ہمارے 4 جی صحافتی دماغ اور سلو انٹرنیٹ سگنلز
گزشتہ تین سالوں سے ملک میں جو سیاسی ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے وہ یقیناً تاریخ میں نئے مضامین تو رقم کر ہی رہا ہے ساتھ ہی مطالعہ پاکستان میں دھڑا دھڑ نئے ابواب بھی درج کر رہا ہے اور ان ابواب کے سیاق و سباق گاہے بگاہے سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو مل ہی جاتے ہیں اب ظاہری سی بات ہے جب بد قسمتی سے نیشنل میڈیا اپنی فور جی دماغی صلاحیتوں مگر کمزور انٹرنیٹ سگنلز کے باعث دروغ گوئی، محدود سچائی اور غیر مصدقہ معلومات پر مبنی خبریں نشر کرے گا تو سچ کی تلاش میں سرگرداں رہنے والے لوگ ان چینلز سے بیزار ہو کر دیگر ذرائع اطلاعات و نشریات پر بھروسا کرتے ہوئے ابلاغ کے دوسرے میڈیمز پر منتقل ہو جائیں گے یا پھر اپنی ذاتی محنت سے خبر کی تحقیق و تفتیش کر کے سچائی تک پہنچنے کی کوشش کریں گے کیونکہ سب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں اور شاید کسی حد تک جائز بھی ہیں۔
خیر یہ بات تو ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک سیاسی جماعت کو عام انتخابات میں عوام کی جانب سے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہو جانے کے بعد پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے زبردستی حزب اختلاف کی کرسیوں پر بٹھا دیا گیا جبکہ وفاقی حکومت کو ہارنے والوں کے سپرد کر دیا گیا۔ زبردستی ہرانے کے بعد پھر اس سیاسی جماعت پر سختیوں پابندیوں اور سیاسی مقدمات کی بھرمار کر دی گئی اور اس سیاسی جماعت کی طرف سے عدلیہ پر بھی دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مکمل اعانت و تعاون کا الزام عائد کیا گیا کہ اس وقت کی عدالت عالیہ نے اس مخصوص پارٹی کا نام چھین کر بے نام و نشان کیا، مگر مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے کے مصداق ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا اُمیدوار بیچارے کہیں جوتے، چمٹے، چھری کانٹے جیسے غیر مقبول نشان لے کر بھی نا امید نہ ہوئے کیوں کہ پارٹی کے چیئرمین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کسی انسان کی جگہ کھمبے کو بھی بطور امیدوار کے کھڑا کرے گا تو وہ بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لے گا اور شاید اسی وجہ سے عوام میں مقبول پارٹی سے وابستہ امیدوار مضحکہ خیز انتخابی نشانات سمیت جیت تو گئے مگر پھر بھی ہرا دیے گئے کیونکہ دوسری سیاسی جماعت والے اپنے ساتھ ”بڑے لڑکے“ لائے تھے۔
اب اس سیاسی جماعت کا حال یہ ہے کہ چیئرمین عمران خان سمیت مرکزی قیادت قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہی ہے تو کچھ بظاہر آزاد قیادت سیاسی علم ہاتھوں میں اٹھائے زور و شور سے عوامی فلاحی سیاست کرنے میں ”مصروف“ نظر آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب کہ سوشل میڈیا پر کارکنان کے بقول، باہر رہ جانے والی نا لائق اور نا اہل قیادت ہے جس کی ٹھنڈی طرزِ سیاست پر یہ بے چارے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے نظر آتے ہیں۔ اصل میں کسی بھی سیاسی جماعت کے سب سے مخلص اور بے لوث ساتھی اور قیمتی اثاثہ یہی سیاسی کارکنان ہی ہوتے ہیں جو ہر طرح کے نا مساعد حالات کے باوجود اپنے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور انہیں مشکل میں تنہا چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے وہ اپنی قیادت پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ان کی اہلیت کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں ان کارکنان کا ان لوگوں پر الزام یہ ہے کہ یہ باقی بچ جانے والی قیادت بھی دراصل ”صحبت دوستاں“ کا شکار ہو چکی ہے اس لئے اب یہ کہنے میں کوئی عذر نہ ہے کہ یہ قیادت بھی ”او ایل ایکس“ پر ہونے والی اشیاء کی خرید و فروخت کے مصداق اپنی اپنی شرائط پر کچھ لے اور کچھ دے کے زریں اصولوں پر کاربند ہو کر اپنی سیاسی منازل کی جانب گامزن ہے۔
باقی کی دُنیا میں نہ جانے کس طرح کا طرز سیاست رائج ہے اس بات کا تو درست اندازہ ہمیں نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کے سیاسی داؤ پیچ نے تقریباً سبھی سیاسی ماہرین و پنڈتوں جو ہر موسم کے مطابق ہری ہری برسات میں باہر نکل آتے ہیں اور سب کچھ ”درست درست“ بتانے کی صلاحیت سے واقف ہوتے ہیں یا پھر واقف کرا دیے جاتے ہیں ( اس کا البتہ ٹھیک سے اندازہ نہیں ہے ) نہیں معلوم کہ وہ ایسا کیوں کر کر لیتے ہیں لیکن ان مخبرین کو جنہیں زبان عام میں تو شاید صحافی کہا جا سکتا ہو مگر سوشل میڈیا کی زبان میں انہیں مشق ستم بنی اس سیاسی جماعت کے کارکنان ”واٹس ایپ گروپ“ یا ”لفافہ جرنلسٹ“ کہہ کر تنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں، جواباً یہی ”مخبر صحافی“ انہیں ”فسادی ٹولا“ اور ”کپتان کی ٹیم“ کا نام دیتے ہوئے اپنے تئیں لاجواب کر کے رکھ دیتے ہیں اور اس کھلاڑی ٹولے کے مطابق ان تمام ممبران کی اکثر باتیں جو عام طور پر ایک ”بیان“ رائے یا ایک مختصر ”حکم نامے“ پر مبنی ہوتے ہیں من و عن ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور عام طور پر ٹویٹر کے ذریعے ”عرض حال“ کی صورت ان سے جاری کرا دیے جاتے ہیں اب نہ جانے یہ باتیں کہاں سے آتی ہیں کیوں آتی ہیں کیسے آتی ہیں کچھ معلوم نہیں۔ اس معمے کی گتھی کا سرا بظاہر بڑا پر پیچ اور الجھا ہوا ہوتا ہے مگر دل ہی دل میں سب اس بات کی گہرائی اور اس کے جواب سے اچھی طرح واقف ہو کر بھی اپنی سوچ کے جملہ حقوق فقط خود تک محدود رکھتے ہیں تاکہ آسانی میں رہیں۔ بقول شاعر
لب پہ آتی ہے بات دل سے حفیظ
دل میں جانے کہاں سے آتی ہے
اب سے پہلے جب کسی غیر متوقع یا ناقابل پیش گوئی انسان یا چیز کے بارے میں محاورتاً کہا جاتا تھا کہ فلاں نے بڑے بڑوں کے اندازے خلط ملط کر دیے ہیں اب کے اس جدید مگر پیچیدہ دور میں یہ 4 جی دماغوں کے حامل انوکھے شعبدہ باز میدان میں آ چکے ہیں اور کیونکہ ان کے مطابق وقت کا تقاضا ہے کہ جو قوم تھوڑی بیدار ہوئی ہے اسے اس کے شعور سمیت دوبارہ سلا دیا جائے، تو اب یہ اس وٹس اپ گروپ کے بارے میں یقیناً کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آنے والی اس نسل کو بیداری سے دوبارہ سلانے کے لئے کئی قسم کی نیند آور لوریوں کا بندوبست کر رکھا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو دوبارہ سے غفلت کی نیند سلا دیا جائے اور جو جو سوال کرے اس کے دماغ میں مایوسی کا محلول انجیکٹ کیا جائے اس لئے ان کی طرف سے مستقبل کی خبروں کے بارے میں صحیح صحیح اندازے قائم کیے جاتے ہیں اور لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ آپ لوگ ملک میں جو سب ٹھیک ہونے کے خواب دیکھے بیٹھے ہیں دراصل وہ کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوں گے۔ اگر ہم جھوٹ بولیں گے اور آپ کو آگاہ کریں گے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو بس آپ کو اسی ترقی پر ہی انحصار کرنا ہو گا جو صرف ہماری ٹویٹس کے اندر کہیں نہ کہیں چھپی ہوئی ہے مگر آپ لوگوں کو نظر نہیں آتی، بیروز گاری اور غربت اور مہنگائی کے چنگل سے بھی ہم ہی آپ کو اپنی ٹویٹس کے ذریعے نجات دیں گے عملی طور پر بھلے آپ غربت کی چکی میں پستے پستے مرتے مر جائیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے اور اگر دنیا ہمارے عدالتی نظام پر آواز اٹھائے گی اور ہمیں انصاف کے لحاظ سے 130 ویں نمبر پر رکھے گی تو ہم اپنی ٹویٹس کے ذریعے ہی عدالت عالیہ کے وقار کے بارے میں ایسی ایسی (بالکل ایک جیسی) ٹویٹس کریں گے کہ عدلیہ 130 ویں نمبر والے غم کو بالکل بھول جائے گی اور اپنی اس ساکھ کو بر قرار رکھتے ہوئے عدالتوں میں وہی ہو گا جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو واٹس ایپ گروپس کے ان ممبران کا ا ثر و رسوخ تو واقعی موجود ہے یہ محنتی صحافی بہت محنت سے عقل استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی خبریں نقل کرتے ہیں اور ٹویٹر پر چھاپ یا نشر کر دیتے ہیں مثال کے طور پر یہ انتہائی دور اندیش خواتین و حضرات کسی بھی عدالتی فیصلے کی ججمنٹ کے آنے سے کچھ روز پہلے ہی اپنے درست اندازے پر مبنی فیصلہ پہلے سے بتا دیتے ہیں اور جج صاحبان بھی عام طور پر ان مہان پیشین گوئی کرنے والے گروہ کی جان کاری بلکہ فسوں کاری کے اس قدر معتقد ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی اس سحر کے تحت جو فیصلہ لکھتے ہیں الفاظ کی ہیر پھیر کے علاوہ اور کوئی تبدیلی اس میں نہیں ہوتی وہ بھی شاید قانونی زبان کا استعمال ان جج صاحبان کی مجبوری ہوتا ہے ورنہ تمغۂ امتیاز رکھنے والے ان مدبرین کے الفاظ سے ہٹ کر قانونی زبان کا استعمال انہیں بھی شاید ناگوار لگتا ہو۔ کیوں کہ کسی بھی آنے والی چیز کے بارے میں ایڈوانس خبر دے دینا اب عام ہو گیا ہے اس لئے پاکستان کی سیاست میں کسی کے لئے بھی کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کچھ ابہام اگر کبھی کسی کے ذہنوں میں موجود تھے بھی سب عیاں ہو چکے ہیں بچہ بچہ سیاسی داؤ پیچ پر بڑھ بڑھ کر ایسی ایسی شاٹس کھیلتا دکھائی دیتا ہے کہ دیکھنے والے انگشت بدانداں رہ جاتے ہیں اور اسے آپ بد قسمتی یا پھر خوش قسمتی کہئے کہ بچپن کے دور سے ہی کرکٹ، فٹبال، بیڈمنٹن یا ہاکی کے کھلاڑی بننے کی بجائے ایک سیاسی کپتان کی ٹیم میں شامل ہونے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
زمانۂ طالب علمی میں ہم بھی ایک غلط فہمی کا شکار تھے کہ شاید جو ڈاکٹر بنتے ہیں وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں جو وکیل بنتے ہیں وہ لوگوں کے لئے مقدمے لڑتے ہوں گے علماء کرام دین اسلام کی ترویج کے لئے کام کرتے ہوں گے، اور جو جج بنتے ہیں وہ انصاف پر مبنی فیصلے لکھتے ہوں گے جو سیاست دان ہیں وہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرتے ہوں گے اور جو ہماری طرح صحافت پڑھتے ہیں وہ شاید سچائی کے ساتھ عوامی مسائل کے بارے میں خبریں دیتے ہوں گے مگر اب آ کر ہم بھی جان سکے ہیں کہ وطن عزیز میں سب کو اپنے کام سے کام رکھنا آ ہی نہیں سکا اس لئے اب تیس تیس سال صحافی بن کر دماغ کا دہی بنانے والے صاحبان کبھی یو ٹیوب پر فٹنس چینل کھولے بیٹھے ہیں تو کوئی 4 جی سپیڈ دماغ رکھنے والے اپنی دور اندیشی اور دانشورانہ حکمت کے ذریعے یوں گویا ہوتے ہیں کہ ”ہو سکتا ہے کوئی منچلا ہیکر پاکستان کا 4 جی انٹرنیٹ ہیک کر لے اور اسے 3 جی کر دے یا پھر پورا انٹرنیٹ ہی پاکستان سے اڑا دیا جائے پھر پاکستان کو اپنا انٹرنیٹ دوبارہ چالو کرنے میں ٹائم لگے گا“ اور ہم جیسے سادہ لوح تو فوراً ممکنات پر غور کرنے لگتے ہیں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ ایسا ہو بھی گیا تو اس بیچ کے عرصے میں بے چارے عوام کا انٹرنیٹ کے بغیر سانس کیسے آئے گا۔
آخر میں ایک بار پھر اپنی لا علمی پر ہم خود ہی کبیدہ خاطر ہو کر ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں عرصہ تین سال میں ہر ادارے نے ضرورت سے زیادہ ترقی کر لی ہے اور شاید اسی تیز رفتار ترقی کا اثر شعبۂ صحافت پر بھی کچھ زیادہ ہی پڑ گیا ہو اور ہم جیسے 4 جی بصیرت سے ( بصد شکر) عاری اور کم علم لوگ اس تیز ترین، آنکھیں چندھیا دینے والی روشنی کے اثر میں آنے سے محروم رہ گئے ہوں اور بفضل تعالیٰ ہماری سوچنے سمجھنے کی صحافتی صلاحیت اس طرح نکھر نہ سکی ہو جیسے واٹس ایپ گروپس کے ان فطین اور بے تحاشا ذہین صحافیوں کی ہوئی ہے اس لئے ہمیں وطن عزیز میں تیزی سے ہوتی ترقی دکھائی ہی نہ دے پاتی ہو اب اس کی وجہ کوئی بھی ہو اس میں بھی قصور تو ہمارے جیسوں کی نزدیک اندیشی (دور اندیشی کا متضاد) ہی ہے جو ہمیں دور سے آنے والی چیزوں کا علم وقت سے پہلے نہیں ہو پاتا۔
- ہمارے 4 جی صحافتی دماغ اور سلو انٹرنیٹ سگنلز - 08/05/2025
- سانحہِ جلیانوالہ باغ، ایک خونی واقعے کی داستان - 18/04/2025
- انتقامی سیاست اور منقسم معاشرہ - 12/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).