برصغیر ایک خطرناک تصادم کے دہانے پر
بھارت نے بالآخر ’آپریشن سندور‘ کے نام سے پاکستان کے متعدد مقامات پر میزائل حملے کر کے اپنے دعوے کے مطابق 22 اپریل کو پہلگام سانحہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا بدلہ لے لیا ہے۔ ان حملوں میں 26 افراد جاں بحق اور 46 زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق جوابی کارروائی میں بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے گئے ہیں اور ایک بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
رات کے دوران ہونے والی ان جنگی کارروائیوں کے بعد دونوں طرف سے کامیابی اور دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ ’آپریشن سندور دہشت گردوں کو پیغام اور پہلگام میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان کو خراج تحسین ہے‘ ۔ بھارتی حکام نے اس فوجی کارروائی کو آپریشن سندور کا نام دے کر اسے مذہبی رنگ دیا ہے کیوں کہ ہندو خواتین سہاگ کی نشانی کے طور پر ماتھے پر سندور کا ٹیکہ لگاتی ہیں۔ بھارت کے مطابق یہ جوابی کارروائی ہے جس کے دوران پہلگام میں ہلاک ہونے والے مردوں کی بیواؤں کا انتقام لیا گیا ہے۔
حملوں کے بعد بھارتی سرکاری ذرائع کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ ’ان حملوں سے انصاف ہو گیا ہے‘ ۔ گویا یہ اشارہ دیا گیا کہ اب بھارت مزید کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ بھارت کی وزارت دفاع کے پریس ریلیز میں بھی متوازن اور معتدل زبان استعمال کی گئی تھی۔ اس بیان کے مطابق ’ان حملوں میں تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ بھارت کا مقصد اشتعال انگیزی نہیں تھا۔ پاکستانی فوج کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا‘ ۔ تاہم صرف بھارت کے کہنے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ ان حملوں میں صرف آزاد کشمیر میں ہی میزائل نہیں پھینکے گئے بلکہ پاکستان کی حدود میں حملے کیے گئے ہیں۔ پاکستانی فوج کے مطابق یہ جنگ کا اقدام ہے اور اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
پاکستانی دعوؤں کے مطابق بھارتی حملوں کے فوری بعد کارروائی کرتے ہوئے پانچ بھارتی طیارے مار گرائے گئے تھے جو مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مختلف علاقوں میں نشانہ بنائے گئے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا ہے کہ ’پاکستان ائرفورس نے ان طیاروں کو اس وقت نشانہ بنایا جب انہوں نے بلاجواز و بلاضرورت اشتعال انگیزی کرتے ہوئے پاکستان کی علاقائی سالمیت کو پامال کیا اور پاکستان کے شہریوں کو نقصان پہنچایا‘ ۔ ترجمان نے اس کے علاوہ متعدد بھارتی فوجی پوسٹس اور ایک بریگیڈ ہیڈکوارٹر تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔ اس کے علاوہ رات کے دوران لائن آف کنٹرول پر شیلنگ کے تبادلے میں تیزی آئی اور دونوں طرف شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق 5 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 7 افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
پاکستان کی طرف سے جن پانچ بھارتی طیاروں کو نشانہ بنانے اور تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میں بھارتی ائرفورس کے تین رافیل طیارے شامل ہیں۔ دیگر دو میں ایک مگ 29 ایک ایس یو 30 قسم کا طیارہ مار گرایا گیا۔ ان میں سے تین مقبوضہ کشمیر میں گرے جبکہ دیگر دو بھارت کے علاقے میں تباہ ہوئے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیاں بھی بھارتی طیاروں کے تباہ ہونے کی اطلاعات دے رہی ہیں۔ نیوز ایجنسی رائیٹرز نے مقبوضہ کشمیر میں گرنے والے تین طیاروں کے تباہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔ بی بی سی کے نمائندے نے بھی ایک تباہ شدہ طیارے کا ملبہ دیکھا ہے۔ البتہ نہ تو بھارتی میڈیا میں اس بارے میں کوئی خبر موجود ہے اور نہ ہی بھارتی حکومت نے اس کی تصدیق کی ہے۔ حالانکہ عینی شاہدین نے بین الاقوامی میڈیا ذرائع کو بتایا ہے کہ انڈین ائرفورس تباہ شدہ طیاروں کے ملبے تک پہنچی ہے اور ان کا معائنہ کیا جا رہا ہے۔ ملبے کے چاروں طرف رکاوٹیں لگا کر وسیع علاقے کو عام لوگوں کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
’آپریشن سندور‘ کے ذریعے حملے کر کے بھارتی حکام پاکستان کے ساتھ ’حساب برابر‘ کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ نئی دہلی میں حکام نے امریکہ، روس، سعودی عرب، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں کو ان حملوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ دوسری طرف پاکستان نے متعدد بھارتی فائٹر جیٹ تباہ کر کے حملوں کا بدلہ لے لیا ہے۔ غیر جانبدار ذرائع بھی چند بھارتی طیارے تباہ ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو پاکستان نے بھی بھارتی میزائل حملوں کے جواب میں بھارتی فضائیہ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان حملوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ پاکستانی حکام مسلسل بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر اس کا حساب برابر کرے گا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ بھارتی حملوں میں مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور شہری شہید ہوئے۔ اس طرح بھارتی حکمت عملی پر ہندو انتہاپسندی کا عنصر غالب دکھائی دیتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے البتہ گزشتہ رات کے حملے میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو نشانہ بنانے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق اس دوران نوسیری ڈیم کے ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت، پاکستان کے آبی ذخائر کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اسے ’آبی دہشت گردی‘ کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ پاکستان اس جارحیت کا جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔ اور اپنی مرضی کے وقت، جگہ اور ذرائع کو مدنظر رکھ کر جواب دے گا۔
امریکہ و چین سمیت دنیا بھر سے پاکستان پر بھارت کے میزائل حملوں کے بعد شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اسے ’شرم ناک‘ قرار دیا اور کہا امید ہے کہ یہ تصادم رک جائے گا۔ چین نے بھی دونوں ملکوں کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ دنیا بھر کے اہم ممالک اور سفارتی ذرائع جنگ جوئی کی بجائے بات چیت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوہری صلاحیت کے حامل دو ممالک کے درمیان تصادم کی موجودہ صورت حال کسی خطرناک تنازعہ کی شکل اختیار کر سکتی ہے جو اس علاقے اور دنیا بھر کے لیے خطرناک ہو گی۔ پاکستان متعدد بار واضح کر چکا ہے کہ اگر اس پر دباؤ بڑھایا گیا تو اس کے پاس جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا آپشن موجود ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلگام سانحہ کے بعد ملک میں ہیجان اور سنسنی خیزی کا ماحول پیدا کیا تھا۔ بھارتی عوام کو اشتعال انگیز بیان بازی اور میڈیا پر جنگجوئی پر مبنی خبروں و تبصروں کے ذریعے پاکستان کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں بھارتی حکومت کے لیے شاید پاکستان کے خلاف کوئی محدود کارروائی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کر کے بھارتی حکام اسے پاکستان پر کامیابی اور دہشت گردی کے خاتمہ کا نام دیتے ہوئے اپنے عوام سے داد و تحسین وصول کر سکتے ہیں۔ بھارت میں جنگ جوئی کا ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ اپوزیشن کانگرس پارٹی بھی موجودہ اشتعال انگیزی میں بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ کوئی متوازن اور معتدل سیاسی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بھارتی عوام میں بھڑکائی ہوئی نفرت کی آگ کی تشفی کے علاوہ بھارتی حکومت ان حملوں کو دہشت گردوں کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرنے کا نام دے کر دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے اور اس کے لیے سفارتی مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرے گی۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ان حملوں کے بعد ’ایکس‘ پر ایک پیغام میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’دنیا کو دہشت گردی کے خلاف کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے‘ ۔
بھارت ایسے یک طرفہ اور بے بنیاد بیانات کے ذریعے مسلسل پاکستان کو ’دہشت گردی کا سرپرست ملک‘ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ احمد پور شرقیہ اور مرید کے کی مساجد پر بظاہر جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مراکز تباہ کرنے کے لیے میزائل پھینکے گئے ہیں۔ حالانکہ ان میں شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ پاکستان ان دونوں تنظیموں پر پابندی لگا چکا ہے۔ لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان مراکز میں دہشت گرد تیار کیے جاتے تھے تو بھی پہلگام کے بعد بھارتی حکومت نے جس قدر واویلا کیا تھا، اس کے بعد ایسے مشکوک عناصر وہاں کیوں قیام کرتے؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ حملے کسی دہشت گرد تنظیم، ڈھانچے، تربیتی مرکز یا فرد کو نقصان پہنچانے کی بجائے بھارت میں سیاسی فائدہ اٹھانے اور عوام کو یہ دھوکہ دینے کے لیے کیے گئے ہیں کہ ان کی حکومت انڈین شہریوں کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہے۔ حالانکہ اس مقصد کے لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک ہمسایہ ملک سے جنگ مول لینے کی بجائے، اس کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولنے اور سکیورٹی سمیت دیگر معاملات طے کرنے سے ہی حقیقی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان نے اگرچہ متعدد بھارتی طیارے گرا کر بھارت کے ساتھ حساب برابر کر لیا ہے۔ رافیل جیسے جدید فائٹر طیاروں سمیت پانچ طیارے مار گرانا بلا شبہ ایک شاندار عسکری کامیابی ہے۔ بھارت نے اس نقصان پر خاموشی اختیار کر کے یہ اشارہ دیا ہے کہ اگر جنگ پھیلائی نہ جائے تو وہ یہ نقصان برداشت کرنے پر تیار ہے۔ اس طرح پاکستان جھڑپوں میں اسے اپنی کامیابی قرار دے کر فتح کے ڈنکے بجا سکتا ہے اور پاکستانی عوام کی تسکین کے لیے بیان جاری کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف پاکستانی حکومت اور فوجی قیادت کسی بھارتی حملہ کی صورت شدید حملہ کرنے اور بھارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے دعوے کرتی رہی ہے۔ پاکستانی حکومت کو جنگی حالات کے باوجود شدید سیاسی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ بھارت کے ساتھ تصادم کی صورت حال میں اگرچہ قومی اتحاد کے متعدد دعوے کیے گئے اور کسی حد تک عوام میں یک سوئی بھی دکھائی دی لیکن سیاسی عدم استحکام اور اختلاف رائے بھی نمایاں رہا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی طرف سے بھارت پر جوابی حملے نہ ہونے کی صورت میں ملک کے بعض عناصر اسے حکومت کی بزدلی اور فوج کی ناکامی سے تعبیر کریں گے۔ اسی وجہ سے پاکستانی حکام جنگ کو اگلے مرحلے میں لے جانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اسلام آباد کو امریکہ سمیت متعدد ممالک سے تحمل سے کام لینے کا مشورہ بھی دیا جائے گا۔ لیکن وقتی اشتعال کی وجہ سے بھارت کو ’سبق‘ سکھانے کا موقع بھی دستیاب ہو گا۔ دیکھنا ہو گا کہ کیا پاکستان ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے جنگ بڑھانے کی بجائے اسے محدود کرنے پر آمادہ ہو گا۔ اور کیا یہ افسوسناک تصادم کسی مصالحت اور دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان مفاہمت کے کسی منصوبے کی بنیاد بن سکے گا۔ بھارتی حملوں کے بعد پیدا ہونے والے ہیجان میں جنگ کے اگلے مرحلے کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے لیڈر عقل کے ناخن لیں اور میزائلوں کے ذریعے ’پیغام رسانی‘ کی بجائے، سفارتی ذرائع استعمال کریں۔
- عمران خان کا بادشاہ اور جنگل کا قانون - 23/05/2025
- امن یا جنگ: فیصلہ بھارت کو کرنا ہے! - 22/05/2025
- جنرل عاصم منیر کے لیے فیلڈ مارشل کا منصب - 21/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).