تذکرہ کچھ ذاتی پریشانی کا
وضع داری ہی نہیں جس اندازِ صحافت کا میں عادی ہوں اس کی اخلاقیات کا بھی تقاضہ ہے کہ اخبار کے لئے لکھے کالموں میں ذاتی پریشانیوں کے ذکر سے گریزاختیار کیا جائے۔ مذکورہ تقاضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہاتھ میں قلم پکڑے تقریباََ 20منٹ گزرگئے۔ پہلا لفظ بھی نہ لکھ پایا۔ اچانک مگر یہ خیال آیا کہ جس پریشانی نے مجھے منگل کی صبح دس بجے سے دوپہر کے تقریباََ اڑھائی بجے تک گھیرے رکھا ویسی پریشانی کا اس کالم کے باقاعدہ قارئین کی وافر تعداد کو بھی خدانخواستہ سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ ان کے بھلے کی خاطر لہٰذا ذاتی تجربے کو بیان کردینا چاہیے۔
مختصر ترین الفاظ میں کہانی ہے کہ میری بیوی، بچی اور داماد سمیت جمعہ کی صبح سکردو پرواز کر گئی تھی۔ پیر کی صبح واپسی کی پرواز تھی۔ واپسی کی پرواز مگر موسم کی خرابی کی وجہ سے منسوخ ہو گئی۔ منگل کے روز جو جہاز چلنے کی امید تھی ان میں ایک بھی خالی نشست میسر نہیں تھی۔ بیوی کو اگر میری طرح روز کی روٹی روز کمانے کی مشقت سے گزرنے کو مجبوری لاحق نہ ہوتی تو سکردو میں قیام بڑھایا جاسکتا تھا۔ اسے ناممکن پاتے ہوئے بذریعہ سڑک واپسی کا فیصلہ ہوا۔ جاگلوٹ تک مجھ سے موبائل فون کے ذریعے اس کا رابطہ رہا۔ آخری پیغام پیر کی شام ساڑھے سات بجے کے قریب یہ ملا کہ بیگم صاحبہ چلاس سے دو گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔
منگل کی صبح اٹھ کر فون دیکھا تو بیوی اور بچی کی جانب سے کوئی فون یا پیغام نہیں آیا ہوا تھا۔ فرض کرلیا کہ تھکن سے چور سورہے ہوں گے۔ معمول کے مطابق اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے بعد دوسرے دن کے لئے کالم لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ کالم لکھ کر ٹائپنگ کے لئے بھجوادیا تو خیال آیا کہ فیملی کو چیک کیا جائے۔ ان تینوں کے فون میں سے لیکن کسی ایک سے بھی رابطہ مسلسل کاوشوں کے باوجود نہ ہوپایا۔ دریں اثناء ٹائپ شدہ کالم بھی مجھے وصول ہوگیا۔ اس کی پروف ریڈنگ کی اور دفتر بھجوا دیا۔
کالم دفتر بھجوا دینے کے بعد میں تقریباََ ایک گھنٹے تک مسلسل اپنی بیوی، بیٹی اور داماد کے فون نمبروں کو ملانے کی کوشش کرتا رہا۔ ہر فون سے ’’خبر‘‘ یہ آتی کہ جس نمبرسے میں رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ ’’بند‘‘ ہے۔ ایک گھنٹے کے بعد میرے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ سو طرح کے خوف ذہن میں جمع ہونے لگے۔ فیملی کے ’’اغوا‘‘ ہو جانے کا خوف شدت سے محسوس ہونے لگا۔ پریشانی کے اس عالم میں اپنے ایک صحافی دوست سے رابطہ کیا۔ وہ انتہائی مخلص و متحرک ہونے کے علاوہ ٹھنڈے مزاج کا حامل ہے۔ دوستوں کی مدد کرنے کا ہر ڈھنگ استعمال کرنے کو آمادہ رہتا ہے۔ اس کا نام لکھوں گا تو ناراض ہو جائے گا۔ بہرحال مہربان دوست سے اپنی فکر کا اظہار کیا تو اس ٹھنڈے مزاج شخص کو بھی یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ میرا فیملی کے تین افراد کے ٹیلی فونوں سے رابطہ نہ ہونا ’’غیر معمولی‘‘ ہے۔ ہمیں مگر گھبرانے کے بجائے ٹھنڈے مزاج سے اس کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔
حل ڈھونڈتے ہوئے اولیں مشکل یہ پیش آئی کہ مجھے اس ہوٹل کا نام بھی پوری طرح یاد نہیں تھا جہاں میری فیملی سکردو میں قیام پذیر تھی۔ اپنی لاعلمی سے پہلا سبق یہ سیکھا ہے کہ جب بھی آپ کے خاندان کا کوئی فرد کسی دوسرے شہر جائے۔ وہاں پہنچ کر آپ کو خیر خیریت سے پہنچ جانے کی اطلاع دے تو آپ اس ہوٹل یا ریسٹ ہائوس کا نام، مقام اور فون نمبر وغیرہ فی الفور حاصل کریں۔ بہرحال صحافی دوستوں کی مدد سے بالآخر یہ پتہ لگا لیا گیا کہ میری فیملی سکردو کے کس ہوٹل میں قیام پذیر تھی۔ وہاں سے ان کی روانگی بھی کنفرم ہو گئی اور یہ اطلاع بھی مل گئی کہ وہ سکردو سے کتنے بجے کونسی گاڑی کرائے پر لے کر اسلام آباد روانہ ہوئے تھے۔ ان کے ڈرائیور کے نام اور اس کے ٹیلی فون کا پتہ بھی چل گیا۔ مختلف سرکاری اداروں سے مسلسل رابطے کے بعد بالآخر یہ اطلاع ملی کہ جس گاڑی میں فیملی سفر کر رہی ہے وہ منگل کی دوپہر داسو کے قریب پہنچنے والی ہے۔
منگل کی رات گیارہ بجے بیوی اور بچے گھر لوٹے تو خبر ملی کہ چلاس سے روانہ ہوتے ہی ان کے فون بند ہو گئے تھے۔ چلاس سے اسلام آباد آنے والی سڑک بہت خراب حالت میں ہے۔ بھاشا اور داسو ڈیم کی تعمیر کی بدولت ایک خاص وجہ سے جو مجھے بیان کرنے کی ضرورت نہیں چلاس سے اسلام آباد آنے والی سڑک پر بسا اوقات تین سے چار گھنٹوں تک موبائل فون کے سگنل کچھ ’’ماہرین‘‘ کی نقل و حرکت محفوظ بنانے کے لئے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے میں جن اوقات میں اپنی فیملی سے رابطے کی کوشش کررہا تھایہ وہی اوقات تھے جب ’’حساس‘‘ نوعیت کی نقل وحرکت ہو رہی تھی۔
جو ماہرین ہمارے مستقبل کے پانی کی ضروریات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ہمارے دور درازشمالی علاقوں میں کام کر رہے ہیں ان کا تحفظ اور سکون ہر حوالے سے ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ چلاس سے اسلام آباد آنے والی سڑک پر لیکن پاکستان کے دیگر شہروں سے آئے سیاح بھی سینکڑوں کی تعداد میں سفر کرتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں حکومت کو یہ بندوبست یقینی بنانا چاہیے جو مقامی سیاحوں کو تلقین کرے کہ چلاس سے روانہ ہونے سے قبل وہ اپنے خاندان کو یہ اطلاع دیں کہ ان کے سفر کے دوران فلاں سے فلاں مقام تک کتنے گھنٹوں تک موبائل سگنل میسر نہیں ہوں گے۔ جو اطلاع چلاس سے روانہ ہونے والوں کو بذریعہ فون فراہم کی جائے اسے وہاں موجود سیاح اپنے گھروالوں کو فارورڈ کرتے ہوئے انہیں ذہن مائوف کرنے والے ایسے خیالات سے محفوظ بنا سکتے ہیں جنہوں نے مجھ جیسے ’’جہاندیدہ‘‘ شخص کوبھی کئی گھنٹوں تک وہمی مائوں کی طرح پریشان رکھا۔
اپنی پریشانی کی اس کالم کے ذریعے نکاسی کے بعد خیال آیا ہے کہ ٹرمپ نے تمام تر دھمکیوں کے باوجود ابھی تک ایران پر فضائی حملہ نہیں کیا ہے(بدھ کی صبح سوا گیارہ بجے تک)۔ بدھ کی دوپہر واشنگٹن میں موجود پاک آرمی کے سربراہ کے اعزاز میں وائٹ ہائوس میں کھانے کا اہتمام بھی کر رہا ہے۔ کھانے کی یہ دعوت پاکستان میں بے تحاشہ لوگوں کو خوش گوار و ناخوش گوار انداز میں حیران وپریشان کر دے گی۔ لنچ کے بعد وہ دوبارہ کینیڈا چلا جائے گا جہاں G-7 کا اجلاس اختتامی مراحل سے گزرنے کے قریب ہو گا۔ سوال اٹھتا ہے کہ کینیڈا میں اس کی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے تنہائی میں کچھ لمحوں کے لئے ملاقات ہو گی یا نہیں۔ اگر نہ ہوئی تو واضح ہوجائے گا کہ مودی نے ٹرمپ کو واقعتا کچھ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر ناراض کر دیا ہے۔ پاکستان کے لئے وقتی طور پر یہ ’’اچھی‘‘ خبر محسوس ہو گی۔ مودی مگر خود کو نظرانداز کئے جانا کب تک برداشت کرے گا؟ اس کے حوصلے کا امتحان شروع ہو جائے گا۔ فی الوقت اگرچہ دنیا کو پاک-بھارت کشیدگی سے کہیں زیادہ فکر مندی ایران کے بارے میں محسوس ہو رہی ہے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
- بلاول بھٹو زرداری کی "جارحانہ سفارت کاری” - 11/07/2025
- "جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے” - 08/07/2025
- 200 سے اوپر حشر اٹھاتا بجلی کا ایک یونٹ - 04/07/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).