریم ورک کے اندر تجزیہ کیا جائے، تو فری الیکٹران لیزر کی کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو عام لیزر میں نہیں پائی جاتیں۔ یہ تحقیقی مقالے کافی مشہور ہوئے کیونکہ میں نے فری الیکٹرون لیزر میں جن اثرات کی پیشن گوئی کی تھی وہ بہت اہم اور دلچسپ تھے۔ مجھے ان نتائج کو اٹلی کے شہر Trieste میں منعقد ہونے والے Winter College of Optics میں پیش کرنے کے لیے مدعو کیا جا رہا تھا۔

ICTP کی بنیاد پاکستانی نژاد سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے 1964 میں رکھی تھی۔ ان کو دنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں کی صف میں شامل کیا جاتا ہے۔ کائنات میں موجود دو قوتوں، electromagnetic force اورweak nuclear forceکو ایک فورس کی شکل میں یکجا کر نے پر انہیں 1979 میں فزکس کا نوبل انعام ملا تھا۔ ان کا ایک اور بہت اہم کارنامہ ICTPکا قیام تھا۔ اس سینٹر نے تیسری دنیا میں فزکس کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

ICTP سائنسی تعاون کا ایک بین الاقوامی مرکز تھا، اور شاید اب بھی ہے۔ اس کا کردار تیسری دنیا کے ممالک کے سائنسدانوں کو ترقی یافتہ ممالک کے سائنسدانوں کے ساتھ تعاون کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اس سینٹر میں فزکس کے مختلف شعبوں میں سائنسی ورکشاپ اور سمپوزیم سال بھر منعقد ہوتے رہتے تھے۔ ان سرگرمیوں میں زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک کے طلباء اور سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ یورپ کے کچھ طلباء بھی شرکت کرتے تھے۔ لیکن مقررین کا تعلق تقریباً ہمیشہ مغربی ممالک سے ہوتا تھا۔

ان سرگرمیوں کے علاوہ، ICTP کا مقصد تیسری دنیا کے ممالک کے ان بہت سے سائنسدانوں کو ایک ماہ سے لے کر کئی مہینوں تک ICTP کا دورہ کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا جن کے پاس بین الاقوامی سطح پر سائنسی collaborationکی سہولت موجود نہیں تھی۔ ان دوروں کے دوران وہ نہ صرف سمپوزیم اور کانفرنسوں میں شرکت کر سکتے تھے بلکہ سائنس میں ترقی یافتہ ممالک سے آنے والے سائنسدانوں کے ساتھ سائنسی تعلق استوار کر سکتے تھے۔ یہ مغرب اور مشرق کے سائنسدانوں کی ملاقات کا مرکز بن گیا۔ اس طرح اس سینٹر نے سائنسی طور پر پسماندہ ممالک کے

بہت سے سائنسدانوں کی سائنسی تنہائی کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں بہت سے یونیورسٹی پروفیسر جن میں سے کافی کا تعلق قائداعظم یونیورسٹی سے تھا، بحیثیت سائنٹسٹ اپنی بقا کے لیے ڈاکٹر عبدالسلام کے بنائے گئے اس سنٹر کے مرہون منت تھے۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے ICTP میں ایک پروگرام ترتیب دیا تھا جس کے تحت تیسری دنیا کے ممالک کے ان سائنسدانوں کو فیلو کا درجہ دیا جاتا تھا جو سائنسی تحقیق میں سرگرم تھے۔ ایک فیلو کو چھ سال کی مدت میں تین بار ICTP کا دورہ کرنے کی اجازت تھی، ہر دورہ تقریباً تین ماہ کی مدت کے لیے مختص تھا۔ دورے کا وقت مکمل طور پر سائنسدان کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ پروگرام قابل ذکر طور پر بیوروکریسی سے وابستہ پریشانیوں سے پاک تھا۔

جب بھی کسی فیلو کا ارادہ ICTP جانے کا ہوتا تھا، وہ سینٹر میں موجود ایک مخصوص دفتر کو اپنے دورے کے ارادے سے مطلع کر دیتے تھے۔ انہیں فوری طور پر ایک دعوت نامہ بھیج دیا جاتا تھا جسے اطالوی ویزا حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ فلائٹ ٹکٹ کے اخراجات ICTP کی ذمہ داری تھی، ICTP میں سینٹر سے متصل ایک خوبصورت عمارت میں ان کے قیام کے لیے ایک کمرہ فراہم کر دیا جا تا تھا اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک معقول وظیفہ دیا جا تا تھا۔ یہ انتظام حیرت انگیز طور پر آسان اور شفاف تھا۔

فروری 1985 میں آپٹکس کے سرمائی کالج میں لیکچر دینے کے لیے ICTP کا یہ میرا پہلا دورہ تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں سروس کے دوران ICTPسے مجھے دو یا تین بار مزید کسی مخصوص موضوع پر لیکچر دینے کی دعوت موصول ہوئی۔ قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے برعکس، میں کبھی بھی ICTP میں زیادہ مدت کے دورے پر نہیں گیا۔

1985 میں میرے دورے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ سینٹر کے بانی اور ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالسلام سے ملنے کا یہ پہلا موقع تھا۔

عبدالسلام کی یہ روایت تھی کہ وہ کسی بھی ورکشاپ یا سمپوزیم کے لیکچررز کو 5 یا 6 کے گروپ میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کرتے تھے۔ ورکشاپ کے تمام مقررین یا تو یورپی تھے یا امریکی۔ میں ان میں نہ صرف سب سے کم عمر تھا بلکہ میرا تعلق تیسری دنیا کے ملک سے تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میرا تعلق ڈاکٹر عبد السلام کے مادر وطن پاکستان سے تھا۔

دوپہر کے کھانے پر عبدالسلام کے علاوہ جو چند سائنسدان موجود تھے ان میں سے دو ابھی تک مجھے یاد ہیں۔ ایک Bob Hellworth تھے جو میرے دائیں طرف بیٹھے تھے۔ میں ان کو ایسے سائنسدان کے طور پر جانتا تھا جنہیں دنیا کے اول ترین pulsed laser بنا نے کا اعزاز حاصل تھا۔ ان کے پاس Q۔ switching technique کا patent موجود تھا جو دنیا بھر میں تقریباً تمام pulsed laser میں استعمال ہوتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسpatent کی رائلٹی اربوں ڈالر میں تھی لیکن یہ ساری رقم Hughes Aircraft Company کے پاس گئی جہاں انھوں نے اس patent سے وابستہ ریسرچ کی تھی اور pulsed laser بنایا تھا۔

ان کو صرف ایک انعامی شیلڈ ملی جس میں ان کی کامیابی کی تعریف کی گئی تھی۔ دوسرے شخص Rudolfo Bonifacio  تھے جن کو کوانٹم آپٹکس کے شعبے میں سب سے ممتاز اطالوی ماہر طبیعیات تصور کیا جاتا تھا۔ انہوں نے فری الیکٹرون لیزر کے نظریہ پر بھی کام کیا تھا۔ اس طور وہ میری ریسرچ سے بخوبی واقف تھے۔ میرے دورے کے دوران ہم اچھے دوست بن گئے۔

مجھے دوپہر کے کھانے پر ہونے والی گفتگو کی کوئی یاد نہیں۔ مجھے صرف عبدالسلام کی موجودگی کا احساس یاد ہے اور یہ بھی کہ ان کی انتہائی روشن آنکھیں تھیں جن سے انہوں نے لنچ کے دوران کئی مرتبہ میری طرف دیکھا۔ میرا احساس یہ ہے کہ وہ اس پر وقار محفل میں مغربی دنیا کے ممتاز سائنسدانوں کے ساتھ ایک نوجوان پاکستانی کو دیکھ کر قدرے حیران تھے۔

اگلے دن مجھے عبدالسلام کی سیکرٹری کا پیغام ملا کہ وہ مجھ سے اپنے دفتر میں ملنا چاہتے ہیں۔

جب میں ان سے ملنے گیا تو عبدالسلام نے مجھ سے میری تحقیقی دلچسپیوں کے بارے میں پوچھ کر گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے کوانٹم آپٹکس کے شعبے میں وسیع پیمانے پر کام کیا ہے لیکن میں آپٹکس کے سرمائی کالج میں فری الیکٹران لیزر کی کوانٹم تھیوری پر لیکچر دینے آیا ہوں جسے میں نے حال ہی میں دریافت کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے نتائج نے اس قسم کے لیزر میں کچھ نئے اثرات کی نشاندہی کی ہے جو روایتی ایٹمی لیزر میں نہیں دیکھے جا سکتے۔ اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ اثرات تجرباتی طور پر کئی سالوں بعد دیکھے جائیں گے۔ انہوں نے اس کام کے بارے میں مجھ سے چند سوالات پوچھے۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان کی یونیورسٹیوں کی صورتحال کے بارے میں جاننا چاہا اور مجھ سے پوچھا کہ میں نے وہاں کے سائنسی ماحول کے بارے میں کیسا محسوس کیا۔

اس ملاقات میں یہ بات مجھ پر واضح تھی کہ وہ پاکستان سے دور ہونے کے باوجود پاکستانی یونیورسٹیوں میں تعلیم اور تحقیق کے معیار پر گہری تشویش رکھتے تھے۔ وہ میری توقع سے کہیں زیادہ پاکستان کے حالات سے باخبر تھے۔ لیکن مجھے ایک اور احساس یاد ہے اور وہ یہ کہ ان کی شخصیت میں اداسی کا ایک عنصر موجود تھا۔ ان کی زندگی تو اتنی کامیاب تھی اس لیے یہ اداسی مجھے کچھ عجیب سی لگ رہی تھی۔ ان سے گفتگو کے دوران میں یہ محسوس کر سکتا تھا کہ ایک ایسی بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت ہونے کے باوجود جس کی پوری دنیا میں بہت عزت کی جاتی ہے، وہ اس بات پر تکلیف دہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے مادر وطن نے ان کو اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ باہر گزارا تھا مگر ان کے دل کی دھڑکنوں میں اب بھی پاکستان بستا تھا۔

ہماری بات چیت ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہی۔ ہماری ملاقات کے اختتام پر، انھوں نے مجھے اپنی کتاب Ideals and Realities کی ایک آٹوگراف شدہ کاپی دی۔ یہ کتاب تیسری دنیا کے ممالک میں سائنس کو فروغ دینے کے موضوع پر مختلف فورمز پر ان کی گفتگو پر مشتمل تھی۔

یہ میری ان سے تنہائی میں ہونے والی واحد ملاقات تھی۔ میں ان سے مزید صرف ایک بار اور پاکستان میں ملا۔ لیکن اس ملاقات میں بہت سے لوگ موجود تھے۔ ایک بات جو مجھے یاد ہے وہ یہ کہ جب انہوں نے مجھے دور سے دیکھا تو وہ لوگوں کے جھرمٹ سے نکل کر میرے پاس آئے

اور خیریت دریافت کی۔ شاید انہوں نے مجھے Trieste میں ہونے والی ملاقات کے حوالے سے یاد رکھا تھا۔

ڈاکٹر سہیل زبیری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سہیل زبیری

ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس  کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔

suhail-zubairy has 84 posts and counting.See all posts by suhail-zubairy

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments