پاکستان بھارت جنگ کے ایک اور راؤنڈ کا عندیہ
عسکری امور کے ’’ماہرین‘‘ اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے مجھ جیسے ’’عقلِ کل‘‘ دو ملکوں کے درمیان کشیدگی یا جنگ کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ ہماری ’’عالمانہ‘‘ گفتگو میں خلقِ خدا کے دلوں میں اْبلتے جذبات کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ محض نصابی معیار سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ جنگ میں ملوث فریقین کے مابین ’’حساب‘‘ کب برابر ہو گا اور امن کے لئے مذاکرات کی گنجائش کب نکلے گی۔
کسی اور کو دوش دینے کے بجائے میں اپنی سوچ کا جائزہ لینے کو ترجیح دوں گا۔ اپریل 22ء کے روز مقبوضہ کشمیر کی وادی بائی سرن میں ہوئے دہشت گرد واقعہ کے بعد بھارتی میڈیا نے 24/7 چیخ پھاڑ سے پاکستان کو مذکورہ حملے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ بغیر کسی ثبوت کے مطالبہ یہ ہونے لگا کہ پاکستان کو اس واقعہ کا ’’سبق‘‘ سکھایا جائے۔ مودی کی گود میں بیٹھے میڈیا میں مچائی اس نوعیت کی دہائی سے میں پریشان نہیں ہوتا۔ ’’گودی میڈیا‘‘ مودی کے چہیتے سرمایہ کاروں کی دی خیرات سے چلایا جاتا ہے۔ اسی باعث چند اپوزیشن جماعتیں اپنے جلسوں اور جلوسوں میں نریندر مودی کے بجائے ’’اڈانی/ امبانی کی سرکار‘‘ کے خلاف نعرے لگاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ دونوں بھارت کے سیٹھوں کی صفِ اوّل میں نمایاں ترین ہیں۔ اڈانی کی دو نمبریاں بین الاقوامی سکینڈل بنا چکی ہیں۔ امبانی خاندان اپنے ہاں ہوئی شادیوں میں ’’شہدے پن‘‘ کے نئے ریکارڈ بناتا رہتا ہے۔ ’’گودی میڈیا‘‘ سے زیادہ مجھے ’’سیٹھوں سے آزاد‘‘ ہوئے ان یوٹیوب چینلوں نے مایوس کیا جو کچھ ایسے بھارتی صحافی چلاتے ہیں جن کو میں 1990 کی دہائی کے آغاز سے شناسائوں کے بجائے ’’دوست‘‘ گردانتا تھا۔ وہ اور ان کے مہمان مودی سرکار کو پاکستان کے خلاف جنگ کے لئے اْکسانے میں ’’گودی میڈیا‘‘ سے بھی دو قدم آگے بڑھے سنائی دئے۔ کتابوں سے کہیں زیادہ مجھے ان کے اپنائے رویے نے بالآخر سمجھا دیا کہ ہر حوالے سے ’’لبرل‘‘ زندگی گزارنے والے محمد علی جناح دوقومی نظریہ اپنا کر برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کرنے والی تحریک کے ’’قائد اعظم‘‘ کیوں قرار پائے تھے۔
اپنی مایوسی کے ذکر میں الجھا تو اصل موضوع بھلا دوں گا۔ نصابی ذہن سے سوچتے ہوئے یہ طے کرنے کو مجبور ہوا تھا کہ ’’گودی میڈیا‘‘ میں جو شور برپا ہے وہ بھارتی حکومت کو پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے سے باز نہیں رکھ پائے گا۔ اتفاقاََ منگل کی شام اپنے کئی صحافی دوستوں سے گفتگو کرتے ہوئے میں اس رائے پر ڈٹا رہا۔ میرے دوستوں کی اکثریت اگرچہ یہ سوچ رہی تھی کہ دور رس اقتصادی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مودی سرکار جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ بھڑکانے سے گریز کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ تصور بھی مقبول ہو رہا تھا کہ مودی کا انتہائی قریبی دوست مشہور ہوا امریکی صدر ٹرمپ پاک- بھارت جنگ ٹالنا چاہ رہا ہے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے ہرگز خوشی نہیں ہورہی کہ منگل کی رات ہی میں درست ثابت ہوا۔
بدھ کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے تک میرا ’’تجزیہ‘‘ تھا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات جو رائونڈ ہوا ہے ’’اخلاقی‘‘ اعتبار سے پاکستان نے جیت لیا ہے۔ نام نہاد بین الاقوامی دنیا کی نگاہ میں بھارت پہل گام میں ہوئے واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کئے بغیر پاکستان کے نو مقامات پر میزائل برسانا شروع ہو گیا۔ اس کا مرکزی ہدف مساجد ہیں جن سے ملحق مدرسوں کو وہ ’’دہشت گردی‘‘ کی نرسریاں قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ چند مقامات کو ’’تربیتی کیمپ‘‘ ٹھہراتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں اگرچہ ایسے کوئی شواہد فراہم نہ کئے جو ثابت کریں کہ جس مقام کو میزائل سے اڑایا گیا وہاں کب، کس برس اور کون سے ’’دہشت گرد‘‘ تربیت لینے میں مصروف تھے۔ گنجان آبادی کے درمیان قائم عمارتوں کو پیشہ وارانہ افواج ہدف بنانے سے گریز کرتی ہیں۔ بھارت نے مذکورہ اصول مگر رعونت سے بھلاتے ہوئے 31 شہریوں کو اپنے حملوں سے شہید کر دیا۔ گھریلو خواتین اور معصوم بچے ان میں شامل تھے۔ پاکستان نے بھارت کے برعکس فقط میزائل برسانے والے جہازوں میں سے پانچ مار گرائے۔ اس کے علاوہ صرف فوجی تنصیبات پر جوابی حملے کئے۔ یوں میری ناقص رائے میں پاکستان نے پہلا رائونڈ ’’اخلاقی‘‘ اعتبار ہی سے نہیں بلکہ جنگی منطق کے اعتبار سے بھی جیت لیا۔ فرانس سے بہت چائوسے خریدے رافیل طیارے کی تباہی اس ضمن میں بھارت کی سبکی کے لئے ’’موراوور‘‘ محسوس ہوئی۔
مجھے گماں تھا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات ہوئے ’’یدھ‘‘ کے ذریعے بھارت اور پاکستان نے اپنے اپنے انداز میں حساب برابر کردیا ہے۔ ان دونوں کے مابین جنگ کے ایک اور رائونڈ کی اب ضرورت نہیں رہی۔ بدھ کے دن صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے بھی تقریباََ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ بدھ کی سہ پہر لیکن بہاولپور کے رہائشیوں کے جذبات سے آگہی میسر ہوئی۔ میرے کئی متحرک صحافی دوستوں نے ایسے کئی نوجوانوں سے گفتگو کی جو منگل اور بدھ کی درمیانی رات ہوئے حملوں کے شہیدوں کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔ ان سب کی متفقہ رائے تھی کہ ’’حساب برابر نہیں ہوا‘‘۔ بھارت نے پاکستان کی خودمختار سرحد کو پامال کرنے والے میزائل بھیج کر پاکستان اور آزادکشمیر کے شہروں میں قائم عمارتوں کو نشانہ بنایا۔شہری آبادی میں سے 31 کو شہید کیا۔ ان شہداء میں گھریلو خواتین اور ایسے معصوم بچے اور بچیاں بھی شامل تھے جن کی اکثریت ابھی تک دس سال کی عمر تک بھی نہیں پہنچی۔ نماز جنازہ میں شرکت کے بعد اس کے دیگر شرکا سے تفصیلی گفتگو کر کے صحافی دوست مجھے بتاتے رہے کہ وہاں موجود لوگ غصے سے بپھرے ہوئے تھے۔ ان کا اجتماعی مطالبہ تھا کہ پاکستان بھی بھارت کی سرحد پار کرتے ہوئے اپنے میزائلوں کے ذریعے اس کے شہروں میں قائم عمارتوں کو نشانہ بنائے تاکہ ’’حساب برابر‘‘ ہو سکے۔
مذکورہ جذبات سے آگہی کے بعد میں بدھ کے روز ہوئی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اختتام پر جاری ہوئی پریس ریلیز کے ایک ایک لفظ کو دو سے زیادہ بار پڑھنے کو مجبور ہوا۔ اس کی کئی سطریں خط کشیدہ کے ذریعے نمایاں کرتے ہوئے احساس ہوا کہ حکومت پاکستان اور ریاستی ادارے ان جذبات سے غافل نہیں جو بہاولپور کے صحافیوں کی بدولت مجھ تک پہنچے ہیں۔ عوام کے دلوں میں اْبلتے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف نے بدھ کے روز پہلے قومی اسمبلی اور بعدازاں قوم سے براہ راست خطاب کیا۔ وزیر اعظم کے خطاب کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی ڈیجیٹل شواہد کے ذریعے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بھارتی جارحیت کا کس انداز میں جنگی اہداف پر نگاہ رکھتے ہوئے جواب دیا گیا ہے۔ ان دو تقاریر کے باوجود جمعرات کی صبح یہ کالم لکھنے سے قبل بھارتی ڈرون طیاروں کی دراندازی کی خبریں آئی ہیں۔ یہ خبریں مجھے پاک – بھارت جنگ کے ایک اور راؤنڈ کے لئے ذہنی طور پر تیار کر رہی ہیں۔
(بشکریہ نوائے وقت)
- جنوبی افریقہ میں”گوروں کے قتلِ عام” کی کہانی - 23/05/2025
- فیلڈ مارشل کے اعزاز کے حقیقی مستحق عاصم منیر - 22/05/2025
- افغانی”کام کا بندہ” ابراہیم صدر - 21/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).