گریٹا تھنبرگ: نار نمرود بجھانے والی فاختہ


Loading

جس عمر میں اکثر بچیاں گڈیاں پٹولے کھیل رہی ہوتی ہیں اسی عمر میں ایک بچی ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے والی سب سے طاقتور شخصیت کے طور پر بے فکرے رہنماؤں کو للکار رہی تھی۔ طوفان بے حسی میں ڈوبتی انسانیت کے لیے سفینہ نوح کی آخری پکار، ہماری دھرتی کے رکشک، بائیس سالہ گریٹا تھنبرگ کے لیے ”Friday for Future“ سے بھی ”Ceasefire Now“ کا سفر، زیادہ سقر، یوں ہوا کہ اس کے کئی مغربی ساتھی بھی اسے چھوڑ گئے۔ لیکن اس نڈر لڑکی نے اپنے ضمیر کی آواز پر نہ صرف لبیک کہا بلکہ اس نے اقوام عالم پر اپنے اخلاقی وجود کی وہ گہری چھاپ مرتب کی کہ اب رہتی دنیا تک وہ سسکتی انسانیت کے لیے نفس مسیح اور اس بحر ظلمات میں کشتی نوح سمجھی جاتی رہے گی۔

میڈلین پر سوار جب وہ شانوں پر کو فیہ ڈالے، داہنے بازو کو ہوا میں بلند کیے مکا بنا رہی تھی اور اس کے سر سے ذرا بلند، فلسطینی پرچم لہرا رہا تھا، تو اس کی روح، جعلی مسلمانی کا دم بھرنے والوں کو اقبال کی زبان میں کہہ رہی ہوگی

’ پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘ ۔ وہ اور اس کے 11 جانباز رفیق دو ارب مسلمانوں، بشمول عربوں کے، نہیں بلکہ آٹھ ارب سے زائد انسانوں کی زندہ لاشوں کا نوحہ پڑھ رہے تھے، تو میرا وجدان کہتا ہے کہ فرشتے آدم کی افضلیت پر رشک کر رہے ہوں گے اور ابلیس لعین مجلس اسرائیلاں میں غصے سے لال پیلا، نتھنے پھلائے کہہ رہا ہو گا،

”ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی“

سنا ہے آٹزم کا شکار مریض کسی ایک دلچسپی کو ہی اپنا جیون سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس دھرتی ماتا کی خوش بختی کہ گریٹا کی توجہ گاہ ماحولیات کا تحفظ ٹھہری۔ اس نے آٹزم کو آؤٹ کلاس کر دیا اور نفرت، علاقائیت، وحشت، بربریت اور تعصبیت کے سب اصنام بھی پاش پاش کر ڈالے۔

ماحولیاتی تحفظ جیسے غیر دلچسپ بلکہ غیر شہرت بخش موضوع کو گلیوں، پارکوں، چوراہوں اور پارلیمنٹ کی ایوانوں تک لانے میں کلیدی کردار اس ننھی جان کا ہے۔ قسام ازل نے اس کے تعلیمی ہفتہ میں جمعہ کا دن دھرتی کی حفاظت کے لیے لکھا تھا۔ سو ہر جمعہ کو وہ کبھی ہمارے مستقبل کے لیے بستہ سمیت کسی گلی، چوک میں دھرنا دے کر بیٹھ جاتی اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کر معاملے کی نزاکت کا احساس دلاتی اور کبھی وہ ایوان پارلیمنٹ کی رہ گزر پر چوکڑی مارے ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے کے لیے ممبران پارلیمنٹ کے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہوتی۔

ہمارے انقلابی سٹالنوں کے برعکس چاسر کے مصرعے That first he wrought and afterwards he taught ”کی مصداق اس زاہدہ خشک نے کھانا پینا کم کر دیا، جہازوں کے اسفار ترک کر دیے، غیر ضروری روشنیاں بجھا ڈالیں اور پورے خاندان کو صرف الیکٹریکل وہیکل تک محدود کر دیا۔ اسی اخلاص عمل کا نتیجہ ہے کہ پھر اس کی بات سنی گئی اور کارواں بنتا گیا۔ پھر کبھی اقوام متحدہ میں اس کی بازگشت سنائی دی تو کبھی نوبل انعام کے لیے اس کا نام تجویز کیا جانے لگا۔

دو ہزار انیس میں جب وہ اپنے مستقبل (جو کہ ہم سب کا مستقبل ہے ) کے ساتھ کھلواڑ کرنے پر عالمی رہنماؤں کو للکار رہی تھی تو اس کی آواز گویا نفخہ صعق تھا جس کی شدت سے ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پیوٹن بھی لرز اٹھے تھے۔ ٹرمپ گرگ دہن آلود اسے طنزیہ روشن مستقبل دیکھنے والی خوش مزاج لڑکی کہہ رہا تھا تو پیوٹن اسے دنیا کی تلخ حقائق سے نابلد لڑکی پکار رہا تھا۔ نسل، قومیت، مذہب، علاقائیت سے اٹھ کر جب اس نے زمین اور اس کے مکینوں کی بات کی تو کھلنڈرے، کوڑھ مغز حکمران اسے anger management class لینے کے مشورے دینے لگے۔

پوری دنیا کے بے حس اداروں کی ناکامیوں اور ناجائز حکومتوں کی نا مرادیوں کے مقابلے میں فریڈم فلوٹیلا کے امدادی مشن کے جانبازوں کے ابتدائی جہاز پر ڈرون حملوں کے باوجود گریٹا اور اس کے گیارہ ہم نوا اسرائیلی محاصرے اور  گھناؤنے منصوبے کو بے نقاب کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات سے محروم بھوک و افلاس و پیاس سے جاں بلب سسکتے معصوم بچوں تک خوراک کے چند دانے بھی پہنچا نا پانے کے باوجود گریٹا اب بھی ضمیر کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

”The world cannot be silent bystanders.This silence and passivity that we are seeing from most of the world is deadly.“

اب میڈلین سے اس کی کسی ساتھی کی آواز آ رہی ہے۔ ”پینٹ کی طرح کا مواد آنکھوں کو جلا رہا ہے۔“ کوئی چلا رہا ہے، ”وہ ہماری کمیونیکیشن کو جام کر رہے ہیں۔“ کوئی کہہ رہا ہے، ”Everyone، we are under attack“ ۔ گریٹا بول اٹھتی ہے، ”ہمیں اسرائیلی فورسز نے گرفتار کر لیا ہے۔“ تو یاسمین اجر کی آواز آتی ہے، ”کیمیکلز گرا رہے ہیں اس سے بہت بری بدبو آ رہی ہے۔ ہم۔ نے خود کو بچانے کے لیے فلسطین کا پرچم اٹھا لیا ہے۔“

اب بظاہر یہ کریو اسرائیلی قبضے میں ہے۔ بچوں کا فارمولہ، خوراک اور طبی امداد کا سارا سامان بھی ضبط ہو چکا ہے۔ وہ علامتی قلیل راشن بھی لاچارگان کو میسر نہ ہوا۔ مگر روز حشر نار نمرود بجھانے والی یہ فاختہ کہہ تو سکتی ہے کہ میری بے بضاعت چونچ میں گنجائش ہی کتنی تھی۔ ارنسٹ ہیمنگوے سے معذرت کے ساتھ ”A woman can be destroyed but not defeated“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments