مُوکُوہاتوجُو کی مایا
گزشتہ دنوں پڑوسی ملک سے حالات کشیدہ ہونے کی خبریں عام ہونے کی صورت میں سوشل میڈیا پر رنگ برنگی مِیمز دیکھنے کو ملیں۔ دشمن کو للکارنے کا یہ انداز سمجھ سے بالا تر تھا۔ ایسی ہی صورتحال میں بچوں کے جاپانی ادب کے بہت بڑے نام موکوہاتوجو کا ناول ”مایا“ پڑھنے کا موقع ملا جس کو اردو میں ترجمہ کرنے والی خاتون کا تعلق بھی اگرچہ جاپان سے تھا لیکن انہوں نے بہت عمدہ انداز میں کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مصنف نے ایک گاؤں میں بسنے والے خاندان اور ان کے اردگرد کے ماحول پر جنگ کے اثرات کو اس سادگی سے بیان کیا ہے کہ معیارِ زندگی اور انسانی نفسیات اور تعلقات کا احوال بچے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اسے پڑھنے کے دوران جب غذا کی قلت ہونے پر شکر قندی کے پتوں کا پھیکا سوپ روزانہ پیے جانے کا ذکر ہوا جس میں نمک تک ڈالنے کو نہ ملتا تھا کہ ذائقہ بڑھایا جا سکے تو غزہ کے وہ بچے میری نظروں کے سامنے آ گئے جو گھاس توڑ کر کھا رہے تھے کیونکہ کمبخت پیٹ تو غذا مانگتا ہے۔ ایسے میں مجھے اپنی نئی نسل پر ترس آیا جو اس قدر لاڈلی ہے کہ اگر ماں ٹینڈے یا کدو تمام لوازمات کے ساتھ کھانے کے لیے پیش کرے تو منہ بنا کر دستر خوان سے اٹھ جاتے ہیں کہ بھوک ہی اڑ گئی، اگر ماں کوئی پسند کی چیز بنا کر نہ دے تو بازار سے پزا یا برگر وغیرہ آرڈر کر کے پیٹ کی آگ کو بجھانے کا سامان کیا جاتا ہے۔
کہانی ابھی یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ معاملہ بھوک سے آگے جا پہنچتا ہے اور گاؤں کے نوجوانوں کو جنگ کا حصہ بننے کے لیے بھیجا جاتا ہے جن میں آدھے سے زیادہ کبھی واپس نہ آئے۔ ایک ضعیف ماں کے دونوں جوان بیٹے جنگ میں مارے جاتے ہیں اور اس کا سہارا اب ایک کتا رہ جاتا ہے۔ یہاں مجھے علامہ اقبال کا وہ شعر بہت شدت سے یاد آیا
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
معاملہ اب بھی ختم نہیں ہوا کیونکہ سرکار حکم دیتی ہے کہ فوجی کتوں کے علاوہ ملک کے تمام کتوں کو مار دیا جائے کیونکہ حکومت انسانوں کے لیے راشن پورا نہیں کر پا رہی ایسے میں کتوں کو زندگی کا سامان مہیا نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس بزرگ خاتون سمیت گاؤں کے تمام مالکان کو اپنے کتے ندی کنارے لانے کو کہا جاتا ہے تاکہ انہیں مار دیا جائے۔ ایسے میں ”مایا“ جو ایک بچے کا کتا ہے۔ اسے بچانے کے لیے اس بچے کے ماں باپ بھی کئی جتن کرتے ہیں کہ یہ کتا ہمارے گھر کا فرد ہے، ہمارے بچوں کا دوست ہے اسے نہ مارا جائے اور بالآخر ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود کتے کو مار دیا جاتا ہے اور وہ ان کی دہلیز پر آ کر دم توڑ دیتا ہے۔
خدا نہ کرے کہ ارضِ پاک پر ایسا وقت آئے کیونکہ ہماری تربیت اس طور کہاں ہوئی ہے کہ ہم اس قدر قربانیاں دے سکیں۔ غذا کی قلت کی صورت میں جانور تو درکنار انسان کی جان خود انسان کے ہاتھوں خطرے میں ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایسی صورتحال میں نئی نسل کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ مشکل حالات سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔ انسانیت اور حیوانیت کے فرق کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ قربانی کسے کہتے ہیں، صبر و تحمل اور اخلاص کا دامن قومیں کیسے تھامے رہتی ہیں تاکہ پھر سے اٹھ کھڑی ہوں۔ اس نہج پر سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ زندگی محض کھیل تماشا نہیں ہے۔
- مُوکُوہاتوجُو کی مایا - 07/05/2025
- سن رسیدہ بھنورا - 24/01/2025
- بیمار کے تیماردار - 17/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).