جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا!


Loading

پاک بھارت تنازعہ میں کمی کے آثار نہیں ہیں۔ پاکستان اصرار کر رہا ہے کہ مناسب وقت پر 6 اور 7 مئی کی رات کو پاکستان کے متعدد شہروں پر بھارتی میزائل حملوں کا جواب دے گا۔ آج وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے فون پر گفتگو میں واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع میں کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان اور بھارت میں تصادم کم کرانے کے لیے پاکستانی وزیر اعظم سے فون پر گفتگو کی تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ بھارت کے حملوں نے پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستانی عوام بھارت کی بلا اشتعال جنگی کارروائیوں پر شدید غصے میں ہیں۔ پاکستان اپنے دفاع میں کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ بھارت نے خطے میں امن و استحکام کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ امریکہ جنوبی ایشیا کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان و بھارت دونوں کو کشیدگی کم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، امریکی حکومت اور متعدد دیگر ممالک کی خواہش کے باوجود برصغیر میں جنگ کے بادل گہرے ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ تصادم یوں تشویش و پریشانی کا سبب ہے کہ دونوں ملک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور معاملات بات چیت کی بجائے جنگ کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں پونے دو ارب انسان آباد ہیں، جن کی اکثریت اب بھی بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم ہے۔ غربت عام ہے اور روزگار کے مواقع محدود ہیں۔ یہ صورت حال تبدیل کرنے کے لیے امن و خوشحالی کی ضرورت ہے لیکن پاکستان اور بھارت اس کے برعکس مسلسل تصادم کی طرف بڑھتے رہے ہیں۔ جنوری 2016 پٹھان کوٹ ائر بیس پر حملہ کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان ہر سطح پر بات چیت کے دروازے بند ہیں۔ پہلے صرف بھارت، پاکستان سے بات کرنے سے انکار کرتا تھا لیکن اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد سے پاکستان نے بھی نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا ہے۔ نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت نے اس تنازعہ کو کھیلوں اور ثقافتی شعبے تک پھیلا دیا ہے۔

22 اپریل کو پہلگام سانحہ سے پہلے بھی دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات میں دوری تھی، بات چیت کے راستے بند تھے، ثقافتی تبادلے یا کھیلوں کے مقابلے محدود تھے۔ اسی طرح باہمی تجارت بھی انتہائی ضرورت کی وجہ سے ہو رہی تھی۔ تاہم اس سانحہ میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد نریندر مودی کی حکومت نے کچھ سوچے سمجھے بغیر پاکستان پر الزام عائد کر کے جنگ کا ماحول پیدا کر دیا۔ سرکاری بیانات اور میڈیا پر پاکستان کو کسی ثبوت اور کسی جواز کے بغیر اس سانحہ میں ملوث قرار دیا گیا۔ حتی کہ یہ ’سراغ‘ بھی لگا لیا گیا کہ حملہ آوروں میں دو پاکستانی شہری تھے۔ پھر بھی قیاس کیا جا رہا تھا کہ دونوں ممالک چونکہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور دنیا پہلے ہی یوکرین و غزہ جیسے المیوں کا سامنا کر رہی ہے، اس لیے اسے برصغیر میں ایک نئی جنگ منظور نہیں ہوگی۔ اس حوالے سے بیانات بھی دیے گئے اور امریکہ و دیگر ممالک نے کچھ کوششیں بھی کیں۔

نریندر مودی کی حکومت نے البتہ کسی دلیل کو قبول کرنے کیے بجائے داخلی ضرورتوں اور ہندوتوا ایجنڈے کے تحت مذہبی انتہا پسندی کا ماحول پیدا کر کے پاکستان کو نہ صرف پہلگام کا قصور وار ٹھہرایا بلکہ اسے دہشت گردی کا مرکز اور سرپرست قرار دے کر دنیا بھر میں بدنام کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسی ماحول میں 7 مئی کی رات کو آزاد کشمیر کے علاوہ پاکستانی علاقوں میں متعدد مقامات پر حملے کیے گئے۔ ان میں خاص طور سے بہاولپور اور مریدکے میں کیے جانے والے میزائل حملے قابل ذکر ہیں کیوں ان دونوں شہروں میں بالترتیب جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مراکز تھے۔ پاکستان پر ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 30 سے تجاوز کرچکی ہے۔ پاکستانی حکومت مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید سے لاتعلقی کا اعلان کرچکی ہے اور ان کی تنظیموں کو کالعدم بھی قرار دیا گیا ہے۔ عملی طور سے ان دونوں تنظیموں کو پاکستان میں سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے لیکن بھارت نے ماضی کی شکایات کی بنیاد پر اپنا مقدمہ مضبوط سمجھتے ہوئے، ان دونوں تنظیموں کے مراکز پر حملے کیے۔ حالانکہ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی میزائل مساجد پر گرے اور ان میں شہری جاں بحق ہوئے۔

البتہ بہاولپور میں حملے کے فوری بعد مسعود اظہر کا بیان بی بی سی اردو پر شائع ہوا جس میں انہوں نے اقرار کیا کہ اس حملہ میں ان کے خاندان کے متعدد افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور اس پر شدید غصہ کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح مریدکے حملے میں جاں بحق افراد کی نماز جنازہ کے موقع پر سینکڑوں لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے بھارت کے خلاف جہاد کے نعرے بلند کیے۔ یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ مشکوک تنظیم کے لوگوں کی طرف سے بھارت کے خلاف ’جہاد‘ کا نعرہ بھارت کے خلاف تخریبی کارروائیوں یا دہشت گردی کی علامت بن چکا ہے۔ اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کی مسلمہ سرحدوں میں حملے کر کے بھارت نے تمام عالمی قوانین و ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح تھا کہ پاک فوج اور حکومت اس بھارتی جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے اس کا جواب دینے کا اعلان کر رہی تھی۔ ایسے میں مسعود اظہر کا بیان یا مشکوک لوگوں کی برف سے الجہاد کے نعرے، بھارت کے لیے پریشانی کا باعث بننے کی بجائے پاکستان کی پوزیشن کمزور کرنے کا سبب بنے ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر پاکستان سرحد پار مشکوک سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تو ان عناصر نے کس کی شہ پر یہ نعرے بلند کیے۔ اس سوال کا جواب خود پاکستان کی سفارتی پوزیشن مستحکم کرنے اور بھارتی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے ضروری ہو گا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ہی مذہبی استعاروں، علامتوں یا نعروں کو بھارت کے خلاف نفرت پھیلانے اور اشتعال انگیز ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ بھارت میں تو سرکاری سطح پر یہ کام ہو رہا ہے۔ مودی سرکار ہندو ریاست قائم کرنے اور اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنے کو اپنا سیاسی ایجنڈا قرار دیتی ہے۔ بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے رامائن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’سنگ دل مجرمان سے بدلہ لیا جائے اور انہیں تباہ کر دیا جائے‘ ۔ ہندو انتہا پسندی کے ایسے ہی مظاہر کی وجہ سے سی این این کے اینکر نے آج واشنگٹن میں بھارتی سفیر کا انٹرویو کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا یہ ہندو انڈیا کی مسلمان پاکستان سے جنگ ہے؟ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے لیڈر وسیع آبادی والے ایک خطے میں مذہبی جذبات کی بنیاد پر تقسیم کی حوصلہ افزائی سے باز نہیں آتے اور باہمی تنازعہ میں مسلمان بمقابلہ ہندو یا ہندو بمقابلہ مسلمان کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔

حالانکہ مذہبی جہت کو اجاگر کرنے سے وہ اصل مسئلہ پس پشت چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ملک پچھتر سال سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ یعنی کشمیر میں استصواب کا سوال اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قرار داروں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کا معاملہ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر تنازعہ اور جنگ کے بعد یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے کہ جب تک دنوں ملکوں کی قیادت کشمیر کے سوال پر بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی، اس وقت تک اس خطے میں امن قائم ہونا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان محاذ آرائی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔ اس لیے کسی بھی تصادم کی صورت میں اشتعال انگیزی کی بجائے سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرنا بے حد ضروری ہے کہ کیا وجہ ہے کہ مشترکہ ثقافتی و سماجی اقدار رکھنے کے باوجود کیوں دونوں ممالک ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے ہیں۔

7 مئی کی شب ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان نے بھارت کے متعدد فائٹر جیٹ مار گرانے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں فرانس کے تیار کردہ انتہائی جدید اور قیمتی رافیل طیارے بھی شامل ہیں۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے 5 بھارتی جہاز گرائے ہیں جبکہ غیر جانبدار ذرائع سے تین طیاروں کی تصدیق ہوئی ہے۔ دوسری طرف اس معاملے میں بھارتی حکومت کی پراسرار خاموشی سے پاکستان کا دعویٰ درست معلوم ہونے لگا ہے۔ یوں اگر بھارت نے حملوں میں پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنایا تو پاکستان نے بھارتی فضائیہ کو شدید نقصان پہنچا کر حساب برابر کر دیا تھا۔ اس کے بعد دونوں طرف سے اشتعال انگیزی ختم کرنے اور کسی سیاسی مفاہمت کے لیے پیش قدمی ہونی چاہیے تھی۔

البتہ آج بھارت نے متعدد ڈرون پاکستان کے مختلف شہروں کی طرف بھیجے۔ پاک فوج کا کہنا ہے کہ رات گئے تک 29 بھارتی ڈرون گرائے جا چکے تھے۔ یہ خبریں سامنے آنے کے بعد بھارتی حکومت کی طرف سے ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے گزشتہ شب بھارتی پنجاب کے متعدد شہروں پر میزائل و ڈرون حملہ کیا تھا، آج ڈرونز کے ذریعے اس کا حساب برابر کیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں ان دعوؤں کو فیک نیوز قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ’بھارت کے 15 مقامات پر پاکستانی حملوں کی بھارتی خبر جھوٹ کا پلندا ہے، پاکستان حملہ کرے گا تو پوری دنیا کو نظر بھی آئے گا اور اس کی گونج بھی سنائی دے گی‘ ۔ اس پریس کانفرنس کے بعد بھارتی میڈیا نے یہ خبر چلائی کہ مقبوضہ کشمیر میں متعدد مقامات پر پاکستان نے ڈرون و میزائل حملے کیے ہیں اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ البتہ پاکستان نے ان خبروں کو بھی فیک نیوز قرار دے کر کہا ہے کہ بھارت، پاکستانی حملے کی جھوٹی خبریں چلا کر مزید جارحیت کا جواز پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن اس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔

یہ امر تو مسلمہ ہے کہ جنگ میں سچائی سب سے پہلے شہید ہوتی ہے اور جھوٹ کا بازار گرم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہے کہ کسی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہو سکتا۔ جنگ تباہی ضرور لاتی ہے لیکن مسئلے حل کرنے کی بجائے انہیں مشکل اور پیچیدہ بناتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو اس سچ کو تسلیم کر کے جارحیت جاری رکھنے، عالمی امن کو خطرہ میں ڈالنے، خطے کی کثیر آبادی کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے پر امن بقائے باہمی کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3103 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments