کوہی گوٹھ ہسپتال میں والینٹیر
میں خواب دیکھنے کی عادی ہوں۔ دو سال قبل میرا خواب کوہی گوٹھ میں مڈ وائیفری طالبات کے لیے بحیثیت تھریپسٹ والینٹیر کرنے کا تھا لیکن دوسرا خواب تھا ان طالبات کے ساتھ اپنی دوست پروفیسر فریدہ فیض اللہ کے ساتھ ایک لیکچر کروانے کا۔ فریدہ کالج میں میری ساتھی استاد تھیں۔ میں نے عبداللہ کالج میں بطور مائیکرو بیالوجی استاد دس سال پڑھایا۔ جبکہ فریدہ انگریزی پڑھاتی تھیں۔ پھر میں نے دیار غیر، امریکہ، کی راہ پکڑی اور انہوں نے کالج کی پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہو کر آغا خان یونیورسٹی میں ذمہ دار ٹرینر کی حیثیت سے کام کر کے اپنا لوہا منوا لیا۔
فریدہ انگریزی ادب اور لسانیات کی ماہر، کمال کی استاد اور ہماری بہت قریبی دوست ہیں۔ مگر یہاں بات اقربا پروری کی نہیں بلکہ فریدہ کی علمیت اور ان کی تدریسی مہارت کی ہے جنہوں نے آنکھوں کی ایک موروثی بیماری Retinitis Pigmentosa کے باعث بصارت سے محرومی کے باوجود کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی میں نمایاں درجے میں کامیابی حاصل کی۔ دوران ملازمت برطانوی لیڈز یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں بھی امتیازی حیثیت کے ساتھ ایم ایڈ کیا۔ سندھ ٹیکسٹ بورڈ کے لیے انٹر کا نصاب بھی مرتب کیا۔ اور ساتھ ہی ہزاروں طالبات کی ماڈل استاد بھی رہی ہیں۔
کوہی گوٹھ ہسپتال میں مڈ وائفری طالبات کی اکثریت ملک کے اندرون شہر قصبوں دیہات سے آتی ہیں۔ ”عورت کی طاقت“ کے گروپ کرواتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی کہانیاں کس قدر متاثر کن ہیں۔ وہ بہت مشکل سے میٹرک کر کے اس کورس میں داخلہ لینے کے بعد زندگی میں بہت کچھ کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتی ہیں۔ اگر برصغیر کے بادشاہ شیر شاہ سوری نے اپنے زریں عہد میں عوام کی سہولت کے لیے سڑکوں، ڈاک کی ترسیل اور سڑکوں کے کنارے سایہ دار درختوں کا جال بچھا دیا تو ڈاکٹر شیر شاہ اور ان کی محنتی ٹیم نے ملک کے دوردراز حصوں سے آنے والی لڑکیوں کے لیے بالکل مفت مڈ وائفری تعلیم کے ذریعے تربیت یافتہ مڈ وائفز کا جال سا بچھا دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہم سب کے تعاون سے یہ کام ضرور ہو گا۔
میری رائے میں نامساعد معاشی اور سماجی حالات سے گزرنے والی ان طالبات کے لیے فریدہ کی گفتگو سے بڑھ کر کیا تحفہ ہو سکتا ہے؟ لہٰذا سات مئی کو صبح گیارہ بجے کوہی گوٹھ کے شاندار آڈیٹوریم میں ڈیڑھ سو طالبات، اساتذہ کے علاوہ کچھ اور مہمانوں کی موجودگی میں فریدہ کے اس بہترین لیکچر کے پروگرام کا آغاز ہوا۔ ان کے لیکچر سے پہلے تلاوت، قومی ترانہ اور تین طالبات کی بہت خوبصورت آوازوں نے ”یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے“ سنایا بلکہ گرمایا۔
تالیوں کی گونج میں فریدہ نے اپنی تقریر کا آغاز کیا جس کا عنوان تھا۔ ”کہانیاں کچھ کہتی ہیں، معنی ہم اخذ کرتے ہیں۔“
فریدہ نے بہت دلچسپ انداز میں اپنی زندگی کی کہانی سنائی جس میں اپنی معذوری، تعلیمی مشکلات اور سماجی رویے کے متعلق بتایا۔ اور ساتھ ہی اپنی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے
کے مصداق ان کا زور زندگی میں معنویت تلاش کرنے پہ تھا خواہ کتنی ہی رکاوٹیں راہ میں حائل ہوں۔
انکے متاثر کن موٹیویشنل لیکچر کے بعد طالبات کے سوال جواب کا سیشن ہوا۔ جن کے فریدہ نے خاطر خواہ جوابات دیے۔ اس کے بعد وائس پرنسپل اور ڈاکٹر سدرا احمد نے فریدہ فیض اور حاضرین محفل کا شکریہ ادا کیا۔ مس فریدہ کو ادارے نے اجرک پیش کی اور ان کی خواہش پہ پورے ہسپتال کا دورہ بھی کروایا گیا۔ محفل میں باہر سے شرکت کرنے والوں میں مشہور صحافی شہناز احد، ٹی وی پروگرامز کی ڈائریکٹر اور دستاویزی فلم ساز ثمینہ اسلم، پی سی ایس آئی آر کی سابق چیف سائنٹیفک افسر نور تاج، سبق پرنسپل عبداللہ کالج محمودہ الطاف اور امریکہ سے آئے ہوئے عارف امام کے علاوہ کیمسٹ شہنیلا اور ان کے میڈیکل کے طالب علم دو بیٹوں نے شرکت کی۔ ہسپتال کی بہترین تعمیر اور یہاں ہونے والے کام کو سب نے سراہا اور اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔
آخر میں فریدہ کی بطور خاص طالبات کے لیے بریل پیپر پہ لکھی انگریزی نظم کا اردو ترجمہ جو خود انہی نے کیا۔
تخیل اور جذبہ
ایک بار ایک حد تم نے پار کر لی
اور نئی اڑان بھر لی
تو سمجھو زمین کی قید سے آزاد ہوئے
اب خلا اور وقت،
آواز اور روشنی
کی حدوں کو پار کرنا ممکنات میں ہے
تخیل پسٹنز کو بھڑکاتا ہے
پہلے جذبہ اونچا اڑتا ہے
پھر راکٹ گھن گرج کے ساتھ اڑ جاتا ہے
فریدہ فیض اللہ
- کوہی گوٹھ ہسپتال میں والینٹیر - 08/05/2025
- عورت: خوبصورتی اور غربت کا چکر - 28/04/2025
- ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا بچوں کے لیے کراچی میں ادارہ ’سائنوسا‘ کیا کر رہا ہے؟ - 25/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).