فسطائیت اور فلم سازی کی چومکھی
انڈر کور فلم میکنگ دنیا میں کہیں نہیں ہوتی سوائے ایران کے۔ آرٹ سینما کے یہ بے تاج بادشاہ، نت نئے، ہم عصر اور اچھوتے موضوعات پر فلمیں تو بناتے ہیں مگر سرکار سے چُھپ کر۔ فلم ریلیز ہوتی ہے تو جیل چلے جاتے ہیں۔ سزا کاٹ کر نکلتے ہیں تو پھر فلم بناتے ہیں۔ سو، ایرانی ریاست اور متوازی سینما کے ان فلمی ہدایت کاروں کے مابین آنکھ مچولی کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ مگر کہانی کہنے پر کسی طور کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔
2024 ء میں کانز فلم فیسٹیول پر ایسی ہی ایک فلم آئی۔ ”دانہ ی انجیر معاہد ( دی سیڈ آف سیکرڈ فِگ )“ جس کے ہدایتکار محمد رسولوف ہیں۔ ایران کی سڑکوں پر 2022 ء میں ’زن، زندگی، آزادی‘ کے نعرے سے اٹھنے والی نسائی بغاوت اس فلم کا موضوع ہے۔ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غیر مسلم عورتوں پر بھی لازمی حجاب کے قوانین کی پاسداری واجب ہے۔ اور اخلاقیاتِ عامہ کی پہرہ دار پولیس لازمی حجاب کے قانون کی منکرہ کو جیل میں ڈال کر سُدھارنے کی پابند ہے۔ اس قانون کو لے کر وہاں وقتاً فوقتاً چنگاری اٹھتی رہتی تھی، جو فوراً ً بجھا دی جاتی تھی۔ مگر مھسا امینی کی بار معاملہ الٹ ہو گیا۔ پولیس کی جانب سے زد و کوب کی وجہ سے مھسا تو نہ رہی مگر وہ اپنے پیچھے عورتوں کا سیلاب سڑکوں پر لے آئی۔ اس باغی ہجوم نے اپنے ڈوپٹے سروں سے اتار کر چوک میں جلا دیے۔ اور ڈٹ کر اپنے حق کے لئے بات کی۔ حکومت نے سرکاری میڈیا پر خبریں سنسر کیں۔ سوشل میڈیا کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی مگر وی پی این زندہ باد۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کی یہ پہلی منظم بغاوت تھی۔ جو ایران کے 134 شہروں تک پھیل گئی۔
یہ فلم ایسی ہی ”دخترانِ خیابانِ انقلاب“ کی کہانی ہے جو آزادی چاہتی ہیں۔ جو مذہب کے نام پر ریاستی طشت میں سجائی گئی مقدس انجیر کی پوجا کر کر کے خود پتھرا گئی ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ ان کا حقِ خود ارادیت کسی محرم سے نتھی ہو۔ وہ اپنے باپ، بھائی یا شوہر کے سامنے بھی اپنے لئے بولنا جانتی ہیں۔ اور وسیع تر ملکی مفاد کے نام پر ریاستی بیانیے کے شکنجے میں نہیں آ سکتیں۔ اس فلم میں مزاحمت کی آواز احتساب عدالت کے ایک افسر کے اپنے گھر سے اٹھتی ہے اور عدالت میں روزانہ لڑکیوں کو سزائیں دینے والا یہ باپ اپنی ہی بیٹیوں کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔
2024 ء میں انقلاب کی داعی ان عورتوں پر زندگی مزید تنگ کر دی گئی۔ درجنوں کو ایران کی سرکار نے مارا، سینکڑوں زخمی ہوئیں اور ہزاروں نے جیل کی ہوا کھائی۔ لازمی حجاب کے قوانین اور اس کی سزائیں اور تنگ کر دی گئیں۔ ایسے میں میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ یہ فلم پھر کیسے بن گئی؟
ہدایت کار محمد رسولوف اور ان کی ٹیم نے شدید پابندیوں کی وجہ سے چھپ چھپا کر اس فلم کی شوٹنگ کی۔ کل سامان تھا ایک کیمرہ، مانیٹر، آڈیو سیٹ اور کچھ لائٹیں۔ آؤٹ ڈور میں لائٹس بھی مائنس۔ ہر لوکیشن پہ اصل سکرپٹ کے ساتھ پلان بی کے طور پر ایک دوسرا سکرپٹ رکھا جو چھاپہ پڑنے کی صورت میں پولیس کو دکھایا جا سکے۔ حتیٰ کہ اداکاروں نے بھی کام کے دوران پوری رازداری کا مظاہرہ کیا اور انڈر کور شوٹنگ کو اتنا یقینی بنایا کہ کوئی ان کی لوکیشن بھی ٹریس نہ کر سکے۔ لوکیشن پہ سیل فون بند، اے ٹی ایم کا استعمال پورے عملے کے لئے ممنوع۔ فلم کے ہدایتکار محمد رسولوف کا کہنا ہے کہ ہم اکثر ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے ہم کوئی غنڈے، بدمعاش یا اشتہاری ہیں جو ریاست سے چُھپ چُھپ کر فلم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس ساری احتیاط کے باوجود فلم کی شوٹنگ کے بیچوں بیچ محمد پر پرچہ ہو گیا اور باقی کی شوٹنگ انہوں نے عدالت میں کیس کی پہلی اور دوسری ہیئرنگ کے درمیان مکمل کی۔ کیس کی دوسری شنوائی پر انہیں آٹھ سال کی قید ہو گئی۔ مگر پہلے کے برعکس اس بار محمد رسولوف نے جیل نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ ایک طرف فلم کی ایڈیٹنگ جاری تھی تو دوسری طرف محمد ایران سے بھاگنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اور پھر بالآخر غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کر کے بے سروسامانی کے عالم میں کسی طرح جرمنی پہنچ گئے۔
اس دوران فلم کے کانز فلم فیسٹیول میں پیش کیے جانے کے چرچے ہونے لگے اور محمد کو کانز سے بلاوا آیا۔ مگر جاتے کیسے؟ پاسپورٹ تو ایرانی حکام کے پاس ضبط تھا۔ جرمن سرکار نے ان کے لیے خصوصی طور پر سفری کارڈ جاری کیا اور ان شدید حالات سے گزر کر محمد رسولوف چہرے پر مسکراہٹ لیے کانز کے ریڈ کارپٹ پر عالمی میڈیا کے سامنے جلوہ افروز ہوئے۔ تب تک فلم کے بیشتر اداکار ملک سے بھاگ چکے تھے اور اس فلم سے وابستہ جتنے لوگ ایران میں تھے، انہیں ہراساں کیا جا رہا تھا۔
کانز میں پریمیئر ہوا اور یہ فلم اتنی پسند کی گئی کہ سامعین پندرہ منٹ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے۔ اس فلم کو اسپیشل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں اور بھی کئی ایوارڈز اس فلم کے نام ہوئے۔
یہ فلم ریاست کی طرف سے اپنی آدھی آبادی کے ناک میں ڈالی ہوئی نکیل کے خلاف حقارت آمیز بیانیہ ہے۔ جس میں جواب تو کوئی نہیں مگر سوال بہت سے ہیں۔
- فسطائیت اور فلم سازی کی چومکھی - 09/05/2025
- بھک منگوں کا ہجوم - 06/09/2024
- عوامی دانش کسے کہتے ہیں؟ - 10/04/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).