تنہا: سابق مشرقی پاکستان پر لکھا گیا ناول (11)


Loading

آج جب اس نے اپنی دھوتی کے ڈب سے ایک پیسہ نکالا تو اسے دکھ ہوا فیری گھرڑ گھرڑ کرتی کنارے سے لگ گئی تھی۔ لوگ دھڑا دھر اتر رہے تھے۔ اور جب وہ اپنے سبز رس دار خوشبوئیں اڑاتے آموں کے ٹوکرے کو اٹھانے کے لئے جھکا تو بڑبڑایا۔

”یہ حرامزادہ اب یہیں بیٹھا رہے گا ہماری چھاتی پر مونگ دلنے کو۔ جا کیوں نہیں چکتا کلکتے، یہ دیش اب ہمارا ہے اس کا یہاں کوئی کام نہیں۔“

ابھی ہاٹ بہت دور تھا۔ راستے میں کتنے ہی ندی نالے آتے تھے۔ باقی جگہوں پر تو کسی نہ کسی یار بیلی کی ڈونگی سے کام چل جاتا تھاپر اس ایک سو اسّی گز چوڑے دریا پر داس بابو نے فیری چلا رکھی تھی جو ایک پیسہ فی آدمی کے حساب سے کرایہ لیتی تھی۔ آموں سے بھرا ٹوکرا ہاٹ میں پانچ آنے میں اٹھتا۔ اس کے آم بن گاؤں سے کھلنا پہنچتے تھے۔

اور جب وہ سوکھا مریل سا چھوکرا اس سے کرایہ لینے کو آیا تو اس نے بے رخی سے پیسہ اس کی طرف پھینکا اور اپنے ساتھی سے بولا۔

” نورالانوار۔ اب تو پاکستان بن گیا ہے یہ داس بابو کب دفع ہو گا؟“
”دیکھو اللہ سب ٹھیک کرے گا۔ اس نے پاکستان ہمیں دے دیا اب اس سے بھی ہماری جان وہی چھڑائے گا۔“
اور بارش کے قطرے اپنی ننگی کمر پر ایک ہاتھ سے پونچھتے ہوئے اس نے آموں کے جھنڈوں کو دیکھا اور بولا۔
” ہاں مولا کا کرم ہے۔ اپنے جیون میں تو مجھے اس دن کی آس نہ تھی۔“

اور پدما کی ان بیکراں لہروں پر تیرتی کشتیوں کے مٹیالے بادبانوں کو انہوں نے ڈھیلا کیا۔ انہیں کنارے لگایا اور زمین پر قدم رکھا۔ وہ ہنستے شور مچاتے ایک دوسرے کی طرف بڑھے اور گلے ملے ان کے قہقہے اس خاموش فضا میں گونجے جہاں ناریل کے درختوں کی بہتات تھی۔ تب ڈاب کاٹ کاٹ کر پیتے ہوئے انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ انگریز اور ہندو جاگیرداروں کے چنگل سے آزاد ہوئے ہیں۔ یہاں انہوں نے اس نئے ملک کی سلامتی اور بقا کے لئے بھی دعائیں مانگیں۔ وہ تعداد میں سات تھے۔ ان کی عمریں بیس اور تیس کے درمیان تھیں۔ رنگ برنگی میلی کچیلی دھوتیاں لنگوٹیوں کی شکل میں ان کے تن پر بندھی ہوئی تھیں۔ سیاہ جلد چمک رہی تھی یہ وہ تھے جو سالہا سال سے یہی کام کر رہے تھے پر بھی پیٹ پالنا ان کے لئے مشکل تھا۔ پو پھٹنے سے بہت پہلے وہ اپنے جالوں کو دریا میں پھینکتے۔ مچھلیاں پکڑتے اور انہیں شہر میں اونے پونے بیچ آتے۔

آج وہ خوش تھے۔ پر ان میں وہ مخلص الرحمن جو ابھی بیس سے بھی کچھ کم ہی تھا اداس تھا۔ اس کی پاربتی جو جا رہی تھی۔ اس کے بغیر وہ بھلا کیسے جی سکے گا۔ یہی اسے سمجھ نہ آ رہی تھی۔ اور یوں یہ اس کا بھی دیش تھا۔ اس کی جنم بھومی تھا۔ کیسے روئی تھی وہ رات اس کے سینے سے لگ کر۔ تب اس نے گھٹی گھٹی آواز میں اس سے کہا تھا۔ تم مت جاؤ یہیں رہ جاؤ۔

پر وہ سسکتے ہوئے بولی۔

” نہیں یہ دیش اب مسلمانوں کا ہے۔ ماتا کہتی ہیں کہ وہ ہمیں مار ڈالیں گے کیونکہ اب ان کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔ اور یوں بھی ہم تو زمیندار بابو کے خادم ہیں جہاں وہ جائیں گے ہمیں وہیں جانا پڑے گا۔“

وہ چپ رہا۔ کہتا بھی کیا۔ پاربتی کے ہم مذہبوں نے تو اس کی قوم کو اقتصادی موت مار ڈالا تھا اب مسلمان حاکم آ جائیں گے۔ تو وہ ان سے نہ جانے کیسا سلوک کریں وہ اسے ٹھہرنے پر زور بھی دیتا تو کس بل بوتے پر؟

بدلیاں جھوم جھوم کر آ رہی تھیں۔ وہ اٹھے انہوں نے کشتیوں میں پڑے جالوں میں تڑپتی مچھلیوں کو نکالا اور شہر کی جانب ایک نئے عزم کے ساتھ چل دیے۔

یہاں سلہٹ کی ان اونچی نیچی سر سبز پہاڑیوں پر پودوں سے چائے کے پتے توڑتے ہوئے اسے بے حد تھکان احساس ہوا اس کی آنکھیں درد کر رہی تھیں اور جی بھی ماندا تھا ان دنوں اس کے کام کی رفتار بہت سست تھی دن بھر میں من پتے بھی نہ توڑ پاتی۔ پیٹ میں ایک اور جان بھی کلبل کلبل کرتی تھی اللہ ماری جانے کیسی شیطانی روح تھی جو اسے کسی پل چین ہی نہ لینے دیتی۔

کمر کے پیچھے لٹکی ٹوکری اب بھر رہی تھی اور اٹھانی مشکل ہور ہی تھی رابعہ نے جو اسے یوں ڈھیلا ڈھیلا دیکھا تو بولی۔

” سلطان کیا کرتا ہے؟ وہ پتے کا ہے کو نہیں توڑتا؟“

”اے کیا کہوں؟ وہ وہاں باشا میں تاڑی پیتا ہے اور پاکستان کی باتیں کرتا ہے۔ بولتا ہے سوراج مل گیا ہے۔ سلہٹ پاکستان میں آ گیا ہے۔ میں کہوں ہمیں کیا فرق پڑا تو چلاتا ہے اور گالیاں دیتا ہے۔“

اور نارائن گنج کے اس گاؤں میں گھنٹوں گھنٹوں پانی کھڑا تھا۔ وہ اب تھک گیا تھا اس نے ایک نظر اپنے بابا کو دیکھا۔ جس کا پیٹ ساتھ چپکا ہوا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی بہت ابھری ہوئی تھی اور جو وقت سے بہت پہلے بوڑھا ہو گیا تھا۔

”بابا تم آرام کرو باقی کام میں کیے لوں گا۔“

یہ ابو منصور تھا۔ کہنے کو وہ بائیس تئیس سال کا تھا پر اس کی صورت دیکھ کر یہی جان پڑتا تھا کہ اس نے پانچ سال یونہی ہضم کر لئے ہیں۔ تھکن کی باوجود اس کے چہرے پر بشاشت تھی اسے اپنے گردوپیش کی ہر چیز بہت سندر نظر آ رہی تھی یہ کھیت جس میں وہ اس وقت کھڑا تھا پار سال دریا کاٹ کر لے گیا تھا۔ یہی تو ان کی کل کائنات تھی۔ اللہ نے کرم کیا۔ دوہری خوشیاں دکھائیں۔ کھیت بھی اس سال دریا چھوڑ گیا اور پاکستان بھی انہیں مل گیا۔

اور وہ لڑکا جو پاکستان بن جانے کی خوشی اس دھوم دھام سے منا رہا تھا کہ کسی طرف متوجہ ہی نہ ہوسکا تھا۔ اب چونکا۔ دادو بہت خاموش تھے اور پریشان بھی۔

”ارے! یہ دادو خوش نہیں۔ اب یہ کیوں چپ ہیں؟ پاکستان تو ہمیں مل گیا ہے۔“
تب وہ ان کے پاس جا بیٹھا۔ ایک ٹک انہیں پڑھتے دیکھتا رہا۔ تب بولا۔
”دادو!“

انھوں نے کتاب پر جھکا سر اُٹھا یا، نظر بھر اس لڑکے کو دیکھا جو انھیں مایوسی سے دیکھ رہا تھا اور پوچھا :

”یہ جھنڈا جو تم نے باشا پر لہرا رکھا ہے، بہت اچھا ہے۔ کس نے بنایا ہے؟“
میں نے اور عبداللہ کی بہن جھرنا نے۔ دادی ماں کی سبز ساڑھی پھٹ گئی تھی، بس اسی سے بنایا ہے۔
”دادو!“ ۔ وہ کچھ دیر بعد بولا۔
” آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟“

اور فی الواقع وہ بہت پریشان تھے۔ ڈھیر سارے لوگوں میں بیٹھ کر اور ان سے باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بار بار بھیگتیں۔ ان کی آواز کبھی تیز اور کبھی ڈوب جاتی۔ ایسے دکھ کی سمے ان کا من کتابوں میں بھی نہ لگتا۔ وہ جو رسیا تھے پڑھنے کے۔ اب کتاب اٹھاتے اس پر نظریں جماتے اور اکتا کر پھینک دیتے۔ کیسی عجیب بات تھی کہ وہ اداس تھے۔ انہوں نے تو منزل پالی تھی۔ جس دیش کی تمنا کی تھی وہ انہیں مل گیا تھا۔ پر پھر بھی اداسی طاری تھی اُن پر۔ یہ بہار او ر پنجاب میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح جو بہنے لگا تھا۔ اس نے تو انہیں اس نئے دیش کی خوشی منانے کی مہلت بھی نہ دی تھی۔

”دادو میں نے آپ سے کیا پوچھا ہے؟“
انہیں یوں دیکھ کر اس لڑکے کا دل کٹنے لگا تھا۔
”بچہ یہ مسلمانوں کا قتل عام جو ہو رہا ہے۔“
اسے ان کے تفکر کا تھوڑا اندازہ ہوا پھر وہ بولا۔
” آپ اتنے پریشان نہ ہوں۔ وہ لوگ تو اتنی دور ہیں آپ سے۔“

”یہ تم ابھی نہیں سمجھ سکتے۔ جو ان ہو جاؤ گے تو معلوم ہو گا کہ یہ روحوں کا تعلق ہے جس میں فاصلوں کی کوئی گنجائش نہیں۔“

انہوں نے اپنے آپ سے کہتے ہوئے آنکھیں موند لی تھیں۔
جاری ہے۔
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments