پیارا پاکستان
”اے کاش! پاکستان نہ بنتا“ جیسا جملہ ایک ایسا زہر ہے جو نہ صرف تاریخ کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے بلکہ لاکھوں قربانیوں، شہادتوں، ہجرتوں اور خوابوں کی توہین بھی کرتا ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو یا تو جہالت سے جنم لیتی ہے یا پھر بدنیتی سے۔ آج اگر پاکستان نہ ہوتا تو ہندوستان میں بسنے والے مسلمان کس حال میں ہوتے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف آج کے بھارت پر نظر ڈالنا کافی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا نظریہ اپنے عروج پر ہے۔ بابری مسجد گرا دی گئی، دہلی، گجرات اور مظفر نگر جیسے فسادات میں ہزاروں مسلمان بے گھر اور بے یار و مددگار ہوئے۔ گائے کے گوشت کے شبہے پر نوجوانوں کو سرِعام مارا گیا۔ اذان پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، حجاب پر اعتراض ہو رہا ہے، قربانی پر سوال اٹھایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی وفاداری پر شک کیا جا رہا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں۔
مسلمان لڑکے اور لڑکیاں تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں، سرکاری نوکریوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ شہریت کے قوانین تک ایسے بنائے جا رہے ہیں جن میں واضح تعصب جھلکتا ہے۔ کشمیر ایک کھلا جیل خانہ بن چکا ہے، جہاں ہر لمحہ فوجی بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی ہے، اور جہاں حقِ خود ارادیت کا مطالبہ غداری سمجھا جاتا ہے۔
ایسے میں اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا آج برصغیر کے مسلمان محفوظ ہوتے؟ کیا وہ اپنے دین پر آزادی سے عمل کر سکتے؟ کیا وہ کبھی سربلند ہو سکتے؟ شاید نہیں۔ پاکستان کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا کہ مسلمان اپنے مذہب، ثقافت اور شناخت کے ساتھ آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ آج اگر ہم اذان دیتے ہیں، محرم مناتے ہیں، عیدیں مناتے ہیں تو یہ سب پاکستان کی وجہ سے ہے۔ یہاں قرآن و سنت پر مبنی آئین ہے، اسلامی نظریاتی کونسل ہے، حج، زکوة اور اسلامی نظامِ تعلیم ہے۔ یہ سب کچھ ایک آزاد مسلم ریاست کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔
پاکستان کے مسائل سے انکار نہیں لیکن کیا ان مسائل کی بنیاد پاکستان کا وجود ہے؟ یا وہ لوگ جو پاکستان کو سنوارنے کے بجائے گالیاں دے کر اپنی تسکین تلاش کرتے ہیں؟ آج دنیا کی ہر قوم اپنے ملک کی ترقی کے لیے تنقید بھی کرتی ہے، اصلاح بھی لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ ”کاش ہمارا ملک نہ ہوتا“ ۔ یہ جملہ صرف وہی کہہ سکتا ہے جو یا تو احسان فراموش ہو یا تاریخ سے ناواقف۔
پاکستان نے ہمیں عزت دی، شناخت دی، پرچم دیا، زبان دی اور سب سے بڑھ کر آزادی دی۔ اس ملک نے ایٹمی طاقت بن کر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملایا۔ اس نے سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم اور فنون میں وہ کارنامے انجام دیے جن پر پوری امتِ مسلمہ فخر کرتی ہے۔ اگر حالات ابتر ہیں تو ان کا حل پاکستان کو ختم کرنا نہیں بلکہ پاکستان کو بہتر بنانا ہے۔
آج سوشل میڈیا پر بیٹھ کر، اسی آزادی کے ماحول میں، ریاست، اداروں، فوج حتیٰ کہ ملک کے قیام پر تنقید کرنا معمول بن چکا ہے۔ لوگ بھول چکے ہیں کہ یہی آزادی کسی اور جگہ پر ایک خواب ہے۔ بھارت میں تو صرف سوال اٹھانے پر جیل، مقدمے اور بغاوت کی دفعات لگا دی جاتی ہیں۔
پاکستان نہ ہوتا تو شاید ہم بھی وہی ہوتے جو آج بھارت کا عام مسلمان ہے۔ خوف میں جیتے، شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے، اور ہر وقت اپنے وجود کا جواز پیش کرتے۔ آج اگر ہم اپنا جھنڈا فخر سے لہرا سکتے ہیں تو یہ اس پاکستان کی دین ہے جسے کچھ لوگ کوسنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
یہ وقت ہے شکر گزاری کا، اصلاح کا، تعمیر کا۔ نہ کہ ناشکری، الزام تراشی اور نفرت کے پرچار کا۔ پاکستان ایک نعمت ہے اور جو نعمتوں کی قدر نہیں کرتے، وہ تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔
- دبنگ وزیر اعلیٰ۔ علی امین خان گنڈاپور - 06/07/2025
- پیارا پاکستان - 01/07/2025
- نظریہ، اعتماد اور قیادت: علی امین خان گنڈاپور کے خلاف سازشیں کیوں؟ - 27/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).