غزہ اور مغربی ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار
دنیا کی جدید تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جس نے اتنی دیر تک مسلسل ظلم و ستم، تباہی و بربادی اور انسانی حقوق کی پامالی دیکھی ہو جتنی کہ غزہ کی پٹی نے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اسکولوں، اسپتالوں، پناہ گاہوں اور بازاروں پر گولہ باری، عورتوں اور بچوں کا قتل عام، پانی، بجلی اور دواؤں کی بندش جیسے جرائم کسی بھی انسانی معاشرے کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ ان المناک مناظر کو نظر انداز کر کے ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کو دنیا کی آنکھ اور کان سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو ایک معمولی واقعے کو عالمی مسئلہ بنا سکتی ہے اور ایک بڑے سانحے کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کر سکتی ہے۔ غزہ کے معاملے میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے شعوری یا لاشعوری طور پر وہی دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ ہزاروں معصوم فلسطینی جب صیہونی بمباری کی زد میں آتے ہیں، تو مغربی نشریاتی ادارے اسے دفاعی کارروائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی بچوں کی لاشیں تڑپ رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف عالمی خبر رساں ادارے اسرائیلی سلامتی کے خدشات کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔
ان اداروں کی جانبداری اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے جب ہم ان کی رپورٹنگ کا موازنہ دیگر عالمی سانحات سے کرتے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کے دوران مغربی ذرائع ابلاغ نے دن رات کی رپورٹنگ کے ذریعے پوری دنیا کو متحرک کر دیا۔ انسانی ہمدردی کے جذبات کو ابھارا گیا، متاثرین کی داستانیں دکھائی گئیں، اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا۔ لیکن یہی ذرائع ابلاغ غزہ میں ہونے والے قتل عام پر ایسے خاموش ہیں جیسے وہاں انسان نہیں، کوئی اور مخلوق مر رہی ہو۔
غزہ کے مظلوم عوام کی آواز کو دبانے کے لیے ذرائع ابلاغ مختلف چالاکیاں استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلا ہتھکنڈہ تو یہی ہے کہ وہاں کی خبروں کو بالکل نشر ہی نہ کیا جائے۔ اگر کبھی خبر دی بھی جائے تو ایسے الفاظ اور انداز میں کہ ظلم کرنے والا مدافع اور مظلوم دہشت گرد کے طور پر پیش ہو۔ صیہونی فوج کے حملے کو جوابی کارروائی کہا جاتا ہے، جبکہ فلسطینی مزاحمت کو شدت پسندی یا دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ الفاظ کا یہ کھیل حقیقت کو بگاڑنے کا ایک مکروہ ہنر بن چکا ہے۔
اس خاموشی اور جانبداری کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ مغربی طاقتوں کے سیاسی اور مالی مفادات ہیں۔ صیہونی ریاست مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کی قریبی دوست ہے۔ ذرائع ابلاغ، جن میں سے اکثریت انہی ممالک میں قائم ہے، اپنے ممالک کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ بڑے تجارتی ذرائع ابلاغ کے لیے مجبوری بھی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں اور اشتہارات دینے والے اداروں کے مفادات کو ترجیح دیں، جن میں کئی صیہونیت نواز کمپنیاں شامل ہوتی ہیں۔
ایک اور وجہ مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی نفرت بھی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے کئی دہائیوں سے مسلمانوں کو شدت پسندی سے جوڑنے کا جو بیانیہ بنایا ہے، وہ اب فلسطینیوں کی حق پر مبنی جدوجہد کو بھی اسی نظریے سے دیکھتے ہیں۔ جب کوئی فلسطینی مظاہرہ کرتا ہے یا اپنی سرزمین کے دفاع میں آواز اٹھاتا ہے، تو وہ اسے شدت پسندی کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس صیہونی فوج کی ہر کارروائی کو سلامتی کا حق کہہ کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔
انٹرنیٹ پر چونکہ روایتی ذرائع ابلاغ کی طرح سخت ادارتی پابندیاں نہیں ہوتیں، اس لیے سوشل میڈیا اب غزہ کے مظالم کی اصل تصاویر اور خبریں عام کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عالمی رائے عامہ کسی حد تک بیدار ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے نوجوان، خاص طور پر مغربی ممالک کے طلبہ، فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ مگر روایتی ذرائع ابلاغ ان مظاہروں کو بھی یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں یا انہیں نفرت انگیز قرار دے کر بدنام کرتے ہیں۔
صحافت کی دیانت داری کا تقاضا ہے کہ مظلوم اور ظالم کے درمیان فرق رکھا جائے۔ ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ مظلوم کی آواز بنے، نہ کہ طاقتور کی ترجمانی کرے۔ لیکن جب ادارے خود طاقت کا حصہ بن جائیں، تو وہ سچ بولنے کی جرات کھو دیتے ہیں۔ غزہ کے المیے پر خاموشی، صرف ذرائع ابلاغ کی ناکامی نہیں بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر کی شکست ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ بھی اکثر بین الاقوامی بیانیے کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی فلسطین کا مسئلہ وقتی سرخیوں تک محدود رہتا ہے اور گہرائی سے اس پر رپورٹنگ کا عمل بہت کم نظر آتا ہے۔ جو آوازیں بلند ہوتی بھی ہیں، وہ عموماً رسمی اور جذباتی نوعیت کی ہوتی ہیں، جن میں سنجیدہ تحقیق کا فقدان ہوتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم ذرائع ابلاغ کے کردار پر سنجیدگی سے سوال اٹھائیں۔ اگر خبر رساں ادارے صرف طاقتور کی آواز بنیں گے، تو وہ سچائی کے بجائے ظلم کے ہمنوا بن جائیں گے۔ ہمیں ایسے متبادل ذرائع پیدا کرنے ہوں گے جو غیر جانبداری سے حقائق دنیا کے سامنے رکھیں، جو مظلوموں کی صدائیں دبنے نہ دیں، اور جو انسانوں کو صرف تعداد میں نہ گنیں بلکہ ان کے دکھ کو محسوس کریں۔
غزہ کی سرزمین سے اٹھنے والی آہیں آج صرف فلسطینیوں کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی پکار ہیں۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل یہ خاموشی ہمارے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ سچ کہنا، ظلم کو ظلم کہنا، اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا صرف صحافت نہیں، انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔
غزہ جل رہا ہے، انسانیت تڑپ رہی ہے، اور دنیا کے خبر رساں ادارے اب بھی صرف مالی مفادات، اشتہارات اور سیاسی وابستگی کے پیمانوں پر خبر کو تول رہے ہیں۔ یہ صرف ایک خطے کا المیہ نہیں، ہماری اجتماعی بے حسی کا آئینہ ہے۔ اور جب آئینہ دکھانے والے خود اندھے ہو جائیں، تو سچ کے چراغ ہمیں خود روشن کرنا پڑتے ہیں۔
- غزہ اور مغربی ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار - 03/07/2025
- مخصوص نشستوں کا زخم - 30/06/2025
- کیا ڈونلڈ ٹرمپ واقعی نوبیل امن انعام کے مستحق ہیں؟ - 28/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).