مجسمہ انسانیت عبدالستار ایدھی بمقابلہ چھیپا جی ٹک ٹاکر
یہ بحث ہی فضول ہے کہ فلاں کے چلے جانے سے خلا پر نہیں ہوتا یا اس ایسا کبھی پیدا نہیں ہو گا، امکان و حوادث کے بیچ کئی غنچے کھِلتے ہیں اور کچھ بنا کھلے ہی فنا ہو جاتے ہیں، معلوم اور نامعلوم اس جہاں کا شروع دن سے یہی چلن ہے، چمن کھلتا ہے مرجھا جاتا ہے اور یہ تسلسل بنا رکے صدیوں سے جاری ہے۔ علت و معلول کے اس گہوارے میں لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں، کسی کے چلے جانے سے وقت کا چکر نہیں رکتا، جذباتی پہلیاں ہماری خواہش تو ضرور ہو سکتی ہیں لیکن کائنات کے اٹل اصولوں کے سامنے ان کی بھلا کیا حیثیت؟ ہاں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ کچھ سمے تک ایک کمی یا خلا سا محسوس ہوتا ہے لیکن وقت یہ خلا بھی پر کر دیتا ہے اور گزرتے سمے کے ساتھ انسانی یادداشت میں محفوظ اپنوں کے چہرے بھی دھندلا جاتے ہیں۔
سادگی کا بھی اپنا ایک حسن ہوتا ہے، بعض اوقات یہ جوہر نایاب کسی کی شخصیت کا جزو لاینفک بھی بن جاتا ہے اور یہ نیچرل ہوتا ہے، بناوٹ یا دکھاوے سے اس کا قدرتی حسن ماند پڑ جاتا ہے اور اس کا یونیک پن پھیکا سا پڑ جاتا ہے۔ سادگی اور خلوص کی بات کی جائے تو لمحہ موجود تک عبدالستار ایدھی کا متبادل شاید ہی کوئی ہو، جب تک زندہ رہا انسانوں کے بیچ بلا تفریق رہا، رنگ، نسل، قوم اور مذہب سے بے نیاز انسانیت کی خدمت میں جتا رہا، مرتے دم تک کوئی بھی نہ جان پایا کہ وہ انسانوں کی قائم کردہ خواہ مخواہ کی تقسیم یا بٹوارے کی کون سی گوت، فرقہ یا مذہب سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ وہ سب کا ایدھی تھا۔ نا فرقے پر کوئی بات اور نہ خداوندان دین و ریاست سے کوئی سروکار، نا کسی سے کوئی مطالبہ اور نہ شکوہ و شکایت، بس عوام کے بیچ جھولی پھیلا کر انہی کے دکھوں کا مداوا کرنے میں مصروف رہا۔
لوگ بڑا کچھ کہتے رہے، نماز نہیں پڑھتا، فرائض دین میں کوتاہی کرتا ہے، سرراہ اور کوڑے کے ڈھیر سے ملنے والے بچوں کو نا صرف نہلاتا دھلاتا ہے بلکہ ان کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام لکھوا کر انہیں پہچان تک دیتا ہے، یہ جانتے بوجھتے بھی کہ یہ نطفہ حرامی ہیں اور کسی کی شیطانی ہوس کا شاخسانہ ہیں۔ وہ سب سن کر مسکرا دیتا، جواب تو درکنار اشارے کنائے سے بھی اجتناب برتتا کہ کہیں انسانیت کو ٹھیس نہ پہنچے، وہ جانتا تھا کہ انسانی احساسات کیا ہوتے ہیں، ٹوٹے دلوں کو راحت اور مرجھائے چہروں پر مسکراہٹ لانے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، عبادات و ریاضت تو انسان اور خالق کے بیچ کا معاملہ ہوتا ہے اس سے بھلا کسی دوسرے کو کیا سروکار؟
ہاں انسانوں کے بیچ انسانیت نبھانا انسانیت کی معراج ہے، ایدھی تو چلا گیا لیکن اب اس میدان میں ٹک ٹاکر کود پڑے، جو فلاحی کام بھی منصوبہ بندی اور کیمرے کی آنکھ کو باقاعدہ گواہ بنا کر کرتے ہیں تاکہ مقبولیت کی اڑان بنی رہے، اداکاری اور شو بازی کے لیے باقاعدہ کردار چنتے ہیں جو ضرورت مند بن کر مختلف اسٹال، ہوٹل، بیکری یا فارمیسی پر پہنچ کر وڈیو پلاننگ کا حصہ بنتے ہیں پھر اچانک سے ایک مسیحا نمودار ہوتا ہے اور جھٹ سے ان کی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مسیحا کون ہے؟
یہ چھیپا ویلفیئر فاؤنڈیشن کے سربراہ چھیپا جی بذاتِ خود ہیں جو ٹک ٹاک کے ذریعے مقبول عام ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، گزشتہ روز کی ایک وائرل ویڈیو میں چھیپا جی ایک بیکری میں کریم کیک کے ایک شو کیس کے سامنے موجود ہوتے ہیں، ایک باپ اور بیٹا سالگرہ کیک کی خریداری کے سلسلے میں وہاں پہنچتے ہیں۔ بیٹا جو کیک پسند کرتا ہے اس کو خریدنے کے لیے باپ کی اتنی حیثیت نہیں ہوتی تو بیٹا وہاں سے ناراض ہو کر جانے کی کوشش کرتا ہے، اتنے میں چھیپا جی دکاندار سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یہ جتنے پیسے دے رہے ہیں لے لو، بقیہ میں ادا کر دوں گا اور کیک کے اوپر میرا نام لکھ دو کہ یہ چھیپا جی کی طرف سے گفٹ ہے۔
مطلب سو فیصد اداکاری ہے، مسیحائی بھی اور اس قدر دکھاوا بھی، کوئی مثبت اپروچ نہیں ہے۔ سیدھا سیدھا مارکیٹنگ اسٹائل ہے، فلاحی کاموں، انسانیت کی خدمت اور مسیحائی کے لیے اس قدر بھونڈی تشہیر کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کو صدقات و خیرات یا عطیات کی صورت میں جو پیسہ ملتا ہے وہ ٹک ٹاک یا ذاتی تشہیر کے لیے تھوڑے ملتا ہے، آپ ان کی ٹک ٹاک آئی ڈی دیکھ لیں یہی تشہیری چونچلے ملیں گے۔
نرگیست ایک نفسیاتی عارضہ ہوتا ہے، یہ مرض انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے، اس سے پہلے بھی ایک مسیحا گھڑا گیا تھا جس کی تشہیر ریاستی سطح پر کی گئی تھی، آج کل زیر عتاب ہے، یاد رہے کہ ان صاحب نے بھی ٹک ٹاکرز کو ذاتی ”شخصی اور ہالنگ“ کے لیے مدعو کیا تھا۔
اس قوم کو شروع دن سے ہی مسیحائی کے جھنجنوں پر لگایا گیا ہے، تلقین بابوں اور کلین شیو روحانی صوفیوں نے ہماری نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو خوب کچلا، اب یہ نوجوان ذہن تو رکھتے ہیں لیکن شعور اور سوال سے خالی ہیں۔
- مجسمہ انسانیت عبدالستار ایدھی بمقابلہ چھیپا جی ٹک ٹاکر - 04/07/2025
- اونچی دکان پھیکا پکوان: پرائیویٹ مافیا کے تناظر میں - 29/06/2025
- مشترکہ فیملی نظام ایک خوبرو اور حساس نوجوان کی جان لے گیا - 24/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).